Riyazur Rahman Nadwi Article
"دوبارہ جئیں گے یہ دیوار ودر"
پرانے زمانے میں جب مائیک یا لاؤڈ اسپیکر نہیں ہوتے تھے، اذان دینے کے لیے مساجد میں ایک مخصوص بلند جگہ بنائی جاتی تھی۔ مؤذن وہاں چڑھ کر پورے جذبۂ ایمان کے ساتھ اذان دیتے، جس کی آواز گلی کوچوں میں گونجتی اور لوگ اپنے کام چھوڑ کر مسجد کی طرف روانہ ہو جاتے۔ نماز کے اوقات میں محلہ عبادت کی روشنی سے جگمگا اُٹھتا۔
اسی طرح سلطانی مسجد میں بھی اذان کے لیے ایک بلند مقام موجود تھا جہاں سے مؤذن کی پرجوش آواز پورے علاقے میں گونجتی، اور لوگ جوق در جوق نماز کے لیے مسجد میں جمع ہوتے۔ یہ منظر ایمان، اتحاد اور روحانیت کی خوبصورت علامت تھا۔
یقیناً وہ زمانہ ایمان، اخلاص اور سادگی سے بھرپور تھا۔ اذان کی آواز صرف کانوں میں نہیں بلکہ دلوں میں اترتی تھی ابھی چند سالوں پہلے سلطانی محلہ کی ایک خوبصورت اور دینی روایت یہ رہی کہ طویل عرصے تک محمد اکرم غلام محی الدین ابن محمد منیر اکرمی ( عرف غلام بھاؤ۔ محمد منیر اکرمی عبدالسلام اکرمی، عبدالغفور اکرمی کے والد ماجد ۔ عبدالحمید گوائی ،نبراس گوائی کے نانا جان ) فجر کی نماز کے وقت محلے کے آس پاس بعض گھروں کے دروازوں پر دستک دے کر یا آواز دے کر لوگوں کو بیدار کرتے ہوئے کہتے تھے۔ *(بانگ بللے بانگ بللے ، ناؤجے اٹھا ناؤجے اٹھا)* یہ عمل نہ صرف نماز کی پابندی کا ذریعہ بنتا بلکہ محلے میں دین سے وابستگی اور بھائی چارے کی فضا کو بھی عام کرتا۔ غلام بھاؤ اکرمی کی یہ خدمت خلق بظاہر ایک معمولی کام لگتا تھا، لیکن درحقیقت اس سے ایک بڑی روحانی اور اجتماعی بھلائی جڑی ہوئی تھی۔ ان کی یہ کاوش محلے کی دینی و سماجی زندگی میں ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتی ہے ۔جسے آج بھی لوگ محبت اور احترام سے یاد کرتے ہیں۔
ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے محلے کے متعدد نوجوانوں نے بھی فجر کی نماز کے لیے اہلِ محلہ کو بیدار کرنے کا عمل نہایت خلوص و جذبے کے ساتھ جاری رکھا۔ یہ نیک روایت ایک طویل عرصے تک قائم رہی اب یہ نظام دور تک نہیں ہے ۔ جس سے محلے میں دینی شعور اور نماز کی پابندی کے جذبے کو مزید استحکام ملا۔ ان نوجوانوں میں *جناب سہیل ابن عبدالقادر لونا(سلطان یوتھ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے اپنے وقت کے زبردست کبڈی وکرکٹ کے زبردست کھلاڑی)* کا نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، جنہوں نے نہ صرف باقاعدگی سے فجر کے وقت لوگوں کو جگانے کی ذمہ داری نبھائی بلکہ اس عمل کو خالص نیت، خلوص اور خدمتِ دین کے جذبے کے ساتھ انجام دیا۔ ان کی محنت، مستقل مزاجی اور دینی لگن آج بھی نوجوانوں کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب وہ ذریعۂ معاش کے لیے دبئ روانہ ہوئے تو پھر یہ عمل رک گیا ۔
