Riyazur Rahman Akrami Article

Riyazur Rahman Akrami Nadwi

Published in - Other

08:00PM Sun 14 Dec, 2025

"دوبارہ جئیں گے یہ دیوار ودر"

 سلطانی مسجد کا صحن علم و عرفان، بیداری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب یہاں سے اصلاحی تحریکیں اور فکری مجالس کا آغاز ہوتاتھا اور قوم کو نئی سمت ملتی تھی۔
صحنِ سلطانی میں وہ مناظر بھی دیکھے گئے ہیں جب برصغیر کے بڑے بڑے علماء کرام اور اولیاء اللہ نے اپنی جاندار تقاریر سے عوام کے دلوں کو منور کیا۔ انہی میں ایک نام وہ بھی ہے جو دارالعلوم دیوبند کی نصف صدی تک امامت و قیادت کرنے والے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ(1897ء تا 1983ء) کا ہے، اسی صحن سے  مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ (عرف علی میاں۔1914ء تا1999ء
محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی  ( 1920ء تا 2005ء)
 
حضرت مولانا محمد منظور نعمانی (1905 ء تا 1997ء)
حضرت مولانا شریف محی الدین ابن محمد امین اکرمی (1900ءتا 1966 ء)
جناب الحاج محی الدین  ابن محمد امین منیری (1919ء تا 1994ء)
حضرت مولانا خواجہ بہاؤالدین ابن محمد امین اکرمی (...........تا1991ء)
حضرت مولانا شاہ عبدالحلیم صاحب گورینی جونپوری (1936ءتا 1999ء)
حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (1936ء تا 2002ء )
حضرت  مولانا قاضی محمد احمد ابن قاضی ابوبکر خطیب (1909ء تا 2009ء)
حضرت مولانا قاضی محمد شبیر ابن محمد اسمٰعیل اکرمی (1939 تا 2005ء)
حضرت مولانا علی سکری ابن محمد اکرم اکرمی ( عرف علی سکری خلفو)
( 1933
ء تا 2014ء )
حضرت مولانا عبدالباری ابن عبدالقادر جیلانی صاحب فکردے ندوی (1961ء تا 2016ء)
حضرت مولانا محمد اقبال ابن حسین صاحب ملا ندوی (1945ء تا 2020ء)
وغیرہ کی آوازیں بھی گونجی اور دیگر کئ اکابرین کے روح پرور خطابات نے اس مقام کو ایک تاریخی مرکز بنا دیا(چند کے ناموں کو بطورِ مثال پیش کیا اس کے علاوہ اور بہت سے علماء کرام اور دانشوروں کے خطابات ہوتے رہے ہیں جن کی فہرست طویل ہے )
 
اور اس کے ساتھ ماہِ ربیع الاول آتے ہی صحنِ سلطانی کے در و دیوار سیرتِ النبی ﷺ کی محفلوں سے گونج اٹھتے۔ علماء کی روشن باتیں، نعت خوانی کی دل چھو لینے والی محفلیں، اور مختلف موقعوں پر ہونے والے ادبی پروگرام، نوائطی و اردو مشاعرے—سب مل کر ایک خوب صورت ماحول پیدا کر دیتے تھے ۔ صحنِ سلطانی کی یہ محفلیں اپنی خاص شان اور دل کشی کے باعث سب کے دلوں میں گھر کر جاتی تھیں۔ لوگوں کا بڑا ہجوم اور عقیدت سے بھرپور یہ فضا پورے شہر کو خوشی اور ایمان کی خوشبو سے بھر دیتی تھی۔
سلطانی محلہ کا وہ دور بھی واقعی یادگار اور تاریخی تھا جب "*تنظیم ٹیمپو*" کے نام سے عوامی سہولت کے لیے سواریاں سلطانی محلے سے روانہ ہوتی تھیں۔ یہ محلہ اس زمانے میں نہ صرف آمد و رفت کا مرکز تھا بلکہ عوامی خدمت اور اجتماعی نظم و ضبط کی بہترین مثال بھی پیش کرتا تھا۔
آج بھی جب کسی بڑے اجتماع، جلسے یا تعلیمی و دینی پروگرام کا انعقاد ہوتا ہے -خواہ وہ جامعہ اسلامیہ کا ہو یا کسی اور ادارے کا- روانگی کا آغاز سلطانی مسجد کے صحن سے ہی ہوتا ہے۔

