بدلتے روز و شب اور کیلنڈر کی کہانی(چوتھی قسط) 

Bhatkallys

Published in - Other

03:25PM Sun 12 Mar, 2017
از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  تاریخی حیثیت سے یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ رومن کیلنڈر کی خامیوں کو دور کرتے ہوئے نیا روپ دے کر جولین کیلنڈر بنایا گیا تھا۔اور پھر جولین کیلنڈر میں ترمیم کے بعد گریگورین کیلنڈر اپنایا گیا ہے۔ان ساری تبدیلیوں کے باوجود جدید زمانے کے گریگورین کیلنڈر میں موجود ان 12مہینوں میں سے بیشتر مہینوں کے نام رومن تہذیب اور کیلنڈر سے ہی وجود میں آئے ہیں۔ سال کے مہینے اور قرآن حکیم: موسموں کے آنے جانے اور بدلتے روز وشب یا پھر سورج کے گرد زمین کی گردش کا عرصہ اور فاصلہ مقررکرتے ہوئے جس زمانے میں جو نتائج برآمد کیے گئے اسی بنیاد پر مختلف ادوار میں کیلنڈروں میں ترمیمات کی گئیں اوردنوں اور مہینوں کی تقسیم میں رکاوٹیں پید اہوتی رہیں۔ سابقہ مضمون میں بتایا گیا کہ رومن کیلنڈر میں سال کے 10دس مہینے ہوا کرتے تھے۔ مگر قرآن حکیم کے سورۂ توبہ میں اس موضوع پرکلیہ بیان کردیا گیا ہے کہ : "حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد ، جب سے اللہ نے زمین اور آسمان پیدا کیے ہیں، اللہ کی کتاب میں 12ہی(لکھی ہوئی) ہے۔ان میں سے چار مہینے حرام (ادب کے)ہیں، یہی دین کا صحیح راستہ ہے۔اس لیے ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔۔۔۔۔"(سورۂ توبہ، آیت ۳۶) قمری کیلنڈر اور قرآن حکیم: جیسا کہ اس سلسلۂ مضامین کی ابتدائی قسط میں بتایاجاچکا ہے کہ دنیا میں سورج کی زمین کے گردچکر کاٹنے اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کے اعتبار سے دنیامیں کیلنڈر ترتیب دئے جاتے رہے ہیں جس کی وجہ سے خالص شمسی (solar)،خالص قمری (lunar)اور شمسی و قمری(Lunisolar) کیلنڈروں کاچلن عام رہا۔ مگر قرآن حکیم چاند کے گھٹنے بڑھنے کو کیلنڈرکی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہتا ہے:"وہی ہے جس نے سورج کو روشن کیا۔ اور چاند کومنوربنایا۔ اور چاند کی (گھٹتی بڑھتی) منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کیں، تاکہ تم برسوں کاشماراور (کام کا) حساب معلوم کرسکو۔ اللہ نے یہ سب کچھ برحق پیدا کیا ہے۔ وہ اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں۔" (سورۂ یونس ۔آیت۵) پھر انسانوں کے ذریعے مہینوں کے ہیر پھیر اور ترمیم و تنسیخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ"نسی(امن کے مہینے کو آگے پیچھے کرنا) کفر میں ایک اور کافرانہ حرکت کا اضافہ ہے، جس سے یہ کافر گمراہی میں پڑے رہتے ہیں، کسی سال وہ ایک مہینے کو حلال کرلیتے ہیں اور کسی برس اسی مہینے کو حرام کرکے چھوڑتے ہیں، تاکہ اللہ کے حرام کردہ(ادب کے) مہینوں کی گنتی بھی پوری ہوجائے اور اللہ نے جسے حرام کیا ہے وہ حلا ل بھی ہوجائے، ان کے یہ برے ا عمال ان کے لئے خوبصورت کردئے گئے ہیں، اور اللہ حق کا انکار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔" (سورۂ توبہ ۔ آیت ۳۷) رومن کیلنڈر سے جولین کیلنڈر کاجنم : لہٰذا کی کیلنڈروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ زمانۂ قدیم سے اب تک بارہا کیلنڈروں میں تبدیلیاں اور ترمیمات کی کی گئی ہیں۔موجودہ گریگورین کیلنڈر کا وجود بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔رومن کیلنڈرمیں مہینوں کی تقسیم، دنوں کی تعداد اور موسموں کی آمد ورفت کے پیش نظر اس کیلنڈر میں موجود خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرتے ہوئے ایک نئے ترمیم و اصلاح شدہ reformedکیلنڈر کو46سال قبل مسیح میں جنم دیا گیا اور اس کا جنم داتا روم کا بادشاہ جولیئس سیزر تھا، اس لیے اسے جولین کیلنڈر کے نام سے منسوب کیا گیا۔ اس کیلنڈر کے حساب سے نئے سال کی شروعات یکم جنوری سے ہوئی اور سال کے 12مہینوں پر مشتمل 365اور لیپ ایئر کے 366دن مقرر ہوئے۔ جبکہ رومن کیلنڈر کے اعتبار سے نیا سال مارچ کے مہینے سے شروع ہوتا ہے۔یہ جولین کیلنڈر تمام رومی سلطنت،امریکہ اورپورے یوروپ اور اس کی نو آبادیات میں 1582عیسوی تک رائج تھا۔ لیکن اس کیلنڈر میں بھی خامیاں موجود تھیں۔ سب سے بڑی خامی یہ بتائی جاتی ہے کہ اس کیلنڈر سے یہ واضح نہیں ہوتا تھا کہ زمین کو سورج کے گرد پوراچکر کاٹنے کے لئے حقیقی طور پرکتنا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس کے پیش نظر روم کے عیسائی پادری پوپ گریگوری Pope Gregory XIIIنے جولین کیلنڈر میں موجود خامیوں کو دور کرتے ہوئے نیا ترمیم شدہ کیلنڈر رائج کیا جسے گریگورین کیلنڈر کا نام دیا گیا اور یہی کیلنڈر آج کا مقبول عام کیلنڈر ہے۔لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس کیلنڈر کو ڈیزائن کرنے والا اٹلی کا طبیب، فلاسفراور ماہر نجوم Luigi Lilio تھا جسے ایلوشیئس لیلیئسAloysius Liliusکے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کیا گریگورین کیلنڈر کامل ہے !: جہاں تک کیلنڈروں کے خامیوں سے پاک ہونے کا سوال ہے ، گریگورین کیلنڈر بھی پوری طرح مکمل اور خامیوں سے پاک نہیں ہے۔البتہ موسموں کے حساب اور لیپ ایئر کے تعین میں اسے پرانے جولین کیلنڈر سے زیادہ بہتر ماناجاتا ہے۔ اس کے باوجود جولین کیلنڈر کے متبادل کے طور پر دنیا نے گریگورین کیلنڈر کو ہاتھوں ہاتھ نہیں لیا تھا۔ بلکہ بیسویں صدی تک بھی بہت سارے ملکوں میں جولین کیلنڈر ہی رائج تھا۔ یا دونوں کیلنڈروں کو بیک وقت استعمال کیا جاتا تھا۔ اور خطوط و دستاویزات پرجولین اور گریگورین کیلنڈرس کے حساب سے تاریخیں لکھنے کابیک وقت دوہرا نظام رائج تھا۔ جیسے کہ آج ہم عیسوی تاریخ کے ساتھ ہجری تاریخ لکھا کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں تمام ممالک کو گریگورین کیلنڈر قبول کرنے میں تقریباً 350سال کا عرصہ لگا۔ گریگورین کیلنڈر پہلے کس نے اپنایا! : سن 1582عیسوی میں گریگورین کیلنڈررائج کیا گیا توسب سے پہلے فرانس ( بیشتر علاقوں میں) اٹلی، پولینڈ، پرتگال اور اسپین نے قبول کیا۔تقریباً پونے دو سو سال بعدیعنی 1752میں امریکہ کے بیشتر علاقوں، برطانیہ اور اس کی نو آبادیات (colonies) اور کینیڈا کے بیشتر علاقوں میں اسے رائج کیا گیا۔جبکہ جاپان میں اس کیلنڈر کو تقریباً تین سو سال بعد 1872/1873میں رائج کیا گیا۔1918میں روس اور اسٹونیا میں اسے اپنایا گیا۔ اور اس قطار میں ترکی دنیا کا وہ آخری ملک ہے جس نے 1926/1927میں گریگورین کیلنڈر اپنے یہاں رائج کیا۔ تاریخ میں اس بات کے بھی اشارے ملتے ہیں کہ جب 2ستمبر 1752میں بالآخر برطانیہ نے پارلیمانی فیصلے کے ذریعے جولین کیلنڈر کی جگہ گریگورین کیلنڈر اپنانے کے لئے کیلنڈر میں11دنوں کا اضافہ کیا اور دوسرے دن کی تاریخ 14ستمبر ہونے کا اعلان کیا تو برطانیہ میں عوام مشتعل ہوگئے تھے اور فسادات برپا ہو گئے تھے۔اور حکومت سے مطالبہ کرنے لگے کہ ان کی زندگی کے 11دن انہیں واپس لوٹائے جائیں۔

