رہنمائے کتب: قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا جیتا جاگتا ثبوت، نئے علمی انداز میں۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

09:58AM Sun 19 Jun, 2022

[caption id="attachment_235135" align="alignleft" width="600"] 242[/caption]

*نام کتاب: النص القرآنی الخالد عبر العصور*

*مصنف: ڈاکٹر محمد مصطفی الاعظمی*

*صفحات: ۲۶۲*

*ناشر: مکتبہ نظام الیعقوبی الخاصہ، المنامہ، مملکۃالبحرین۔*

سنہ: ۱۴۳۸ھ۔ ۲۰

مشہور چینی کہاوت ہے کہ (کسی چیز کو ایک بار دیکھنا ہزار بار سننے سے بہتر ہے)۔ماہرین تعلیم اس اصول کو بچوں کی تعلیم میں اپنا تے ہیں۔ جہاں  زبانیں سکھانے ، اور سمجھانے کے لئے  باتصویر کتابوں  کی تیاری کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ قرآن کریم اللہ تعالی کی کتاب ہے، اور یہ تحریف سے پاک ہے، چودہ سو سال کے دوران جب سے اس کا نزول ہوا ہے، اس میں کوئی کمی بیشی اور تحریف نہیں ہوئی ہے، یہ انسان کے ہاتھوں تبدیلی سے پاک ہے، اس کے ثبوت میں ابتک بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں، اور دشمنان اسلام کا منہ مضبوط علمی دلائل سے بند کیا گیا ہے، لیکن بہر حال علمی دلائل کو دو اور دوچار کی طرح سمجھانے میں وقت لگتا ہے، دماغ میں بھی ان دلائل کو سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہئے،لہذا مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ علوم قرآن کے ماہرین نے نت نئے طریقہ سے ، زمانے کے معیار عقل وفہم کو دیکھ کر قرآن کی حقانیت اور انسانی ہاتھوں کسی بھی تبدیلی سے محفوظ رہنے کے دلائل وشواہد  کو جمع کرنے اور انہیں پیش کرنے کی کوششیں کی ہیں، اور ان شاء اللہ  یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا، اس سلسلے میں تصویر کی مدد سے  قرآن کریم کے محفوظ ہونے کے معجزہ  کو سمجھانے کی  ایک  اہم اور انمول کوشش قریبی دور کے عظیم محقق ڈاکٹر مصطفی اعظمی مرحوم نے اپنی اس کتاب کے ذریعہ  کی ہے، جس نے باریک علمی بحثوں میں پڑے بغیر ایک نظر میں قرآن کے محفوظ ہونے کے عقیدہ کو پختہ کرنا بہت ہی آسان بنادیا ہے، اب جنہیں حق بات قبول کرنی ہے، اور انہیں تھوڑی بہت عربی یا انگریزی آتی ہے انہیں اس بات کو سمجھنے میں دشواری نہیں ہوسکتی ، حساب میں دو اور دو چار کے فارمولے کی طرح یہ بات روشن ہوجاتی ہے۔

اس بات سے اہل علم  بخوبی واقف ہیں کہ قدیم کتابوں  میں تحریف اور تصحیف اور کاتب کی غلطیوں کو  پہچاننے کے لئے ان کےمحفوظ قلمی نسخوںسے موازنہ کی  بڑی اہمیت رہی ہے۔ اسی مقصد سے جنگ عظیم سے پہلے جرمنی میں   قرآن پاک کی مخصوص لائبریری قائم کی گئی ، جس میں دنیا بھر سے قرآن کے قدیم سے قدیم قلمی نسخے  لا لاکر اکٹھا کئے گئے،  لیکن یہ کتب خانہ جنگ عظیم  کے دوران   بمباری میں  تباہ ہوگیا،  ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور دوسرے جیسے دوسرے  محققین کا بیان ہے کہ اس کتب خانے کی تباہی سے قبل کتب خانے کی ایک رپورٹ جرمنی سے شائع ہوئی تھی،  جو ان کی نظر سے بھی گذر چکی ہے ، جس میں قرآن کریم کے ان مخطوطات پر تحقیق اور ان کا دیگر مخطوطات سے موازنہ کرکے محققین نےمفصل رپورٹ شائع کی تھی، جس میں صراحت سے   لکھا تھا کہ ، پہلی صدی سے ابتک دستیاب تمام ادوار کے  قرآن کریم کے قلمی نسخوں کا موازنہ کیا گیا، اس تحقیق سے پتہ چلا کہ قرآن پاک کی آیتوں میں ان صدیوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، اوراعراب اور حروف کی جو تبدیلیاں نظر آتی ہیں، ان کی حیثیت بنیادی تبدیلیوں کی نہیں ہے، یہ کاتبوں کی غلطیوں میں شمار ہوتی ہیں، قرآن کی اصل عبارت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

