تحقیق و جستجو کا زندہ معجزہ (از:زاہدہ حنا)

Bhatkallys

Published in - Other

10:25AM Wed 19 Aug, 2015
ہندوستان سولہویں، سترہویں صدی میں سونے کی چڑیا کہلاتا تھا اور اسے اپنے قبضے میں کرنے کے لیے پرتگیزیوں،ولندیزیوں، انگریزوں اور فرانسیسی تجارتی کمپنیوں کی توجہ 16 ویں صدی سے آغاز ہوگئی تھی۔ یہ فرانسیسی تھے جنھوں نے سب سے آخر میں ہندوستان کا رخ کیا، اپنی کوٹھیاں پونڈی چری، چندرنگر، ماہی اور دوسرے ساحلی شہروں میں قائم کیں اور 1954 میں سب سے آخر میں اپنی نو آبادیات لپیٹ کرہندوستان سے رخصت ہوئے۔ سترھویں صدی کے فرانسیسی ڈاکٹر اور سیاح فرانسوا برنیر سے ہم میں سے بیشتر واقف ہیں، وہ 1658کے بعد کئی برس تک مغل شہشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دربار سے وابستہ رہا اور اس کے ذاتی معالج کے طور پر خدمات انجام دیتا رہا۔ ولی عہد داراشکوہ کے زوال، چاروں بھائیوں کے درمیان تخت نشینی کی ہولناک جنگ اور داراشکوہ کے قتل کا معاملہ اس نے اپنی یادداشتوں میں لکھا۔ فرانس سے ہندوستان کے تعلقات کئی صدیوں پر پھیلے ہوئے رہے۔ ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ ان واقعات میں فرانسیسی گورنر جوزف ڈوپلے، نواب سراج الدولہ اور لالی ٹولنڈال بالکل سامنے کے نام ہیں۔ سلطان ٹیپو کے فرانسیسیوں سے گہرے مراسم رہے اور اس نے ان کی مدد سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط سے نجات چاہی لیکن اس میں ناکام رہا اور اپنی جان سے گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فرانسیسی دانشوروں اور ادیبوں کی توجہ ہندوستانی ادب اور تاریخ کی طرف مبذول ہوئی اور ان میں سے کئی اس کی زبانوں کی ادبی تاریخ کی شناوری میں مصروف ہوئے۔ ان میں سے ایک موسیو گارسیں دتاسی تھا۔ دتاسی 1794کے فرانس میں پیدا ہوا اور 1878 میں اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔ مشرقی زبانوں کے علم و ادب کی تحقیق میں اس کے شب و روز گزرے۔ اس نے عمر خیام کی 10 رباعیات کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا جو 1862 میں مدراس سے چھپنے والی خیام کی رباعیات کے مجموعے میں شامل ہے۔ اس کا اصل کارنامہ اس کے وہ مضامین ہیں جو گزشتہ برس ’تاریخ ادیبات اردو‘ کے عنوان سے کراچی یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر نے شایع کیے ہیں۔ 939 صفحات پر پھیلی ہوئی یہ کتاب فرانسیسی میں لکھی گئی۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1839 میں پیرس سے شایع ہوا اور اس کی تکمیل 1871 میں ہوئی۔ یہ ایک مستشرق کی تحقیق و جستجو کا زندہ معجزہ ہے۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ اردو ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے گارسیں دتاسی کے دل کو چھو چکی تھی۔ وہ ’تاریخ ادیبات اردو‘ کے دیباچے میں لکھتا ہے کہ ’’جب تک مسلمان حکومتوں کا قیام رہا اگرچہ اس میں سیاسی، عدالتی اور سرکاری زبان کی حیثیت سے فارسی زبان بالعموم مستعمل تھی پھر بھی تمام ہندوستان میں اردو، فارسی رسم الخط میں مقبول رہی ہے۔ کچھ مدت تک انگریزی حکومت نے مروجہ سرکاری زبان کو قائم رکھا لیکن اس مشکل کو محسوس کرکے کہ ہندوستانیوں کے لیے فارسی ایک بیرونی زبان ہے، اس نے عوام کے فائدے کے لیے 1831 میں ہر صوبے میں فارسی کو علاقائی زبان سے بدل دیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اردو کا انتخاب شمالی اور شمال مغربی صوبوں کے لیے کیا گیا تھا لیکن تمام ہندوستان میں عام طور پر اس فیصلے کو سراہا گیا اور 37 برس تک ایسی کامیابی سے کام ہوا کہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملا۔ لیکن کئی برسوں سے ہندوستان میں بھی وہی رجحان پیدا ہوگیا ہے جو یورپ میں قومی جذبے کے نام سے رونما ہوا تھا۔ چونکہ ہندوؤں نے، جو مسلمانوں کے عہد میں سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے تھے، اس لیے ان کا اقتدار ختم ہوتے ہی ردعمل کے طور پر ہندوؤں نے اس اقتدار سے نجات حاصل کرنا چاہی جو مسلمانوں کے اثر کا نتیجہ تھا اور اس کے لیے انھوں نے اردو پر حملے کرنے شروع کیے، کیوں کہ اردو کا رسم الخط فارسی تھا اور اردو ہی میں حکومت کی مہریں لگتی تھیں۔ وہ اپنے رجعت پسندانہ خیالات کی تائید میں جو دلیلیں پیش کرتے ہیں وہ بڑی کمزور ہوتی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ملکی زبان (دیہاتی زبان سے مراد ہے) اردو نہیں ہندی ہے، لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کرجاتے ہیں کہ اردو ایک خوبصورت ادبی سرمایہ کی مالک ہے۔ اس کے برعکس ہندی خالص ادبی حیثیت سے تقریباً اب تک استعمال نہیں ہوئی۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہر گاؤں اور ہر فرقے کی ہندی ایک دوسرے سے الگ ہے۔ یہ مسئلہ اسی نوعیت کا ہے جیسا کہ فرانس میں تنگ نظر قوم پرستوں نے پرووینسال(Provencial) بولی کو ازسرنو زندہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہندو، فارسی رسم الخط کے مخالف ہیں اور ناگری کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘ وہ اردو اور دیوناگری رسم الخط کی چپقلش کا ذکر کرتے ہوئے 1831 میں لکھتا ہے کہ اگر برٹش سرکار نے جھگڑے کو نمٹانے کے لیے ہندوی (اردو) کے لیے رومن رسم الخط اختیار کیا تو دتاسی کے کہنے کے مطابق یہ ادبی نقطہ نظر سے بڑا افسوس ناک واقعہ ہوگا۔ یہ لکھتے ہوئے وہ نہیں جانتا تھا کہ 1960کی دہائی میں ہندوی یا اردو پر یہ وقت بھی آئے گا کہ ایک پاکستانی آمر جنرل ایوب خان اردو کو رومن رسم الخط میں رائج کرنے کی کوشش کرے گا لیکن اس میں کامیاب نہ ہوسکے گا۔ وہ اپنے مقدمے میں یہ بھی لکھتا ہے کہ ’’ہندوستانی (اردو) ایک بولی کی حیثیت سے تمام ایشیا میں اپنی شگفتگی اور پاکیزگی کے لیے ایسی مشہور ہے کہ دنیا کی کوئی اور زبان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔‘‘ یہ کتاب جو فرانس میں لکھی گئی، 1960کے ابتدائی برسوں تک کتب خانوں میں سوتی رہی، بیسویں صدی کی ابتدا میں دتاسی کا ذکر ہندوستان کے اردو داں حلقے تک پہنچ چکا تھا۔ مولوی عبدالحق نے ’خطبات گارسیں دتاسی‘ کے نام سے اس کے بعض مضامین کا اردو ترجمہ کیا جس کی بنا پر اس فرانسیسی مستشرق کے نام سے اردو کا ادبی حلقہ بخوبی آگاہ ہوچکا تھا۔ دتاسی نے جس عرق ریزی سے اردو زبان و ادب کی اس 800 سالہ تاریخ کو مرتب کیا، اتنی ہی دیدہ ریزی سے اس کتاب کا اردو ترجمہ ایک فرانسیسی خاتون لیلیان سیکتن ناز رو نے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی نگرانی میں کیا۔ للیان کو اردو سے دلچسپی عرصہ دراز سے پیرس میں مقیم ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے روابط کی بنا پر پیدا ہوئی جو ہمارے ایک نامی گرامی عالم تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے 50 کی دہائی میں اردو سیکھی، پیرس کی سوربون یونیورسٹی اور مشرقی زبانوں کے ادارے سے تحصیل علم کے بعد دتاسی کی اس کتاب کو اردو میں منتقل کیا۔ اس ترجمے پر بھی نصف صدی گزر گئی، اب کہیں اس کے نصیب جاگے اور اردو کے ایک ممتاز دانشور اور محقق ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اس کی ترتیب و تدوین کی اور اس کی اشاعت کا مشکل مرحلہ پاکستان اسٹڈی سینٹر اور اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جعفر احمد کے ہاتھوں سرانجام پایا۔ اس کتاب کے آغاز میں ہی لیلیان نے کئی ایسے موضوعات کی نشان دہی کی ہے جن کے بارے میں وہ دتاسی کے خیالات کو نادرست قرار دیتی ہیں۔ اور یہ نکتہ اٹھاتی ہیں کہ گارسین نے اپنے دیباچے میں اردو کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ صحیح نہیں معلوم ہوتے جیسے یہ کہ ہندو یا مسلمان اردو بولنے پر مجبور کیے گئے۔ اردو دراصل ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی میل جول سے سماجی ضرورت کے ماتحت وجود میں آئی ہے۔ اس نکتے پر لیلیان نے تفصیل سے بحث کی ہے۔ موسیو گارسیں دتاسی جس نے کبھی ہندوستان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا اور اردو سے اس کی گہری واقفیت صرف کتابوں، رسالوں اور اخباروں کے ذریعے ہوئی، اس نے جس جانفشانی سے اردو ادیبات کی تاریخ مرتب کی، اس کا سرسری جائزہ لینا بھی ایک بہت مشکل کام ہے۔ ) جاری ہے(