گریگورین کیلنڈر کا اصل مقصد: جس کسی کو بھی یہ گمان ہو کہ اس کیلنڈر کا عیسائی مذہبی شعائر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے تو اسے جان لینا چاہیے کہ جولین سے گریگورین کیلنڈر کی طرف منتقلی کا اصل مقصد ایسٹر کے تہوار Easterکی تاریخ تبدیل کرنااور اسے موسم بہار ہی میں قید رکھنا تھا، جو کہ جولین کیلنڈر میں ممکن نہیں تھا۔ایسٹرمغربی کرسچین چرچ کا و ہ اہم اور قدیم ترین تہوار ہے جو ان کے عقیدے کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پرموت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے resurrectionکی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے۔جو نئے کیلنڈر کے اعتبار سے اب 21مارچ اور25اپریل کے بیچ اتوار کے دن منایا جاتا ہے۔ انجیل کے نئے عہدنامہ new testamentکے مطابق یہ مسیح کے دوبارہ جی اٹھنے کا عقیدہ عیسائی مذہب کی بنیاد میں شامل ہے۔اسی لیے پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے اسے کیتھولک عیسائی فرقے کی سازش گردانتے ہوئے جلد قبول نہیں کیا۔ خیال رہے کہ پروٹسٹنٹ یا اصلاحی عیسائی فرقہ والے روم کے کیتھولک اور مشرقی آرتھو ڈوکس (صحیح العقیدہ )چرچ کے خلاف ہیں۔لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اس کیلنڈر کو سب سے پہلے روم کے کیتھولک چرچ سے وابستہ ممالک نے اپنایاتھا۔اور پروٹسٹنٹ فرقے نے اسے مسترد کردیا تھا۔

(۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔اگلی قسط ملاحظہ کیجئے)