موجودہ دور میں دنیا کے مختلف کتب خانوں میں قرآن پاک کے قدیم قلمی  نسخے مختلف کتب خانوں میں پائے جاتے ہیں، ان  میں سے کئی ایک خلیفہ راشد امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی طرف بھی منسوب ہیں،ممکن ہے  ان میں سے بعض کی نسبت تحقیق کے اصولو ں پر ثابت نہ  ہو،پر بھی  ان کی تاریخی قدر وقیمت میں فرق نہیں پڑتا، کیونکہ ان کے  پہلی  اور دوسری صدی ہجری میں لکھے جانے میں کوئی شک نہیں ہے، جو ان مصاحف کی تاریخی قدر وقیمت کے  ثبوت میں  کافی ہیں۔ ڈاکٹر مصطفی اعظمی ؒ کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے  تاریخی اہمیت کے قرآن پاک کے (۱۶  )   قدیم  نسخوں کو اکٹھا کیا ہے۔ اور بطور نمونہ سورة الاسراء کا ایک ایسا ایڈیشن تیار کیا ہے، جس پر ایک نظر پڑتے ہی قرآن کی حفاظت کے معجزہ ہونے  پر یقین کرکے لئے کسی کسی لمبی چوڑی  تقریر اور بحث کی ضرورت نہیں پیش آتی۔

محقق فاضل نے قرآن کریم  کی   سورة الإسراء   کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ  ہر صفحہ پر قرآنی آیا ت کا مختلف قلمی نسخوں سے فوٹ لیا  ہے، اور پھر اس کے نیچے اسی آیت کی فوٹو دنیا بھر کے قدیم نسخوں سے دئے گئے ہیں۔

واضح طور پر نظر آنے کے لئے سورہ کے تمام الفاظ کے درمیان    فاصلہ دے کر انہیں  علحدہ علحدہ رکھا گیا ہے، ۔  پہلی سطر میں سورۃ الاسراء  مدینہ منورہ کے شاہ فہد پریس کےمعتبر قرآن پاک کے ایڈیشن سے لی گئی ہے۔اس کے بعد والی سطر میں اسی   آیت قرآنی کا وہی حصہ مصحف المدینۃ سے لے کر اس میں سے نقطے اور اعراب حذف کردئے گئے ہیں۔ جیسا کہ حجاج بن یوسف ثقفی سےپہلے عربی زبان کے حروف رائج تھے، چونکہ اس زمانے میں خط کوفی کا ابتدائی ورژن رائج تھا، جس کا آج کے دور میں سمجھنا مشکل ہے، لہذا آج کے دور میں پڑھے جانے والے خط سے یہ آیتیں لی گئی ہیں، تاکہ اس کے نیچے جن قدیم مصاحف سے آیات لی گئی ہیں،

[caption id="attachment_235136" align="alignleft" width="600"] 242[/caption]

ان کا موازنہ آسان ہو۔اور  پھر ترتیب سے مندرجہ ذیل قلمی مصاحف سے سورۃ اسراء کی آیات کے فوٹو دئے گئے ہیں۔

۔(۳) برٹش لائبریری میں ۲۱۰۶۵ او آر  نمبر پر محفوظ نسخے سے اسی آیت کا فوٹو دیا گیا، اس مصحف کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پہلی صدی ہجری کے نصف اول میں لکھا گیا تھا۔ اس کے بعض حصےکی کتابت کے بارے میں خیال ہے کہ اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک (ف ۹۶ھ) کے دور خلافت( ۸۵ھ) سے قبل لکھا گیا تھا۔یہ حجازی تھوڑے ٹیڑھے خط میں ہے، محققین کی رائے ہیں کہ یہ ابن عامر (ف ۱۱۸ھ) کی قراءت  کے مطابق ہے ، جو کہ  چھٹی صدی ہجری تک اہل شام میں رائج تھی۔

