Riyazur Rahaman Akrami Nadwi Article
"دوبارہ جئیں گے یہ دیوار ودر"
سلطانی محلہ—بھٹکل کی علمی و دینی تاریخ کا وہ روشن گوشہ جہاں ماضی کی عظمت آج بھی سانس لیتی دکھائی دیتی ہے۔ اسی سرزمین پر قائم گورنمنٹ اردو زنانہ اسکول اور جامعاتُ الصالحات جیسے ادارے اس حقیقت کی زندہ مثال ہیں کہ جب اخلاص، قربانی اور روشن فکر یکجا ہوجائیں تو دیوار و در دوبارہ زندگی پاتے ہیں اور تاریخ نئی جہتوں کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔
سلطانی مسجد کے ایک جانب واقع لڑکیوں کا اردو گورنمنٹ زنانہ اسکول بھٹکل کی علمی و تعلیمی تاریخ کا روشن باب ہے۔ 23 ستمبر 1935ء کو قائم ہوا تھا اسکول نے بھٹکل اور آس پاس کے علاقوں کی بے شمار بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ آج بھی یہ اسکول اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم کا چراغ روشن کیے ہوئے ہے، اور ہزاروں طالبات اس اسکول سے علم و ہنر حاصل کر کے مختلف میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دے چکی ہیں۔
اسی سلطانی محلے کی باوقار اور باعزت شخصیت بی بی رضیہ بنت محمد میراں رکن الدین عرف رضیہ خلفین—(جو جناب مولانا وصی اللہ ڈی یف ندوی دامت برکاتہم کی والدہ ہیں)نے اس اسکول میں اٹھارہ برس تک قرآن و اسلامیات کی معلّمہ کے طور پر بے لوث خدمت انجام دی۔ ان کی دینی خدمات آج بھی اس اسکول کی تاریخ کا معتبر حصہ ہیں۔
لاک ڈاؤن کے بعد اگرچہ طالبات کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ محترمہ رخسانہ زوجہ سید قاسم صاحب اس اسکول کی موجودہ پرنسپل ہیں، جو پوری محنت اور اخلاص کے ساتھ اسکول کی نگرانی کر رہی ہیں۔
یہ اسکول اگرچہ گورنمنٹ کے تحت چلایا جاتا ہے، مگر اس کی عمارت انجمن حامی مسلمین بھٹکل کی ملکیت ہے۔ حکومت کی جانب سے بچیوں کو متعدد سہولیات—جیسے یونیفارم، کتابیں اور دوپہر کا کھانا—مہیا کیا جاتا ہے، جس سے غریب اور متوسط طبقے کی طالبات کو تعلیم جاری رکھنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے۔
اس عظیم اسکول کی تعمیر سلطانی محلہ کی ایک سخاوت شعار خاتون محترمہ بی بی فاطمہ سیدانی زوجہ یس ایم سید علی صاحب(گھر پوڑ ہاؤس مشہور ہے آپ نے کئ حج کیے ہیں) کے عطیہ سے عمل میں آئی۔ ان کی یہ خدمت نہ صرف محلہ بلکہ پورے بھٹکل کے لیے ایک تاریخی صدقۂ جاریہ ہے۔
اسی طرح بھٹکل کے چند درد مند افراد نے تعلیمی اور سماجی خدمت کے جذبے سے انجمن ستارۂ حسنات کی بنیاد رکھی۔ اس کے تحت 1914ء میں سلطانی محلہ میں ایک جدید طرز کا مدرسہ قائم کیا گیا، جہاں اردو، کنڑی اور ابتدائی اسلامی تعلیمات کی تدریس کا اہتمام تھا۔ تاہم بعض ناگزیر حالات کے باعث 1917ء میں یہ ادارہ قائم نہ رہ سکا اور بالآخر اس کا سرمایہ انجمنِ حامیِ مسلمین بھٹکل میں شامل کردیا گیا، جبکہ دوسری جانب اسی جذبے نے علاقائی تعلیمی بیداری کی نئی راہیں ہموار کردیں۔
اور اسی طرح سلطانی مسجد کے دوسری جانب جامعات الصالحات ہے ۔ بھٹکل جسے علمی و دینی خدمات کے اعتبار سے ایک روشن نام حاصل ہے، اس میں طویل عرصے تک خواتین کی دینی تعلیم کا کوئی منظم اور مؤثر نظام موجود نہ تھا۔ مردوں کے لیے دینی مدارس تو قائم تھے، مگر خواتین کے لیے ایک ایسی درسگاہ کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی جو ان کی دینی تربیت و اخلاقی نشوونما کا ذریعہ بن سکے۔
اسی احساسِ ذمہ داری نے ایک درد مند دل، الحاج محی الدین منیری صاحبؒ کو متحرک کیا۔ انہوں نے اپنے رفقائے کار اور اہلِ خیر کے دلوں میں اس کارِ خیر کی اہمیت بٹھانے کے لیے ۸ رجب المرجب ۱۳۹۴ھ مطابق ۲۹ جولائی ۱۹۷۴ء کو بعد نمازِ عصر سلطانی مسجد، بھٹکل میں ایک دعائیہ اجلاس کا اہتمام کیا۔
