ویکسی نیشن۔۔۔غلط پروپگنڈے کی حقیقت کیا ہے) ! چوتھی اور آخری قسط(

Bhatkallys

Published in - Other

04:29PM Sun 26 Feb, 2017
آنکھ جو دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔  از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ پچھلی قسطوں میں ویکسی نیشن یا ٹیکے لگانے کی تاریخ، ضرورت و اہمیت پر میں نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اب اس آخری قسط میں ویکسی نیشن کے تعلق سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں اور اینٹی پروپگنڈے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں تو پولیو ویکسی نیشن کی عام مہمات جب شروع کی گئی تھیں اسی وقت سے اس کے خلاف کچھ سائنسی اور کچھ مذہبی زاویوں سے اس کی مخالفت کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اور جیسا کہ سابقہ مضمون میں میں نے بتایا کہ اسی غلط پروپگنڈے کی شدت نے آج پاکستان ، افغانستان اورنائجیریا(گزشتہ قسط میں میں نے غلطی سے الجیریا لکھ دیا تھا) جیسے ممالک کو پولیو سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کے زمرے میں رکھا ہے جبکہ بشمول ہندوستان، دنیا کے بیشتر ممالک سے وائلڈ پولیو وائرسWPV کا تقریباًخاتمہ ہوگیا ہے۔لیکن دنیا میں اس وقت non polio AFPکی سب سے زیادہ تعداد ہندوستان ہی میں دیکھی گئی ہے۔ اور اس کی وجہ پولیو ویکسی نیشن کی مہم پرصد فی صد عمل پیرا نہ ہونا بتایا گیا ہے۔ اس مرتبہ خسرہ measlesاور روبیلا (جرمن میزلس) کی روک تھام کے لئے ملک گیر پیمانے پرمرحلہ وار ویکسی نیشن کی مہم شروع کی گئی ہے تو اس کی مخالفت کا جیسے سیلاب امڈ پڑا ہے۔ ہر کوئی اپنی دانست میں قوم و ملت کی خدمت کے نام پر بے بنیا د اور گمراہ کن پیغامات پھیلانے میں لگا ہے۔ ویکسی نیشن کی مخالفت میں سوشیل میڈیا اور انٹر نیٹ پرجو کچھ بھی ہاتھ لگا ، اسی کو سند مان کر بغیر تحقیق کے اسے آگے بڑھانے اور جہاں تک ممکن ہو، اس مہم میں رکاوٹ ڈالنے میں مصروف ہے۔ اور کچھ بد طینت افرادشیطانی چال یہ چل رہے ہیں کہ آدھے سچ پر مبنی پیغامات اورکانٹ چھانٹ والے ویڈیو کلپس کو گمراہی پھیلانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔

دولتِ علم سے وابستہ ہے نکتہ سنجی جو بصیرت نہ ہوئی ، خاک وہ بینائی ہے

یہ مخالفت کون کررہا ہے : ویکسی نیشن کے تعلق سے شدید مخالفت ملت اسلامیہ کے اندراور بعض فکری یا مسلکی گروہوں میں کچھ زیادہ ہی محسوس کی گئی ہے ۔ اور اسے ملت اسلامیہ کے خلاف سازش قرار دینے کی جان توڑ کوشش انہی گروہوں سے وابستہ رضاکاروں کی طرف سے کی جاتی ہے جن پر بھروسہ کرتے ہوئے عام افراد اور بعض علمائے دین بھی اس میں ہاتھ بٹانے لگے ہیں۔لیکن اس مرتبہ ایک روشن پہلو یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ بہت سارے علمائے دین ویکسی نیشن کی مہم سے استفادہ کرنے کے تاکیدی پیغامات بھی سوشیل میڈیا پر جاری کیے۔اگر مذہب و ملت اورممالک و علاقہ کی حدود سے ہٹ کرپوری انسانیت کے لئے اس کے نقصان دہ ہونے کی بات ہے تووہ قابل غور بھی ہے اور تحقیق وتفتیش کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ لیکن یہاں تو صرف ملت اسلامیہ اور مسلم نسلوں کو تباہ کرنے کی سازش کا شوشہ جو چھوڑا جاتا ہے ، اسے نری جہالت کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ہمیں جاننا چاہیے کہ کچھ وبائی امراض endemicیعنی مخصوص علاقے میں ہمیشہ پائے جاتے ہیں، جیسے ملیریا افریقہ کی خاص بیماری ہے۔ کچھ بیماریاں وقفے وقفے سے مختلف علاقوں میں پھیلتی ہیں جسے epidemicکہا جاتا ہے۔ اور یہ دونوں قسم کے امراض آج کی دنیا یعنی گلوبل ولیج میں عالمی وبا یا pandemicبن جانے کا خطرہ ہمیشہ بنا رہتا ہے ، تو اب ویکسی نیشن کی مہمات کا اہم مقصدکسی مخصوص علاقے سے زیادہ عالمی انسانی برادری کی صحت کاتحفظ بن گیا ہے۔ ویکسی نیشن کا شیڈول کیا ہے !: بہرحال ویکسی نیشن کے برے اثرات پر بحث کرنے سے پہلے ایک بار وہ شیڈول بھی دیکھ لیتے ہیں جسے وبائی امراض کو روکنے کے مرکز(CDC) Centres for Disease Control and Preventionکے ذریعے دنیا بھر میں متعارف کیا گیا ہے۔ اس شیڈول میں بتایا گیا ہے کہ کونسی کونسی بیماریوں کے لئے عمر کے کس مرحلے میں کون کون سے ڈوز دئے جائیں گے۔ اس سلسلے میں مختلف ممالک میں کچھ ردو بدل بھی ہوسکتا ہے ۔ ہم اس کی تفصیل میں گئے بغیر یہ سمجھ لیں کہ بچے کی پیدائش سے 15ویں مہینے کی عمر تک کچھ ویکسین منھ کے ذریعے یا انجکشن کے ذریعے مختلف اوقات میں دئے جائیں گے ۔ پھر 18ویں مہینے سے 18سال کی عمر تک کچھ ویکسین مختلف ادوار میں دئے جائیں گے جسے معمول مطابقroutineویکسی نیشن کہا جائے گا۔پھر جب بھی کسی بیماری کو نشانہ بنا کر اسے ختم کرنے کی عام مہم چلائی جائے گی ، تو اس کی اضافی خوراک(بوسٹر ڈوز) بھی اس عمر کی حد میںیعنی بچپن اور بلوغت کی عمر تک دئے جائیں گے ۔ شیڈول کے تحت کونسے ویکسین دئے جاتے ہیں!: پیدائش سے جوانی کی دہلیز تک دو حصوں میں تقسیم اس شیڈول کے اندر جو ویکسی نیشن کیا جاتا ہے ،ان میں اب تک دریافت شدہ یہ ویکسین شامل ہیں۔Hepatitis B (HepB)،Rotavirus (RV)،(DTaP)،(Hib)،PCV1 MMR ، PPSV23، (IPV)،IIV،RIV ، VAR، HepA،ACWY، HPV ۔ یہ ہیپاٹائٹس اے اور بی ، ڈپتھیریا، ٹیٹانیس، کالی کھانسی، انفلوئنزا، خسرہ،ممپس، روبیلا،ورسیلا، پولیو، دماغی بخار جیسے امراض کی روک تھام کے لئے ہوتے ہیں۔اور ان کے ڈوز ایک سے زیادہ بار cdcکی طرف سے متعینہ عمر میں دئے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس مرتبہ MRویکسی نیشن جو دیا گیا ہے وہ کوئی نیا انجکشن نہیں ہے بلکہ immunizationشیڈول کے مطابق یہ ہر اس بچے کو ڈیڑھ سال کی عمر سے پہلے دیا جاچکا ہے، جس کو عام زبان میں پولیو ویکسی نیشن کیا جاچکا ہے۔ کیا ویکسی نیشن کے برے اثرات ہوتے ہیں؟: جی ہاں!کسی بھی عام دوا کی طرح ویکسی نیشن کے بھی برے اثرات بھی ہوتے ہیں ۔ جو عام طور پر معمولی ہوتے ہیں جیسے بدن پر خارش ہونا اور لال چکتّے ابھر آنا۔ معمولی بخار اور انجکشن کی جگہ پر ہلکی سوجن عام بات ہے ، جسے نظر انداز کیا جانا چاہیے۔ البتہ جسم پر لال داغ ابھریں تو ڈاکٹر کے پاس لے جاکر اس کا علاج کرنا چاہیے۔ کبھی کبھار دوا کی تیاری میں کسی خرابی یا بچے کے جسم کے قدرتی نظام کے ساتھ ویکسین کا تال میل نہ ہونے کی بنا پر کوئی جان لیوا حادثہ بھی ہوسکتا ہے، جیسا کہ عام بخار اور پیٹ درد کے انجکشن سے بھی ہونا ممکن ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی خاص یا عام بیماری کے لئے لی جانے والی ہر دوائی کے برے اثراتside/adverse effectsموجود ہوتے ہیں۔ لیکن بیماری سے صحتیاب ہونے کے لئے ڈاکٹر اور مریض دونوں کو یہ رسک لینا پڑتا ہے۔ ویکسین اور بچوں کے دماغ پر اثر: ویکسی نیشن کے مخالفین خاص کرMMR کے سلسلے میں بتاتے ہیں کہ اس کے اندر پائے جانے والے ایک کیمیکل thimerosal سے مرکیوری خارج ہوتی ہے اور اس سے بچے کے اعصاب اور دماغ پر برے اثرات پڑتے ہیں جس کی وجہ سے وہ autismنامی بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں انٹرنیٹ پرچند ایک مضامین بھی موجود ہیں۔ لیکن اس پر مسلسل کی گئی ریسرچ کے بہت سارے پیپرس بھی موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ امریکہ اور یوروپ میں بچوں میں بڑھتے ہوئے autismکے معاملات اور ویکسی نیشن کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اب سوائے انفلوئنزا ویکسین کے اور کسی بھی ویکسین میں وہ کیمیکل استعمال کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے جسےthimerosal کہا جاتا ہے۔اور انفلوئنزا ویکسین کو اس کیمیکل کے بغیر بھی تیارکرنے کی پہلی کوشش سال2016-17میں تجرباتی طور پر کی گئی ہے ۔اس کے علاوہ ویکسی نیشن سے بالفرض بچے کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے پر اس کا ہرجانہ طلب کرنے کے لئے بھی قانونی شعبہ بنایا گیا ہے۔امریکہ میں سن1988میں اس مقصد کے لئےNational Vaccine Injury Compensation Program (NVICP)کا قیام عمل میں لایا گیا۔اسی طرح ہندوستان کے قانون کے تحت بھی نقصان کی صورت میں ہرجانہ طلب کرنے کی گنجائش اپنی جگہ موجود ہے۔ آج زہر کس چیز میں نہیں ہے؟!: جہاں تک ویکسی نیشن میں مضر مادے کے موجود ہونے یا اس سے آئندہ نقصان پہنچنے کے خدشات کامعاملہ ہے ، تو اس سلسلے میں پوچھا جاسکتا ہے کہ آخر موجودہ ترقی یافتہ اور مشینی دور کی کس چیز میں زہر موجود نہیں ہے؟!جہاں تک ویکسین میں مرکیوری کا تعلق ہے اس کی خطرناک شکل آج فضا میں موجو د ہے اور روزانہ وہ ہمارے جسم میں سرایت کررہی ہے۔روزانہ مختلف امراض کے لئے جو دوائیاں ہم استعمال کرتے ہیں، وہ کہاں محفوظ ہیں؟کتنی ہی دوائیاں ایسی ہیں جو پہلے کبھی بہت ہی زیادہ مفید اور اکسیر مانی جاتی تھیں اور آج اسے انتہائی نقصان دہ مان کر طبی دنیا میں اس کے استعمال پر پابندی لگادی گئی ہے۔ آج بھی کتنی دوائیاں ایسی ہیں جو امریکہ ، یوروپ اور عرب ممالک میں ممنوعbannedہیں، جبکہ بشمول ہندوستان دنیا کے دیگر ممالک میں دھڑلّے سے استعمال کی جارہی ہیں۔ دواؤں کے زہریلے اثرات کو چھوڑیئے، آج ہماری غذا کہاں کا محفوظ ہے۔اناج، مچھلی، مرغی،گوشت،دودھ، ترکاری، فروٹ ، پانی ،سافٹ ڈرنکس، ہوا ، فضاسب کچھ زہریلے مادوں سے بھرا پڑا ہے۔ان تمام اجناس اور اشیاء کی مقدار اور کوالٹی بڑھانے اور انہیں محفوظ رکھنے کے لئے جو کیمیکلز اور دوائیاں استعمال کی جاتی ہیں، وہ اس ویکسین سے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہوتی ہیں، لیکن ہم بے فکری کے ساتھ انہیں استعمال کیے جارہے ہیں۔(ان شاء اللہ اس موضوع پر پھر کسی مضمون میں گفتگو کریں گے)فی الحال ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہمیں اسی حال میں جینا ہے ۔ بقول قیصرالجعفری ؂