شہر  بھٹکل کے  تاریخی جلوس اور اہم اداروں کے نمایاں پروگراموں کے جلوس ہمیشہ اسی سلطانی محلے سے گزرتے ہیں، جو اس کی مرکزی حیثیت اور عوامی وابستگی کا مظہر ہے۔
سلطانی محلہ کی پہچان سمجھی جانے والی یہ روایت آج بھی اپنی پوری شان وشوکت کے ساتھ قائم ہے کہ غیر مسلم برادری اپنے تہوار تیر ہبہ کے رتھ کی شروعات سے پہلے باقاعدہ سلطانی محلہ شابندری ہاؤس (چرکن) کے بزرگوں سے اجازت طلب کرکے ان کی اجازت کے بعد Rath Ystrsشروع کرتے ہے یہ منفرد روایت صدیوں پر محیط ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد چار سو برس قبل ایک خاص واقعے سے پڑی۔

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک سال ہندوؤں کا رتھ (Rath) جشن کے دوران ایک مکان سے جا ٹکرایا، جس کے نتیجے میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور پولیس  نے مقدمہ درج کردیا اور رتھ کو ضبط کر لیا۔ پھر جب اسے واپس لینے کی بات آئی تو پولیس نے بطور ضمانت دستاویزات اور رقم طلب کی، مگر ہندو برادری میں سے کوئی آگے نہ بڑھا۔ ایسے وقت میں شاہ بندری ہاؤس کے ہندومسلم کے علم بردار غیر مسلموں میں مسلمانوں کا نام روشن  کرنے *سیدی محمد باپو بن علی صاحب شابندری* نے نہ صرف اپنی زمین کے کاغذات پیش کیے بلکہ مطلوبہ رقم بھی جمع کروائی، جس کی بدولت رتھ رہائی پا کر دوبارہ تہوار کے لیے تیار ہوا۔
ان کی اس بے لوث مدد، حسنِ سلوک اور بین المذاہب اتحاد کی مثال بن جانے والے اس عمل کے اعتراف میں ہندو برادری نے شکرانے کے طور پر ہر سال رتھ(Rath )کھینچنے سے قبل ان کے گھر آکر اجازت لینے کو مستقل روایت بنا لیا۔
آج کل یہاں (زہرہ حسن کامپلکس موجود ہے) یہ کامپلکس خاندان کے مضبوط سپوت شابندری محمد انصاری ابن محمد حسن شابندری عرف کوزاپا بھاؤ کا ہے ان کے فرزند ارجمند جناب محمد ایوب اور جناب ابراہیم شابندری ہیں۔ 
 
یہ خوبصورت رواج آج تک برقرار ہے اور سلطانی محلہ کی رواداری، احترامِ انسانیت اور مذہبی ہم آہنگی کی روشن علامت سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح یہ محلہ کبھی مالداروں کا محلہ کہلاتا تھا۔ یہاں کے خاندانوں نے محنت و ہنر سے دنیا بھر میں اپنا مقام حاصل کیا سبھی نے اپنی دولت کو صرف دنیا سنوارنے میں نہیں بلکہ فلاحی، رفاہی اور سماجی کاموں میں بھی لگایا۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹکل کی خدمت کے کئی بڑے اہم کام اسی محلہ سے شروع ہوئے۔
 سب سے حسین پہلو یہ ہے کہ بھٹکل کے جتنے نامور شخصیات اور عظیم علماءکرام آج ہماری پہچان ہیں، ان کی پیدائش یا بچپن کی یادگار ساعتیں اسی سلطانی محلہ کی گلیوں میں گزریں۔ گویا یہ محلہ صرف مال و دولت ہی کا نہیں بلکہ علم، دین اور خدمت کا بھی خزانہ رہا ہے۔

 

(ضروری نوٹ: اس مضمون میں درج تمام خیالات اور آراء مضمون نگار کی ذاتی ہیں ۔ اس  میں درج کسی بھی خیال یا رائے سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ ادارہ)