سلطان محلہ کا ماحول دینی جذبے سے سرشار تھا۔ اس محلے کے اطراف کی بعض عورتوں کو جنہیں محبت سے *"خلفن"* کہا جاتا تھا، اپنے گھروں میں نہایت قلیل فیس کے عوض بچوں اور بچیوں کو قرآنِ پاک کی تعلیم دیا کرتی تھیں۔ یہ خواتین خلوصِ نیت اور جذبۂ خدمتِ دین سے سرشار ہو کر تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیتی تھیں۔ مائیں بھی اپنے بچوں کی دینی تربیت اور اخلاقی رہنمائی میں گہری دلچسپی لیتی تھیں۔ ان ہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ گھروں سے تلاوتِ قرآن کی روح پرور آوازیں گونجتی رہتیں اور پورا سلطان محلہ نور، برکت اور روحانیت سے معمور نظر آتا تھا اب یہ نظام دور دور تک بہت کم نظر آتا ہے ۔
مختلف ادوار میں سلطانی محلہ کے آس پاس قرآن مجید کی تعلیم سینہ در سینہ منتقل کرنے والی:
(1)بی بی عائشہ بنت احمد کبیر محمد باپو (زوجہ احمد اکرمی ۔ جناب مولوی رئیس اکرمی، جناب ارشد اکرمی کی دادی)
(2)بی بی رضیہ بنت محمد میراں رکن الدین عرف رضیہ خلفین(زوجہ عبدالحلیم دامدافقی جناب مولانا وصی اللہ ڈی یف ندوی کی والدہ )
(3)شیخ بی بی عرف دھاکلی ماں بنت محمد امین منیری
(زوجہ چامنڈی محمد اسماعیل)
(4)بی بی رقیہ خلفین بنت محمد امین منیری
(زوجہ اسماعیل شینگری)
(5)بی بی عائشہ بنت عبدالرزاق خلیفہ عرف کوچی ماں۔ (زوجہ محمد سائب جوباپو ۔ جناب حافظ سعود جوباپو ،جناب عبداللطیف جوپاچو کی والدہ اور مولوی مفیض خلیفہ کی نانی)
(6) حافظہ میمونہ ترنم بنت بدرالحسن معلم (زوجہ محمد اسلم گوائی ۔ جناب ارقم ، جناب طالوت جناب طہ معلم کی بہن )
(7) حافظہ نصیحہ نزہت بنت محمد امین اکرمی عرف امین صاحب (زوجہ محمد طلحہ جوکاکو جناب مولوی رئیس اکرمی ، جناب ارشد اکرمی کی بہن )
8) شاہ بی بی بنت سید احمد لنکا ( زوجہ ابوالحسن دامودی۔ جناب الطاف، جناب عبدالباسط جناب عمران دامودی کی دادی )
9) خیرالنساء بنت عبدالقادر مرنے(زوجہ حسن قاضیا عرف حاجی باپا)
10) بی بی فاطمہ زوجہ عبدالقادر مرنے
11) بی بی سکینہ زوجہ عبدالغنی خلفین ۔وغیرہ وغیرہ
ان کے علاوہ اور بہت سے تھے جن کا مکمل نام وپتہ معلوم نہیں ہوسکا ۔
سلطانی محلہ اور پورا بھٹکل کبھی دین و اخلاق سے سرشار ایک مثالی بستی کی تصویر ہوا کرتا تھا۔ اس دور میں بچوں کی تربیت گھر سے ہی قرآنی ماحول میں ہوتی۔ عصر کے بعد بچے اپنی اپنی جگہ کھیل کود میں مشغول ہوتے، لیکن مغرب سے پہلے ہر گھر کا معمول یہ تھا کہ سب لوگ کھانا کھا کر قرآنِ مجید کی تعلیم و تلاوت میں مشغول ہوجاتے۔ مرد و بچے مسجدوں میں قرآن پڑھتے اور عورتیں اپنے گھروں میں قرآن سیکھتی اور سکھاتی تھیں۔ جب شام ڈھلتی تو پورا محلہ قرآن کی آوازوں سے گونجتا گویا نورانی فضا میں ایمان کی خوشبو پھیل جاتی تھی۔
عشاء کے بعد سکون اور اطمینان کا دور ہوتا۔ والدین اپنے بچوں کو انبیائے کرام اور صحابہ کرام کے واقعات سناتے۔ ان کے دلوں میں ایمان، صبر، شجاعت، اور اخلاقِ حسنہ کی روشنی بھر دیتے۔ مائیں اپنی مخصوص نغمہ آمیز اور محبت بھری لوریوں سے بچوں کو سلاتیں جس سے گھروں میں ایک عجیب سی روحانی سکونت پیدا ہوتی۔
جلد سونا اور جلد اٹھنا زندگی کا حصہ تھا اور فجر کے بعد سونا قابلِ ملامت سمجھا جاتا۔ یہی نظم و ضبط یہی دین سے وابستگی اور یہی روحانی فضا بھٹکل کی پہچان تھی۔
آج ضرورت ہے کہ ہم اس گمشدہ روح کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کریں۔
(جاری)