سانسوں کا خیمہ اڑ جائے اتنا تیز بگولا ہے بے رسی کے جھول رہا ہے ، جیون ایسا جھولا ہے اوپر پھانسی کا تختہ ہے، نیچے گہرا پانی ہے اس جنگل میں رہنا ہوگا جب تک دانہ پانی ہے

بیرونی ممالک کا سفر اور ویکسی نیشن: بچوں کا ویکسی نیشن یا immunization اس لئے بھی ضروری ہوگیا ہے کہ اب دنیا جو گلوبل ولیج بن گئی ہے تو ہر آدمی کو ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفردر پیش رہتا ہے۔ ایسے میں اگرکوئی اپنے اہل خانہ کو بیرونی ممالک لے جانا چاہے تو پھرعالمی سطح پر طے کیے گئے شیڈول کے مطابق بچوں کا ویکسی نیشن کرنا بھی لازمی ہے۔ویکسی نیشن کیے جانے کے سرٹفکیٹ کے بغیر اب بیرونی ممالک (بشمول خلیجی ممالک) میں بچوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا۔ اس لئے ہمارے معاشرے کے خلیجی ممالک میں مقیم احباب ویکسی نیشن سے اپنے بچوں کو روکنے کے خیال پر دوبارہ غور کریں۔ اس بار ویکسی نیشن کی مہم کے دوران ہماری اکثر خواتین نے ہم سے کہا کہ ہم اس کی ضرورت کو سمجھ گئے ہیں، لیکن کیا کریں ہمارے شوہر نامدار ہمیں اس کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ وہ بس اس کی مخالفت اور نقصان کے قائل ہوگئے ہیں اور ہمیں بالکل منع کررکھا ہے۔ اس لئے چاہنے کے باوجود ہم ان کی حکم عدولی نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کی سازش: اس مرتبہ ایم آر ویکسی نیشن کے سلسلے میں مخالفین نے جو سب سے زیادہ مضحکہ خیز دلیل کو وائرل کیا تھا وہ مرکزی حکومت اور آر ایس ایس کی طرف سے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے ، چالیس سال کی عمرکو پہنچنے پر نامردی پیدا ہونے اور اس طرح مسلمانوں کی نسل کشی کی سازش رچنے کی بات تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آر ایس ایس کی پالیسی ہندتوا کی علمبرداری اورمسلم دشمنی پر مبنی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم ہر چیز کو غلط ثابت کرنے کے لئے صرف اسی ایک بات کا سہارالیں اور نری جہالت کا مظاہرہ کریں۔ ذراسی عقل اور فہم رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو ایسی خفیہ اور معاندانہ سازش کو اس طرح کھلے عام اور ڈنکے کی چوٹ پرلاگو نہیں کرسکتی۔(یہ الگ بات ہے کہ ماضی میں خود کانگریسی حکومت نے مسلمانوں کی نس بندی کی مہم چلائی تھی، مگر اس وقت ایمرجنسی نافذ کرکے جمہوری حقوق چھین لیے گئے تھے۔ یہ سراسرظلم اور زیادتی ہے: جب کہ پورے پورے اضلاع اور ریاستوں میں بغیر مذہبی یا نسلی تفریق کے تمام اسکولوں میں کھلے عام یہ مہم چلائی جارہی ہو، اس کے خلاف عوام کو گمراہ کرنااور بچوں کو آئندہ زندگی میں خطرناک امراض سے تحفظ فراہم کرنے میں رکاوٹ پیداکرنا صریح زیادتی اور ظلم ہے۔اس لئے کہ یہاں مسئلہ کسی ایک بچے کو ویکسی نیشن نہیں دے کر اسے اپنے طورپر ویکسی نیشن کے برے اثرات سے محفوظ سمجھنے کا نہیں ہے، بلکہ سوال اس ایک بچے کو ویکسی نیشن نہ دینے کی وجہ سے وبائی مرض لگنے اور اس بچے کی وجہ سے کسی اسکول یا کسی علاقے میں اس مرض کے پھیلنے کا ہے۔ یعنی ایک طرح سے کسی ایک کو محفوظ کرلینے کے تصور سے بہت سارے لوگوں کو خطرے میں ڈالنے کا سبب بننا ہے۔ لہٰذا جو لوگ بھی ویکسی نیشن کے تعلق سے غلط فہمیوں اور بے بنیاد مفروضات کا شکار ہیں، انہیں اپنے موقف کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اور اپنے بچوں کے محفوظ اور صحتمند مستقبل کے تعلق سے سنجیدگی سے سوچتے ہوئے اس طرح کی مخالفانہ مہم سے باز آنا چاہیے۔کیونکہ ٹیکے لگانے یا ویکسی نیشن کا یہ سلسلہ یہیں رکنے والا نہیں ہے۔ خدا جانے مستقبل میں اور کونسی نئی بیماریوں کی نشاندہی ہوجائے اور مزید کتنے برسوں تک ایسی مہمات چلتی رہیں۔کیونکہ آئندہ نسلوں کو جو ورثہ ہم دے رہے ہیں، وہ بس ہم ہی جانتے ہیں: ؂

دن گزرتے جائیں گے ، غم ان کا بڑھتا جائے گا زخم جتنا بھرتے جائیں گے ، ابھرتے جائیں گے ***************