سچی باتیں۔۔۔ اردو زبان۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

02:12PM Sat 19 Jun, 2021

1941-11-24

’’پنڈت جی کا ناگری پرچارنی سبھا میں آج’’واکھیان‘‘ تھا۔ اُردو کا ’’کھنڈن‘‘ کرکے ابھی پنڈال سے باہر نکلے ہیں۔ اپنے ساتھیوں سے کہتے ہیں ،’’بھئی میں تو تھک بہت گیا، سر میں درد ہونے لگا۔ اور بھوک پیاس بھی بڑے زور کی لگ رہی ہے۔ کہو کچھ کھانے وانے کوملے گا؟‘‘ ساتھی جواب دیتے ہیں، کہ ہاں مہاراج سب کچھ ملے گا، پیا س ہوتو شربت یہیں پی لیجئے گا نہیں تو بازار بھی کچھ دُور نہیںہے۔ وہ کیا جو درزی کی دوکان دیکھ پڑرہی ہے۔ اُس کے پڑوس میں ایک کتاب والا بیٹھتاہے۔ بس اُس کے آگے حلوائی کی دوکان ہے۔ جتنی پوری مٹھائی چاہئے، تازی تازی گرماگرم لے لیجئے۔ وہ دیکھئے، خوانچہ والا وہیں سے نکل رہاہے۔ اچھا اِدھر ہٹے رہئے۔ ایک نعلبند اندھی کھوپری والا گھُسا چلاآتاہے۔ کہیں چھو نہ جائے۔ پہن لیا پاجامہ اور قمیص اور لگے اکڑنے۔ ان لوگوں کے مارے راستہ چلنا مشکل ہے۔ جیسے ہم کوئی مہتروں کے دیش میں رہتے ہیں‘‘۔

راستہ بات کہتے کٹ گیا۔ (بزازہ کے پُل سے نخّاس کی نکّڑ پر پہونچے تھے کہ حلوائی کی دُکان آگئی۔ پنڈت جی بولے، بھئی ہمیں تو ترمال چاہئے، یہ حلوہ وپاؤ پھر تول دینا۔ اور یہ برفی کیا حساب لگائی ہے؟ آدھ سیر تازی جلیبی بھی گرماگرم دے دینا۔ سب کو بانٹ کر کھائیں گے۔ اور یہ خرمے بھی بڑی بہار دکھا رہے ہیں۔ گلاب جامن تو بھلا دیہات کے ایسے یہاں کیا ملیں گے، اس کا مزہ یہ شہروالے کیا جانیں‘‘۔ حلوائی بولا’’مہراج، سب آپ کی کرپاہے، کہئے تو کچھ بالوشاہی بھی رکھ دوں۔ اور یہ شکر پارے نئے رنگ کے ہیں، پاؤ بھر یہ بھی تول دوں؟ آج کل شکر سستی ہے، نہیں توان کا بھاؤ دوروپیہ سیر سے کم نہ ہوتا‘‘۔ پنڈت جی کھاپی کر اُٹھ ہی رہے تھے، کہ سڑک پر ایک سپاہی دکھائی دیا۔ اُس سے تحصیل کا پتہ پوچھا۔ پنڈت جی ایک زمیندار کے مختار اورکارندے بھی تھے۔ اُس کی طرف سے باجگذاری خزانہ میں داخل کرناتھی۔

پنڈت جی اور اُن کے ساتھیوں کی گفتگو آپ نے سُن لی؟ یہ روزمرّہ کی چیزیں ہیں یا نہیں؟ یا ان میں کچھ مبالغہ سے کام لیاگیاہے ؟ جن جن لفظوں کے نیچے خط کھینچ دیاگیاہے، وہ سب فارسی بلکہ عربی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ سب اپنی اصلی ہیئت میں استعمال ہورہے ہوں، اور نہ یہ ضرور ی ہے کہ پنڈت جی اور اُن کے چیلے اور بازار کے حلوائی سب کا تلفظ ہی ٹھیک ٹھیک کررہے ہوں، لیکن بہرحال ہیں وہ فارسی الاصل یا عربی الاصل ہی۔ انگریزی ناولوں کو پڑھئے۔ مختلف طبقوں کی زبان سے کیسی کیسی مسخ شدہ انگریزی سننے کو ملے گی۔ مسخ شدہ املا، مسخ شدہ تلفظ، مسخ شدہ محاورے، لیکن بہرحال ہے وہ سب انگریزی ہی۔ انگریزی کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں…غلط اُردو، دیہاتی اُردو، ہندو اُردو، اُردو ہی ہوتی ہے۔اوراسی کے بولنے پر، ہندوستان کے بڑے حصہ میں، ہرہندوستانی مجبور۔ روزمرّہ کی تمدنی، معاشری، ضرورتوں کے لئے، بازارمیں، کچہری میں، دفترمیں، ڈاکخانہ میں، اسٹیشن پر چند فقرے بھی بولنا ہیں، تو بھی زبان کام دے گی……وہ مصنوعی زبان جو اُردو کے حریف کی حیثیت سے ایجاد کی گئی ہے اُس کی عملداری بس کانفرنسوں ، سمیلنوں، سبھاؤں کے پنڈال تک محدود ہے!۔

 http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/