اردو میں لٹھ بازی (از:اطہر علی ہاشمی)

Bhatkallys

Published in - Other

04:45PM Thu 10 Sep, 2015
خبر لیجیے زباں بگڑی athar ali hashimi 394از:اطہر علی ہاشمی چلیے، پہلے اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ سنڈے میگزین (4 تا 10 اکتوبر) میں صفحہ 6 پر ایک بڑا دلچسپ مضمون ہے لیکن اس میں زبان و بیان پر پوری توجہ نہیں دی گئی۔ مثلاً ’لٹھ‘ کو مونث لکھا گیا ہے۔ اگر لٹھ مونث ہے تو لاٹھی یقینا مذکر ہوگی۔ لٹھ کو مونث ہی بنانا تھا تو ’’لٹھیا‘ لکھ دیا ہوتا۔ مزید وضاحت کی گئی ہے کہ جس (لٹھ) کے ٹاپ پر گھنگرو اور پیتل کی گھنٹیاں‘‘۔ عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے نفاذِ اردو کے حکم کے بعد ’’ٹاپ‘‘ کا استعمال توہین عدالت کے مترادف ہے، وزیراعظم کے انگریزی میں خطاب پر تو کسی نے توہینِ عدالت کی درخواست دائر کر ہی دی ہے۔ ’’ٹاپ‘‘ ایسا لفظ نہیں جس کا اردو میں متبادل نہ ہو بشرطیکہ یہ گھوڑے کی ’’ٹاپ‘‘ نہ ہو۔ ویسے اردو میں پچھتانے کے لیے بھی آتا ہے۔ مثلاً ’’ٹاپتا رہ جانا‘‘، یعنی کسی چیز کی آرزو یا انتظار میں رہنا، افسوس کرنا، دل مار کر بیٹھ جانا۔ اور ’’ٹاپتا پھرنا‘‘ کا مطلب مارا مارا پھرنا، حیران پھرنا، بھٹکتے پھرنا۔ گھوڑے کی ٹاپ کا مطلب ہے: گھوڑے کے سُم کا حلقہ، گھوڑے کے اگلے پاؤں کی ضرب۔ حالانکہ محاورہ تو یہ ہے: ’’گھوڑے کی پچھاڑی اور حاکم کی اگاڑی سے بچو‘‘۔ ٹاپ کے اور بھی کئی معانی ہیں۔ مثلاً گھوڑے کا گھاس، دانے کے وقت پاؤں زمین پر مارنا جسے گھوڑے کا حُسنِ طلب کہہ سکتے ہیں۔ مثنوی سحرالبیان میں گھوڑے کی تعریف میں ایک شعر ہے: نہ کھاوے، نہ پیوے، نہ سووے کبھی نہ ٹاپے، نہ بیمار ہووے کبھی جہاں تک ’’لٹھ کے ٹاپ‘‘ کا تعلق ہے تو اس کے لیے ’’سرے پر‘‘ یا ’’اوپر‘‘ لکھ دینا کافی تھا۔ یہ بھی نہیں تو ’’لٹھ پر‘‘ کافی تھا۔ انگریزی TOP بالکل غیر ضروری ہے۔ اسی مضمون سے انکشاف ہوا کہ ’’دف کی ڈفلی‘‘ بھی ہوتی ہے۔ جملہ ہے ’’دف کی ڈفلی کا سازینہ‘‘۔ ہمیں آلاتِ مزامیر سے ایسی کچھ واقفیت تو نہیں لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ دف اور ڈفلی ایک ہی چیز ہے۔ فرہنگ کے مطابق ’’دف بڑی گول ڈفلی، لکڑی کے حلقے پر ایک طرف کھال منڈھی ہوتی ہے۔ یہ کم و بیش بڑے طباق کے برابر ہوتا ہے۔ تقریباً ایک فٹ قطر کا‘‘۔ ڈفلی بجانے والے کو ڈفالچی یا ڈفالی کہتے ہیں۔ ایک مثل ہے ’’اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ‘‘۔ چنانچہ مزید کہنے کی ضرورت نہیں۔ یوں تو مذکورہ مضمون میں ’’متوازن ردھم‘‘ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ Rhythm متوازن ہی ہوتا ہے۔ اس انگریزی لفظ کا مطلب ہے: وزن، بحر، باقاعدہ اتار چڑھاؤ، تناسب وغیرہ۔ اور ردھم کی جگہ ان الفاظ کا استعمال بھی برا نہیں۔ یہاں سب سے موزوں لفظ ’’تال‘‘ تھا جسے ٹال دیا گیا۔ ہمارے معروف قلم کار اور ادیب ہی غیر ضروری طور پر انگریزی الفاظ استعمال کریں گے تو اردو کیوں کر نافذ ہوگی! ایک مزے کا جملہ نظر سے گزرا: ’’ایک ادھم برپا ہوگئی‘‘۔ جانے یہ کیا چیز ہے اور کیوں برپا ہوئی؟ لغت کے مطابق تو ’’ادہم‘‘ کا مطلب ہے: سیاہ رنگ کا گھوڑا۔ ایک بزرگ ابو بن ادھم بھی تھے جن کے بارے میں ایک انگریزی نظم بھی ہے۔ شاید ان ہی کی نسبت سے کچھ لوگ ادھمی کہلاتے ہیں۔ لیکن اگر یہ برپا کرنے والی چیز ہے تو یہ مونث نہیں مذکر ہے، لغت میں اس کے ہجے اُدھم بھی ہیں لیکن یہ اودھم ہے۔ جو بھی ہو، دونوں صورتوں میں یہ برپا کیا جاتا ہے یا مچایا جاتا ہے۔ اپنے گریباں میں بہت جھانک لیا۔ اب کہیں اور تاک جھانک کرتے ہیں۔ دبئی سے جناب منیری نے لکھا ہے کہ ’’ہمارے خیال میں قصائی کو اگر حرف ’ص‘ سے مانا جائے تو مضائقہ نہیں۔ کیونکہ یہ عربی لفظ قص سے نکلا ہے۔ قساوت سے اسے ماننے میں تصنع محسوس ہوتا ہے‘‘۔ یہ تصنع والی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ قساوت کا مطلب ہر لغت میں سنگدلی اور کٹھور پن ہے اور اسی سے لفظ قسائی ہے۔ ہم جب ’اردو نیوز‘ جدہ میں تھے تو اپنے سعودی مدیر اعلیٰ کے پاس اپنے عملے کے ایک فرد کی سفارش لے گئے جن پر ہمارے خیال میں کچھ زیادتی ہورہی تھی۔ مدیراعلیٰ نے کہا ’’دیکھو ہاشمی میں قسائی نہیں ہوں‘‘۔ یعنی ’’ایسا ظالم، سنگدل نہیں ہوں۔‘‘ چلیے، قسائی ’س‘ کے ساتھ ہو یا ’ص‘ کے…… گوشت تازہ اور اچھا ہونا چاہیے۔ اور یہ جو آج کل گدھے کا گوشت کھلانے کا شور مچ رہا ہے تو ایسے لوگ واقعی ’’قسائی‘‘ ہیں۔ ’’مختیار کار‘‘ اب کراچی کے اخبارات میں بھی نظر آنے لگا ہے۔ یہ کیا ہے؟ پنجاب اور سندھ میں بولنے میں تو مختیار (مخت یار) آتا ہے لیکن وہاں بھی لکھا نہیں جاتا۔ مختارکار کو مختیارکار لکھنے سے اُس کے اختیار میں کچھ اضافہ نہیں ہوجاتا۔ پنجاب کے اخبارات میں جملے کو مختصر کرنے کے لیے ’’کے‘‘ اور ’’میں‘‘ نکال کر ’’قصر‘‘ کردیا گیا ہے۔ آسان الفاظ میں جملے کو لنگڑا کردیا۔ مثلاً یہ جملہ دیکھیے: ’’اردو نفاذ بارے‘‘ جب کہ صحیح یوں ہوتا ’’اردو کے نفاذ کے بارے میں‘‘۔ ہمیں ڈر ہے کہ یہی غلط العام ہوکر فصیح نہ ہوجائے۔ لیکن یہ اختصار ابھی خبروں کی حد تک ہے۔ چلتے چلتے ایک ٹی وی چینل کی بات ہوجائے۔ ایک خاتون خبریں پیش کرنے کے بعد کہتی ہیں ’’فی الوقت کے لیے اتنا ہی‘‘۔ ہمارا خیال ہے کہ اس جملے میں ’’کے لیے‘‘ زائد ہے۔ ایک اخبار میں جملہ ہے ’’ہر دینی جماعت ایسے ہی پروگرام تشکیل دیتی ہیں‘‘۔ ہم اس سے پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ ’’ہر‘‘ کے بعد واحد آنا چاہیے۔ یہ جملہ یوں ہوسکتا تھا ’’ہر دینی جماعت ایسے ہی پروگرام تشکیل دیتی ہے‘‘۔ اس سے مفہوم میں بالکل بھی فرق نہیں آتا۔ ورنہ ’’تمام دینی جماعتیں‘‘ لکھا ہوتا۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ قارئین کو یہ جملہ بھی پڑھواتے کہ ’’احتجاجی مظاہروں میں ایجی ٹیشن کی اجازت نہیں ہوگی‘‘۔ ہم تو یہ سمجھتے رہے کہ ایجی ٹیشن کا مطلب ہی احتجاج ہے۔ ’’اتائی‘‘ اور ’’عطائی‘‘ پر بھی ایک صاحب نے شبہ کا اظہار کیا ہے۔ لغات کے علاوہ رشید حسن خان کی ’’کلاسکی ادب کی فرہنگ‘‘ میں بھی ’’اتائی‘‘ ہے، یعنی جس نے کسی غیر پیشے والے کا ہنر سیکھا ہو اور وہ اس کا آبائی، خاندانی پیشہ نہ ہو، جو کسی پیشے کو باقاعدہ حاصل کیے بغیر اس میں دخل دے، عموماً طبیب یا موسیقار کے لیے مستعمل ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ اتائی کا اطلاق ہم پر بھی کیا جا سکتا ہے، جوجانے بوجھے اور پورا علم حاصل کیے بغیر زبان و بیان کی نبض ٹٹولنے بیٹھ گئے۔