Riyazur Rahman Akrami Article on Master Saifullah

Riyazur Rahman Akrami Nadwi

Published in - Other

08:46PM Fri 12 Dec, 2025

 

         ماسٹر سیف اللہ صاحب کے انتقال کی غمناک خبر سن کر دل ٹوٹ سا گیا کہ ہم سب کے مشفق، ہر دلعزیز، حسن اخلاق اور اخلاص و وفا کے پیکر، سینکڑوں دلوں کی دھڑکن استادِ محترم جناب ماسٹر سیفُ اللہ صاحب اس فانی دنیا کو چھوڑ کر اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوگئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔

 

ماسٹر صاحب نے اعلیٰ عصری تعلیم حاصل کی تھی ٬لیکن اس کے باوجود آپ نے بڑے خلوص اور قربانی کے ساتھ جامعہ اسلامیہ میں تدریسی خدمات کو منتخب کیا ۔ آپ گوا کے ایک اسکول میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے کہ جناب منیری صاحب مرحوم کی دعوت پر اس کو ترک کر کے خالصتاً دینی مدرسے کی خدمت کو ترجیح دی، جو آپ کے اخلاص، عزم  ٬دین کے تئیں محبت اور  بلند مقصدی کا روشن ثبوت ہے۔ آپ کی تعلیم و تربیت کا انداز ہمارے لیے ایک  نمونہ ہے‌ اور آپ کی زندگی سادگی، محبت اور ذمہ داری کا بے مثال مرقع۔

مختلف مواقع پر طلبہ کو سمجھانے اور خطاب کرنے کا آپ کا انداز بالکل نرالا ہوتا ۔ چاہے صبح سویرے دعا کا موقع ہو، اللجنۃ العربیۃ کے افتتاحی یا اختتامی تقریب یا جامعہ اسلامیہ کے فارغین کا الوداعیہ اجلاس ٬ ہر مجلس میں اُن کی گفتگو کا اسلوب جداگانہ اور دل نشین ہوتا۔

وہ ہمیشہ اپنے منفرد انداز میں بڑی سادگی سے  ایسی بات کہہ جاتے کہ سامعین کے دل تک اتر جاتی٬ آپ اپنی گفتگو کو اس طرح مرتب کرتے کہ سننے والا نہ صرف محظوظ ہوتا بلکہ کچھ نہ کچھ سیکھ کر وہاں سے رخصت ہوتاـ

جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی تاریخ جب بھی رقم کی جائے گی، اُس کے سنہرے ابواب میں ماسٹر سیفُ اللہ صاحب کا نام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ وہ صرف ایک استاد نہیں تھے بلکہ ایک تربیت گاہ، ایک نصیحت گاہ اور ایک عملی نمونہ تھے۔ انہوں نے اپنے طویل تدریسی سفر میں نہ صرف علوم کی روشنی پھیلائی بلکہ دلوں میں کردار، محبت اور انسانیت کے چراغ بھی روشن کیے۔

ان کی زندگی سادگی، تقویٰ، ایثار اور خدمت کا حسین مرقّع تھی۔ درسگاہ میں وہ علم بانٹتے اور درسگاہ سے باہر وہ اخلاق بانٹتے۔ نہ اُن کی مسکراہٹ کبھی کم ہوئی، نہ شاگردوں سے پیار۔ 

ان کے پڑھائے ہوئے الفاظ تو کتابوں میں رہے، مگر اُن کا انداز، اُن کی شفقت، اُن کی نگاہِ محبت ہمیشہ دلوں میں نقش رہے گی۔

ہمارے والدِ محترم  مولاناحافظ  محمد حسین اکرمی رشادی جب جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے، اسی زمانے میں ماسٹر سیف اللہ صاحب گوا سے یہاں تشریف لائے اور پھر ہمیشہ کے لیے اسی علمی گلشن کا حصہ بن گئے۔ والدِ محترم اور ماسٹر صاحب کے درمیان نہایت گہری اور پُرخلوص محبت تھی۔

 

ہم تینوں بھائیوں کو بھی ان کی ایک لطیف اور انوکھی شاگردی نصیب ہوئی جو آج تک ہمارے لیے سرمایۂ افتخار ہے۔ جب بھی میری ملاقات ماسٹر سیف صاحب سے ہوتی، وہ شفقت و محبت سے ہمیں *“بڑے حضرت”* کہہ کر مخاطب کرتے، چند پیار بھرے میٹھے بول عطا کرتے اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتے تھے۔

ان کی محبت بھری نگاہ، نرمی سے لبریز گفتگو اور شفقت آمیز رویہ آج بھی دلوں میں تازہ ہے-

اور یہ ایک ایسی یاد ہے جو وقت کے گزرنے سے ماند نہیں پڑتی بلکہ مزید روشن ہوجاتی ہے۔

جامعہ اسلامیہ میں انہوں نے برسوں تک ایسی بے مثال خدمات انجام دیں کہ آج بھی اساتذہ، طلبہ اور تمام وابستگان ان کی محنت و خلوص کو یاد کرکے رشک کرتے ہیں۔ وہ علمی بلندی کے ساتھ ساتھ اخلاقی عظمت کا بھی مینار تھے۔ ان کے لہجے کی نرمی، ان کی شخصیت کی متانت اور ان کے عمل کی پاکیزگی ہر ملنے والے کے دل پر نقش چھوڑ جاتی تھی۔

 

آج وہ ہم میں نہیں رہے، مگر ان کی دعائیں، ان کی محنت اور ان کی چھوڑی ہوئی علمی وراثت ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی۔ ایسے لوگ دنیا سے تو چلے جاتے ہیں لیکن ہمیشہ ہمیش دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے

انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ان کے خاندان کے لیے، اور ان کے تمام چاہنے والوں کے لیے صبرِ جمیل اور اجرِ جزیل کا سامان فرمائے۔ آمین۔