اجلاس کی صدارت مولانا خواجہ بہاؤالدین اکرمی ندویؒ نے فرمائی، جبکہ مولانا شہباز اصلاحی اور مولانا منصور علی ندوی نے اپنے پر اثر خطابات کے ذریعے خواتین کی دینی تعلیم کی عظمت و ضرورت کو اجاگر کیا۔ اس موقع پر سامعین کے دلوں میں ایک دینی ولولہ پیدا ہوا، اور سب نے اس مقدس مشن کی تائید کی۔
چنانچہ ۱۹ رجب المرجب ۱۳۹۴ھ مطابق یکم اگست ۱۹۷۴ء کو سلطان محلہ *اشفاق منزل*
(بلقیس بانو یس یم زوجہ محمد حسین شابندری کے مکان کے اوپری منزل پر)میں "جامعات الصالحات" کا باضابطہ مگر خاموش افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقع پر جناب سید ابراہیم صاحب سید عبدالصمد یس یم کو(جو مولانا سیدہاشم نظام الدین یس یم کے چچا تھے)کہا جاتا ہے جو بھٹکل کے پہلے انجینئر تھے انھوں نے جامعات الصالحات کو وہاں شروعات کرنے لیے بڑی ہمدردی کاثبوت پیش کیا ۔
ابتدا میں بیس طالبات نے داخلہ لے کر تعلیم کا آغاز کیا اور تدریس کا سلسلہ دو فاضلہ اور مخلص استانیوں کے ہاتھوں شروع ہوا:
1. محترمہ عارفہ سید منصور علی ندوی صاحبہ
2. محترمہ شاہین صاحبہ (زوجہ سید محی الدین زیدی صاحب، بھوپال)
مدرسہ کی سب سے پہلی طالبہ محترمہ قمرالنساء بنت محمد حسین کولا تھیں، جو سلطانی محلہ ہی کی رہائشی تھیں۔ جو
سلطان یوتھ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے ممبران محترم جناب سید ذاکر ابن سید محمد یس یم کی ساس اور جناب سید فضل غازی یس یم کی نانی ہے ،آج وہ ہزاروں فارغ طالبات کے اس قافلے کی بنیاد قرار پاتی ہیں۔
وقت گزرتا گیا، درسگاہ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا، اور آخر وہ دن آیا جب جامعات الصالحات کے لیے ایک نئی عالی شان عمارت کی تعمیر سلطانی محلہ میں مکمل ہوئی۔ اس عمارت کا سنگِ بنیاد حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ (مہتمم دارالعلوم دیوبند) نے ۶ ذی الحجہ ۱۳۹۶ھ مطابق ۲۸ نومبر ۱۹۷۶ء کو اپنے دستِ مبارک سے رکھا۔
چند برس بعد یہ حسین عمارت تیار ہوئی تو اس کا افتتاح مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے ۲۰ صفر المظفر ۱۴۰۱ھ مطابق ۲۹ دسمبر ۱۹۸۰ء کو فرمایا۔ اس موقع پر ملک کے مختلف حصوں سے ممتاز علماء کرام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بھٹکل کے مسلمانوں کے لیے یہ دن ان کی دینی و روحانی تاریخ کا ایک سنہرا اور یادگار لمحہ بن گیا۔
بانیِ وناظم جامعہ الصالحات مولانا الحاج محی الدین منیریؒ کے بعد تقریباً تیس برس تک مولانا عبدالعلیم قاسمی ابنِ حاجی محمود مولوی نے نہایت کامیابی سے نظامت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اب چند سالوں سے اسی محلہ کے چشم وچراغ مولانا محمد الیاس فقی احمدا ندوی اس منصب کو بخوبی سنبھالے ہوئے ہیں۔
آج جامعات الصالحات نہ صرف بھٹکل بلکہ پورے خطے میں خواتین کی دینی و اخلاقی تربیت کا ایک معتبر اور مثالی ادارہ ہے۔ ہزاروں فارغ التحصیل طالبات اپنے علم، کردار اور تقویٰ کے ذریعے گھروں اور معاشرے کی اصلاح و تعمیر میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ درسگاہ دراصل اس بات کی زندہ مثال ہے کہ جب اخلاص، عزم، اور دینی فکر یکجا ہوں تو قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے۔
جامعاتُ الصالحات صرف سلطانی محلہ ہی کی رونق نہیں، بلکہ پورے بھٹکل کے افق پر روشنی کا ایسا مرکز بن کر اُبھر رہا ہے اور یہ ایک بقعۂ نور ہے جس کی کرنیں نہ صرف طالبات کے ذہن و فکر کو منوّر کر رہی ہیں بلکہ گھروں، خاندانوں اور معاشرے تک اپنا فیض پہنچا رہی ہیں۔
(نوٹ: اس مضمون میں درج تمام باتیں مضمون نگار کی ذاتی تحقیق اور خیالات پر مبنی ہیں۔ ان میں سے کسی بات پر ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ بھٹکلیس)