کیا وزیراعلیٰ یوگی نے ہتھیار ڈالدیئے؟ ۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

02:04PM Sun 13 Aug, 2017
اُترپردیش کے وزیراعلیٰ نے حلف لینے کے بعد بڑے تیور کے ساتھ کہا تھا کہ اب ریاست میں قانون کی حکومت ہوگی وہ تمام غنڈے اور بدمعاش جن کی پہلے حکومتیں پردہ پوشی اور ہمت افزائی کرتی رہی ہیں وہ یا تو سدھر جائیں یا صوبہ چھوڑکر کہیں اور منھ کالا کریں۔ اس اعلان کے چند روز کے بعد ہی انہوں نے یہ دیکھنا شروع کیا کہ سابق وزیر اعلیٰ نے کہاں کہاں کھایا ہے؟ اور اسی دن سے صرف ان کا ایک ہی کام ہے کہ گومتی ندی کے کنارے کنارے بنائی ہوئی تفریح گاہوں میں کیا کیا یا قبرستانوں کی چہار دیواری میں کتنا کھایا لکھنؤ آگرہ جو سڑک بنائی ہے جس پر جنگی جہاز بھی اُتر چکے ہیں اس میں کتنا کھایا اور میٹرو میں کتنا ہضم کیا؟ اُن کی ان چیزوں پر توجہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ صوبہ میں قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ اُترپردیش کے غنڈوں نے ایسا لگتا ہے کہ دوسرے صوبوں کے غنڈوں کو بھی بلا لیا کہ آجاؤ بڑے آرام سے کام ہورہا ہے۔ بلرام پور، متھرا اور نہ جانے کہاں کہاں سے نئی نئی حرکتوں کی خبر آنے لگی۔ درجنوں لڑکیوں کی چوٹی کٹ گئی۔ باپ اور ماں کے بیچ میں سورہی 15 برس کی جوان لڑکی کو تین دبنگ اُٹھالے گئے غریب ماں باپ شور مچاتے رہے لڑکی چیختی چلاّ تی رہی اور اسے ایک کھنڈر میں لے جاکر پٹخ دیا اور گلے پر چھری رکھ کر باری باری تینوں نے منھ کالا کیا۔ ماں باپ نے نامزد رپورٹ لکھائی ہے۔ اور اب کہا جارہا ہے کہ پولیس دباؤ ڈال رہی ہے کہ مقدمہ واپس لے لو۔ ایک جوان لڑکی اسکول جاتی تھی لڑکے مسلسل راستہ بھر چھیڑتے تھے اس نے جانا بند کردیا ایک دن یہ سوچ کر گئی کہ وہ اب چلے گئے ہوں گے۔ اور وہ موجود تھے انہوں نے چاقو مار مارکر اسے ختم کردیا۔ اور وزیر اعلیٰ کی وہ بات کہ رپورٹیں 100 فیصدی لکھی جارہی ہیں اس لئے جرائم زیادہ نظر آرہے ہیں اس کی حقیقت اب ان کے سامنے بھی آگئی۔ گورکھ پور میں یوگی کے گؤشالہ میں درجنوں گائیں ہیں وہ جانور ہوتے ہوئے بھی ان کے قدموں کی آہٹ سے انہیں پہچان لیتی ہیں۔ اگر دوسرے سے کہہ دیا جائے کہ اس گؤشالہ کو سنبھال لے تو چار دن میں چکرا جائے گا۔ یوگی جی نے جو کرسی حاصل کی ہے وہ کانٹوں بھری ہے۔ افسر اور پولیس جب تک دل سے یا جوتہ کے ڈر سے ساتھ نہ دیں کام نہیں ہوسکتا۔ وزیر اعلیٰ جب پولیس کی تعریف کریں گے تو پولیس قانون کے مطابق کام کرے اس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا؟ ہم نے بہت قریب سے پولیس کے افسروں کو دیکھا ہے۔ ایسے بھی ایماندار ملے جنہوں نے ماتحت افسروں سے کہہ دیا کہ جتنا حرام کھانا ہے وہ تمہارا دھرم ہے۔ اگر میں نے یہ سنا کہ انسپکٹر صاحب کو بھی دینا ہے تو وردی نہیں کھال اُتار لوں گا۔ ہم اس زمانہ کے کسی کی بات نہیں کرتے چودھری چرن سنگھ کو قریب سے دیکھا ہے جب تک بڑے سے بڑا پولیس افسر کھڑا رہتا تھا اس کی ٹانگیں کانپتی رہتی تھیں۔ وزیر اعلیٰ کی یہ تجویز کہ وہ ’’یوپی کوکا‘‘ بنانے جارہے ہیں۔ یہ تو ہتھیار ڈالنے کی برابر ہے۔ مہاراشٹر میں مکوکا لگاکر کیا سنبھال لیا؟ کیا وہاں کسانوں کی خودکشی رُک گئی۔ کیا جو غنڈہ گردی تھی اس پر قابو پالیا؟ یہ زنانہ اور اندھا قانون تو اسی لئے ہے کہ ضمانت نہ ہو اور اس کا جو شکار بنیں گے وہ غریب اور معمولی آدمی ہوں گے۔ بات جن دبنگوں کی ہورہی ہے کہ گھر میں گھس لڑکی اُٹھاکر لے جائیں اور پولیس ڈاکٹری معائنہ کرائے اور ایک کو پکڑا ہے کہ جانچ ہورہی ہے۔ ایسے لوگوں کا یوپی کوکا کیا بگاڑ لے گا؟ مکوکا ہو یا کوکا وہ بھی پولیس ہی لگاتی ہے وزیر اعلیٰ یا وزیر داخلہ نہیں لگاتے۔ یوگی جی کو سوچنا چاہئے کہ انہیں ابھی چھ مہینے ہوئے ہیں اور وہ بدمعاشوں سے ہار گئے۔ اس سے ان کی کتنی بدنامی ہوگی؟ اور ایسا ہی غلط فیصلہ یہ ہے کہ گؤرکشکوں کو قانونی درجہ دے رہے ہیں۔ ہریانہ کے بوڑھے وزیر اعلیٰ اور اُتراکھنڈ کے جوان وزیر اعلیٰ جو کرنے جارہے ہیں وہ اس کے سوا کیا ہے کہ وہ غنڈہ گردی کریں گے مگر پولیس انہیں پکڑے گی نہیں کیونکہ وہ سرکاری گؤ رکشک ہوں گے دو وزیر اعلیٰ ایسی خطرناک اسکیم بنائیں اور ہم اسی کا مذاق اُڑائیں یہ اچھی بات نہیں ہے۔ کیا ان دونوں وزیروں کو یہ نہیں معلوم کہ منی پور، ناگالینڈ، اروناچل پردیش، گوا، کیرالہ اور بنگال میں ہزاروں گائیں روز کٹتی ہیں اور ان میں سے زیادہ صوبوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ کیا یہ سرکاری گؤ رکشک وہاں جانے کی ہمت کریں گے؟ کیا انہیں خبر ہے کہ فوجی چھاؤنیوں میں اپنے ملک کی سب سے زیادہ دودھ دینے والی گایوں کے گؤشالے ہیں جن کا دودھ ہمارے فوجی بھائی پیتے ہیں ان سب کو ختم کیا جارہا ہے۔ کیا سرکاری گؤ رکشک ان تمام گایوں کا ذمہ لیں گے۔ یا جے پور میں جاکر ان گایوں کی خدمت کریں گے جو اپنے ہی گوبر اور موت (پیشاب) میں پھنسی پڑی ہیں نہ بیٹھ پارہی ہیں اور نہ کھڑی ہوپارہی ہیں اور بھوک سے ہر دن دس بیس مررہی ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب سنگھ پریوار کے بے روزگار ہیں انہوں نے اپنی محنت اور ووٹ سے حکومت تو بنوادی اور جو جس قابل تھے وہ اپنی اپنی کرسی پر بیٹھ گئے یہ ناکارہ جاہل انہیں غنڈہ گردی کے لئے چھوڑ دیا۔ اب ان کے گلے میں سرکاری پٹہ ڈالا جارہا ہے تو انہیں اتنا بھی بتادیں کہ پلے ہوئے کتوں کی طرح رہیں آوارہ کتوں کی طرح ہر کسی پر حملہ نہ کریں۔ اگر ملک میں سب سے زیادہ ضرورت ہے تو وہ لڑکی رکشک کی ضرورت ہے۔ پہلے اپنے ملک میں ہر مذہب کی لڑکیاں بڑی ہوکر باہر نکلنا بند کردیتی تھیں یا اپنے بھائی یا ماں کے ساتھ جاتی تھیں۔ اب ہندو ہو، مسلمان ہویا سکھ ہر لڑی پڑھ رہی ہے اور اکثر دن میں اکیلی جاتی ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوان جو پڑھنے میں ہمیشہ لڑکیوں سے پیچھے رہتے ہیں وہ اس کا بدلہ راہ چلتی لڑکیوں کو چھیڑکر نکالتے ہیں۔ اُترپردیش سرکار نے پولیس کا ایک دستہ مجنوں اور فرہاد کو سبق سکھانے کے لئے بنایا تھا۔ وہ موجود ہے مگر لڑکیاں گھروں سے اُٹھ بھی رہی ہیں اور راستہ میں قتل بھی ہورہی ہیں صرف اس لئے کہ نوجوان پوری طرح حکومت سے مورچہ لے رہے ہیں۔