سچی باتیں: حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کا وصیت نامہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:17AM Fri 4 Dec, 2020

1925-10-06

’’میں تمہیں وصیت کرتاہوں ، کہ اللہ کی اطاعت کرتے رہنا، او راُس کی راہ میں پرہیز گاری پر قائم رہنا، اور شریعتِ ظاہر کے احکام کی پابندی کرنا، اور اپنے سینے کو آفات نفس سے محفوظ رکھنا، اور اپنے نفس میں سخاوت وجواں مردی قائم رکھنا، اور کشادہ رورہنا، اور عطا کے لائق چیزوں کو عطا کرتے رہنا، اور لوگوں کی سختیوں کو برداشت کرنا، اور بزرگوں کے مرتبہ کا لحاظ رکھنا، اور اپنے بھائی بندوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا، اور اپنے چھوٹوں کو نصیحت کرتے رہنا، اور اپنے دوستوں سے لڑائی نہ کرنا، اور ایثار وقربانی کی عادت رکھنا، اور مال جمع کرنے سے بچنا، اور جو لوگ اہل دل نہ ہوں اُن کی صحبت سے الگ رہنا، اور دین ودنیا کے کاموں میں مسلمانوں کو مدد دینا۔فقر کی حقیقت صرف اُس قدر ہے کہ اپنے ہی جیسے بندوں کے آگے دستِ حاجت نہ پھیلانا، اور توانگری کی حقیقت صرف اسقدر ہے، کہ اپنی ہم جنس مخلوق سے بے نیاز رہنا‘‘۔ یہ وصیت نامہ حضرت شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ آپ کو اگر حضرت شیخؒ سے عقیدت ہے، تو اپنے دل کو ٹٹولئے، اور سوچئے، کہ اُن کے ان ارشادات کی آپ کہاں تک وقعت کرتے ہیں؟ ’’تصوف، بات چیت سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ بھوک سے اور لذتوں اور مسرتوں کے ترک کرنے سے حاصل ہوتاہے …تصوف کی بنیاد آٹھ خصلتوں پر ہے: ایک حضرت ابراہیمؑ کی سی سخاوت پر، دوسرے حضرت اسحٰق ؑ کی سی رضاپر، تیسرے حضرت ایوبؑ کے سے صبر پر، چوتھے حضرت زکریاؑ کی سی مناجات پر، پانچویں حضرت یحیٰ ؑ کی سی شکستہ حالی پر، چھٹے حضرت موسیٰؑ کی سی پشمینہ پوشی پر، ساتویں حضرت عیسیٰؑ کی سی بے وطنی پر، اور آٹھویں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سی درویشی پر‘‘۔ آپ کو اگر تصوف سے لگاؤ ہے ، آپ کے دل میں اگر حضرات صوفیہ کی عقیدت ہے، آپ اگر حضرت شیخ جیلانیؒ کو صوفیہ کا سردار وپیشوا تسلیم کرتے ہیں، تو ذرا اپنی زندگی کا بھی ایک سرسری جائزہ لے کریہ ارشاد فرمائیں کہ آپ کا عمل، تصوف کے اس معیار پر، کسی حدتک پورا اُترتاہے؟ ’’حضرت شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے مرض الموت کے زمانہ میں آپ کے صاحبزادہ شیخ عبد الوہاب نے عرض کیا، کہ کچھ وصیت فرمائیے، جس پر آپ کے بعد ہم عمل کرتے رہیں۔ آپ نے فرمایا، کہ اللہ کی راہ میں پرہیز گاری اختیار رکھنا، اور بجز خداکے کسی سے نہ ڈرنا، اور بجز خدا کے کسی سے امید نہ رکھنا، اور اپنی ہرشے خداہی پر چھوڑدینا، اور بجز خدا کے کسی پر بھروسہ نہ کرنا، اور جو کچھ طلب کرنا صرف خدا ہی سے طلب کرنا، اور بجز خداکے کسی کا سہارا نہ پکڑنا، اور توحید پر قائم رہنا،توحید پر قائم رہنا کہ اسی پر سب کا اتفاق ہے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ جب دل کا معاملہ خدا کے ساتھ درست ہوگیا ، تو دل سے نہ کوئی شے جدا ہوتی ہے ، نہ باہر نکلتی ہے۔ پھر اپنے صاحبزادوں سے فرمایا کہ میرے پاس سے دُور رہو، کہ میں تمہارے ساتھ محض ظاہر حیثیت سے ہوں، اور تمہارے علاوہ کسی اور کے ساتھ باطنی حیثیت سے ہوں۔ اس وقت تمہارے سوا، ایک اور مخلوق میرے پا س آئی ہے، پس اُس کے لئے جگہ کرو، اور اُس کی تعظیم کرو، اور یہاں اس وقت بڑی رحمت کا نزول ہورہاہے۔ اس کے بعد حضرتؒ اُس دوسری مخلوق (ملائلہ وارواح) سے مخاطب ہوکر باربار کہتے تھے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔ خدا میری اور تمہاری بخشش کرے، اور میری اور تمہاری واپسی خدا کی جانب ساتھ رحمت ومغفرت کے ہو …… اس کے بعد جب وقت وفات آیا، تو آپ فرماتے تھے، کہ میں مدد چاہتاہوںکلمۂ لاالہ الا اللہ وسبحانہ‘ وتعالیٰ سے، اوراُس زندہ سے جسے موت کا اندیشہ نہیں۔ پاک ہے وہ ذات، جو غالب ہے اپنی قدرت سے، او رمغلوب کیا ہے جس نے سب کو موت سے۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ اس کے بعد تین بار زبان سے لفظ اللہ، اللہ، اداکیا، اس پر آواز بند ہوگئی، اور زبان تالُو سے لگ گئی، اور روح مبارک جسم سے پرواز کرگئی‘‘۔ یہ تھی زندگی ، اور یہ تھی موت، مسلمانوں کے سب سے بڑے صوفی اور سب سے بڑے درویش کی۔ آپ جن مجموعہ مراسم کو تصوف سمجھے ہوئے ہیں، آپ اپنے گردوپیش جن رسم پرستیوں کے مجموعہ کو لفظ تصوف سے موسوم سُن رہے ہیں، آپ آج جس شے کا نام قادریت رکھ رہے ہیں، کیا اس کو بھی حضرت شیخؒ کی زندگی اور وفات سے کوئی مناسبت ہے؟ اللہ اپنی رحمت کا ملہ سے ہر کلمہ گو کوا سی طرزِ زندگی اوراسی طرز موت کی توفیق نصیب کرے۔ آمین

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/