۔(۴)    صنعاء (یمن) کے نیشنل ارکائیوز میں محفوظ نسخہ سے۔

۔(۵) سمرقند میں محفوظ    امیر المومنین حضرت   عثمان  بن عفان  ؒ کی طرف منسوب مشہور مصحف سے، ڈاکٹر محمد حمید اللہ ؒ کا کہنا ہے کہ یہ مصحف دمشق میں محفوظ تھا، تیمور لنگ نے جب دمشق کو لوٹاتو  اسے سمرقند لے گیا، ۱۸۶۸ء میں جب روس نے سمرقند پر چڑھائی کی تو یہ مصحف سینٹ پیٹرس برگ لے گئے، پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جنرل علی اکبر توبشی باشا  کے پیرس فرار سے قبل سینٹ پیٹرس برگ کو اپنے کمانڈوز بھیجے، اور اپنی جنرل کے منصب کو استعمال کرتے ہوئے ایک ٹرین چارٹرڈ کی اور اسے ترکستان لے گئے، سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ۱۹۸۹ء میں ازبکستان کی اسلامی کونسل نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا، یہ چمڑے پر  کوفی رسم الخط میں لکھا ہوا ہے۔

۔(۶)  توپ کاپی میوزیم میں محفوظ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب مصحف، بعض محققین کا خیال ہےکہ یہ دوسری صدی ہجری میں  لکھا گیا ہے۔

۔(۷) حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی طرف منسوب  رضا لائبریری رامپور کا نسخہ۔

۔ (۸۔۹۔۱۰  )۸) تونس میں محفوظ  قدیم نسخے۔

۔(۱۱)  نور عثمانیہ  ترکی کا دوسری صدی ہجری میں لکھا ہوا نسخہ۔

۔(۱۲)مکتبہ الملک فھد میں محفوظ تیسری صدی ہجری کا نسخۃ۔

۔ (  ۱۳) نورعثمانیہ ۔ ترکی کا قدیم نسخہ۔

۔(۱۴) خلافت عباسیہ کے دور کے  مشہور خطاط ابن مقلۃ (۲۷۲۔۳۲۸ھ)  کے خط میں رامپور میں محفوظتیسری صدی ہجری میں لکھا ہوا مصحف۔

۔ (۱۵  ) حکیم اوغلو ۔ترکی کا نسخہ۔

۔(۱۶) مشہور خطاط ابن البواب(ف ۴۱۳ھ) کے خط میں مصحف۔

۔(۱۱۷) عہد عباسی کے ایک اور مشہور خطاط یاقوت المستعصمی (ف ۶۹۸ھ) کے خط  میں سالار جنگ میوزم حیدرآباد میں محفوظ مصحف۔

۔ (۱۸  ) پیر تیفنیال ۔ ترکی کا نسخہ

اس طرح پہلی صدی ہجری سے ساتویں صدی ہجری تک لکھے گئے قرآن پاک کے اصل (۱۶)قلمی نسخوں  سے  ترتیب وار کلمات قرآنیہ کے فوٹو اس ترتیب کے ساتھ کہ   لفظ ( اسری)  پہلی سطر میں (مصحف مدینہ) سے جدید اعراب و نقط کے ساتھ، دوسری سطر میں عین نیچے ( مصحف مدینہ ) سے بغیر اعراب ونقط کے،تیسری سطر  اس کے عین نیچے (برٹس لائبری) کے نسخے سے ، چوتھی سطر ، اس کے عین نیچے ( مصحف صنعاء) سے، پانچویں سطر اس کے عین نیچے( مصحف عثمان ، سمرقند) سے۔ اسی ترتیب سے (۱۸) آیت (سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى)  کے فوٹوقلمی نسخوں سےایک ایک سطر میں بالترتیب چسپان کئے گئے ہیں۔

کتاب کے ابتدا میں دائیں جانب سے  عربی زبان میں ایک تحقیقی مقدمہ ہے، جس میں چارٹ کے ذریعہ حروف کے املا کے فرق کو واضح کیا گیا ہے، اور آخر میں بائیں جانب سے انگریزی زبان میں یہی مقدمہ پایا جاتا ہے۔ بڑی باریک بینی اور محنت سے تیار کئے گئے اس مقدمہ نے اس کوشش کو چار چاند لگا دئے ہیں۔  اللہ مصنف کے درجات بلند کرے جو زاد رہ کے طور پر اپنے ساتھ یہ قرآن کریم کی یہ عظیم خدمت اپنے ساتھ لے گئے، اور ناشر بھی ملت احسان مند ہے جنہوں نے کتاب کے اعلی ایڈیشن کی اشاعت میں سخاوت کا مظاہر ہ کیا۔  بطور نمونہ کتاب کے چند صفحات منسلک ہیں۔

https://t.me/ilmokitab/9598

2022-06-19