Riyazur Rahman Akrami Nadwi Article

Riyazur Rahman Akrami Nadwi

Published in - Other

08:02PM Sun 9 Nov, 2025

"دوبارہ جئیں گے یہ دیوار ودر"

 

عیدالفطر کے دن عصر کی نماز کے بعد خاندانِ فقی احمدا (عرف جاکٹی) کے تمام افراد اپنی قدیم و تاریخی رہائش گاہ، *"جاکٹی ہاؤس"* (سلطان محلہ میں جناب جاکٹی عصمت صاحب کی رہائش گاہ ان کے فرزندوں میں جناب سرفراز ،مزمل ،سعود مولوی ابوبکر سیان فقی احمدا ندوی ) میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ ایک دل کش اور روح پرور منظر ہوتا ہے جہاں محبت، عقیدت اور خاندانی اتحاد کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔

بڑے ہوں یا بچے، سب ایک دوسرے کو گرم جوشی سے عید کی مبارک بادیاں بانٹتے ہوئے نظر آتے ہیں، ہنسی خوشی اور مسکراہٹوں کا سما ہوتا ہے، عیدیوں کی تقسیم سے ماحول مزید خوش گوار بن جاتا ہے۔ پورا گھر چہل پہل، خوشیوں اور محبت کے رنگوں سے بھر جاتا ہے۔ ہر گوشہ قہقہوں اور دعاؤں سے گونجتا ہے، یہاں تک کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں رہتی۔

راہ گیر جب اس منظر کو دیکھتے ہیں تو حیرت سے کہتے ہیں:

کازالے وا بھلی مانشیں جمع زالی تے!”جواب ملتا ہے: “آج عید کا دن ہے، پورا خاندان عید کی خوشی میں اکٹھا ہوا ہے!”

جواب میں دلوں سے شکر ودعا کے نغمے بلند ہوتے ہیں ۔

یہ روایت برسوں سے خاندانِ فقی احمدا میں نہ صرف برقرار ہے بلکہ وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو گئی ہے۔ ہر سال عید الفطر کا یہ اجتماع سلطانی محلہ میں خاندانی اتحاد، محبت، عقیدت اور باہمی احترام کی روشن مثال بن کر اُبھرتا ہے۔

یہ روایت اس خاندان کی جڑوں میں پیوست اُس خلوص و اخوت کی علامت ہے جو نسل در نسل چلی آ رہی ہے، اور جس نے جاکٹی ہاؤس کو ہمیشہ خوشیوں، محبتوں اور دعاؤں کا مرکز بنا رکھا ہے۔

پرانے بھٹکل کی گلیاں اور سلطانی محلّہ اپنے مخصوص حسن اور سادگی کے لیے مشہور تھے۔ ان کے گھروں کے باہر بنے چبوترے پر (کسکٹ) اس دور کی سماجی زندگی کا اہم حصہ ہوا کرتے تھے۔ یہ کسکٹ صرف بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی بلکہ دلوں کو جوڑنے، محبتیں بانٹنے اور تعلقات کو مضبوط کرنے کے مراکز تھے۔ محلے کے بزرگ اور نوجوان شام کے وقت وہاں جمع ہوتے، روزمرہ کی باتیں، خاندانی مشورے اور محلے کے مسائل وہیں زیرِ بحث آتے۔ گزرتے لوگ رک کر سلام کرتے، باتوں میں شریک ہوتے اور یوں یہ چبوترے پر (کسکٹ )بھٹکل کی زندہ، گرم جوش اور پرخلوص زندگی کی علامت بنے رہتے۔

ان ہی دنوں صحنِ سلطانی کے قریب واقع کولا ہاؤس کے رہائشی چبوترے پر (مروٹ) بیٹھے جناب کولا عبدالرحمن صاحب ابن محمد حسین کولا (جو جناب آفتاب حسین کولا کے نانا تھے) علمی و فکری شخصیت کے مالک مانے جاتے تھے۔ آپ کو مطالعے اور ریڈیو کے ذریعے دنیا بھر کی خبریں سننے کا شوق تھا اور ریڈیو اس زمانے میں بھٹکل میں گنے چنے لوگوں کے پاس تھا۔ وہ تازہ حالات اور عالمی واقعات کو نہایت دل چسپ انداز میں اپنے دوستوں اور اہلِ محلہ کو سناتے، جس سے نہ صرف محفل کا رنگ دوبالا ہوتا بلکہ لوگوں کے علم و شعور میں بھی اضافہ ہوتا۔ 

ان کی یہ محفلیں محض وقت گزاری نہیں بلکہ فکری و علمی تبادلے کا ذریعہ تھیں — جہاں گفتگو میں خلوص تھا، انداز میں شائستگی، اور ماحول میں اپنائیت۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ بھٹکل کے وہ چبوترے پر (کسکٹ یا مروٹ) صرف پتھر یا لکڑی کے ڈھانچے نہیں تھے، بلکہ علم، محبت، خلوص اور تعلقِ خاطر کے استعارے تھے۔  وہ زمانے جب دل قریب تھے، رشتے مضبوط تھے اور زندگی سادگی میں بھی معنویت سے بھرپور تھی۔

پٹّاوھال دراصل لفظ "پٹ ہوڑلے" کی بگڑی ہوئی شکل ہے، جس کا مطلب "شاہی نالہ" یا "سرکاری نالہ" ہے۔ یہ نالہ موہنی بستی کے محل کے سامنے سے گزرتا تھا اور اس کا شمار قدیم دور کے ایک اہم آبی گزرگاہ میں ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ عوامی بول چال میں اس کا تلفظ بدلتا گیا اور آخرکار یہ نام "پٹّاوھال" کی صورت اختیار کر گیا۔

 کہا جاتا ہے کہ ایک رانی اسی نالے کے ذریعے کشتی میں بیٹھ کر شرابی ندی کی سیر کیا کرتی تھیں۔ یہ نالہ دراصل سیر و تفریح اور شاہی نقل و حرکت کے لیے استعمال ہوتا تھا، نہ کہ عام آب رسانی کے لیے۔

یوں پٹّاوھال ایک تاریخی اور ثقافتی نشانی کے طور پر اس علاقے کی شاہی طرزِ زندگی اور قدیم آبی نظام کی یاد دلاتا ہے۔

راز گنج، جسے قدیم زمانے میں راج گنج کہا جاتا تھا، نام ہی کے لحاظ سے شاہی اور سرکاری اہمیت رکھتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نام بگڑ کر راز گن یا راز گنج بن گیا۔ یہ علاقہ دراصل موہنی بستی کا حصہ تھا، جو ایک شاہی مرکز کے طور پر معروف تھا۔ یہاں شاہی تقاریب اور سرکاری پروگرام منعقد ہوتے تھے جن کی نگرانی اور انجام دہی رانی کے زیرِ اہتمام ہوتی تھی۔ رانی عوامی تفریح کے لیے سیاحتی پروگرام منعقد کرتی تھیں تاکہ بستی کے لوگ لطف اندوز ہوں۔

آج یہ علاقہ تاریخی شناخت کے ساتھ اپنی موجودہ صورت میں آباد ہے، جہاں مصباح بگلّو اور مولانا بگلّو (مولانا جعفر) جیسے معزز خاندان کے افراد مقیم ہیں۔

(جاری)