خبرلیجئے زباں بگڑی ۔ کاکس یا کاسس بازار --- تحریر : اطہر ہاشمی

برعظیم پاک و ہند کے مشہور شہروں کے صحیح نام اب صحافیوں کی نوجوان نسل کو یاد بھی نہیں رہے، جب کہ چند برس پہلے تک یہ صورتِ حال نہیں تھی۔ آج کل روہنگیا مہاجروں کے حوالے سے بنگلادیش کے ایک شہر کا نام اخباروں میں ’’کاکس بازار‘‘ لکھا جارہا ہے۔ بنگلادیش کبھی پاکستان کا حصہ تھا اور مغربی پاکستان سے جانے والے سیّاح اس شہر کی سیاحت بھی کرتے تھے۔ اُن دنوں اس کا صحیح نام شائع ہوتا تھا جو کاسس بازار ہے (دو ’س‘ کے ساتھ)۔ یہ انگریزوں کا دیا ہوا نام ہے اور انگریزی میں اس کا املا Cox's ہے، یعنی کاسس یا کاکس کا بازار۔ انگریزی میں Cox کشتی بانوں یا ملاّحوں کو کہتے ہیں۔ لیکن یہ لفظ ناخدائی کرنا، دوڑنے والی کشتی کی ناخدائی، یا دوڑ میں حصہ لینے والی کشتی وغیرہ (آکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری)۔ پھر ساحلِ دریا پر آہستہ آہستہ بازار لگنے لگا جو کشتیوں میں بھی لگتا اوریوں Cox's بازار کہلانے لگا۔ بھارت کا راجستھانی شہر الور بہت معروف ہے اور ریاست الور کے بہت سے لوگ سندھ اور پنجاب میں آباد ہیں۔ ان میں بہاولپور کے ایک رکن اسمبلی اور شاعر تابش الوری بھی تھے لیکن گزشتہ دنوں ایک اخبار میں اس کا نام ’’الوار‘‘ پڑھا۔ ایسا لگتا ہے کہ انگریزی میں یہ نام Alwar لکھا گیا ہوگا جس کا ترجمہ الوار کردیا گیا، لیکن برعظیم پاک و ہند کے مشہور شہروں کے ناموں سے صحافیوں کو واقف ہونا چاہیے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بھارت سے جسارت کو بھیجے جانے والے کچھ اخبارات پر اس کا پتا چندریگر روڈ کے بجائے چندی گڑھ روڈ لکھا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن چلیے چندریگر تو ایسا معروف نام نہیں ہے، اور اگر پاکستان کی نوجوان نسل سے پوچھا جائے کہ وہ کون تھے تو بیشتر اُن سے ناواقف نکلیں گے۔ ’وتیرہ‘ اب بھی صحیح ہونے میں نہیں آیا۔ گزشتہ سنڈے میگزین (24 تا 30 ستمبر) میں ایک نوجوان صحافی عارف رمضان جتوئی کا مضمون شائع ہوا ہے۔ موصوف نے نہ صرف ’ناتا‘ کو ناطہ لکھا بلکہ وتیرہ میں بھی ’’ط‘‘ شامل کرنا ضروری سمجھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے نوجوان ساتھی کچھ سیکھنا نہیں چاہتے۔ لیکن ہم بھی باز نہیں آئیں گے۔ وتیرہ کے حوالے سے اردو لغت بورڈ نے طور، طریقہ، برتاؤ، چلن، ڈھنگ، روش، شیوہ (مجازاً عادت) کے علاوہ کچھ نئے محاورے بھی دیے ہیں جو ہمارے علم میں نہیں تھے۔ یہ محاورے ہیں ’’وتیرہ باندھنا، وتیرہ بنا لینا، وتیرہ بننا، وتیرہ پکڑنا، وتیرہ ہونا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ مطالب واضح ہیں مثلاً وتیرہ پکڑنا یعنی روش اختیار کرنا، عادت یا معمول بنا لینا۔ لیکن مذکورہ معانی عام استعمال میں نہیں ہیں، صرف عادت بنا لینا ہی مستعمل ہے۔ ایک مطلب رستہ اور راہ بھی ہے۔ لغت نے ’وتیرہ باندھنا‘ کے حوالے سے ’’انشاء ہادی النسائ‘‘ سے ایک جملہ دیا ہے ’’میں نے یہ وتیرہ باندھ رکھا ہے کہ اوّل تو اٹھتے ہی ایک سپارہ پڑھ لیتی ہوں‘‘۔ وتیرہ پکڑنا یعنی عادت اور معمول بنالینا کے لیے ’’مکاتیبِ خضر سے یہ جملہ دیا ہے ’’آج کل فقیر نے یہ وتیرہ پکڑا ہے کہ اکابرینِ ملّت کو مکتوب لکھتا ہوں‘‘۔ برسبیلِ تذکرہ مکاتیب اور مکاتب میں معنوی فرق ہے جو قارئین کو معلوم ہی ہوگا۔ کتنے ہی الفاظ ایسے ہیں جو ہم بلاتکلف استعمال کرتے ہیں اور موقع محل کے حوالے سے صحیح استعمال کرتے ہیں، لیکن کبھی کبھی لغوی معانی دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً ایک صاحب نے پوچھ لیا کہ ’’لاف و گزاف‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ ہمیں یقین ہے کہ اُن کا اشارہ ہماری تحریروں کی طرف نہیں ہوگا، کیوں کہ ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ لاف زنی نہ کریں۔ یہ دونوں الفاظ فارسی کے ہیں اور ’لاف‘ کا مطلب شیخی مارنا یا شیخی بگھارنا (جانے یہ بگھاری کیسے جاتی ہے)، اور ’گزاف‘ کا مطلب ہے بے ہودہ گفتگو۔ لاف کے بارے میں آتشؔ کا شعر ہے وہ دہن ہوں نہ نکلا حرفِ غرور وہ زباں ہوں نہ جس سے لاف ہوا لاف و گزاف ہم معنی ہیں۔ ایک مصرع ہے چل نہیں سکتا یہاں لاف و گزاف اغیار کا مصرع پر یاد آیا کہ ہمارے بہت عالم فاضل مضمون نگار اور شاعر بھی مصرع کی علامت کے طور پر شعر کی علامت ’ ‘ بنا دیتے ہیں، جب کہ مصرعے کے لیے ’’ع‘‘ بنایا جاتا ہے، اور یہ جو علامت ہے یعنی ’ ‘ یہ دراصل شعر کی بگڑی ہوئی شکل ہے جو پہلے’سعر‘ ہوئی اور پھر ’ ‘ بن گئی۔ سماء ٹی وی چینل کی بہت اچھی اینکر محترمہ پارس ہیں۔ لیکن وہ عموماً بھینٹ کر بروزن اینٹ کہتی ہیں، یعنی بھ کو زیر کرلیتی ہیں جب کہ بھینٹ میں بھ پر زبر ہے۔ ’لیت و لعل‘ اور ’طوہاً و کرہاً‘ بھی ایسے الفاظ ہیں جن کو ہم استعمال تو صحیح کرتے ہیں مگر قارئین کبھی ان کے معانی بھی دیکھ لیں۔ ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔ ایک بار پھر چراغ تلے اندھیرا۔ ۔ ۔ کتنی بار سمجھانے کی کوشش کی کہ ’حامی‘ اور ’ہامی‘ میں معنوی فرق ہے۔ ’حامی‘ حمایت کرنے والے کو کہتے ہیں اور ’ہامی‘ اردو میں تنہا نہیں ہوتا، عموماً ’بھرنے‘ کے ساتھ آتا ہے یعنی ’ہامی بھرنا‘۔ اس کا مطلب ہے کسی کام کے لیے آمادگی ظاہر کرنا۔ لیکن بدھ کے جسارت میں شہ سرخی کی ذیلی میں ہے ’’ہامی وکلا نے کمرۂ عدالت میں رش لگا دیا‘‘ جب کہ یہاں ’حامی‘ ہونا چاہیے تھا۔ جسارت میں ایک سینئر صحافی’’قلمرو‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔ ’رو‘ کا مطلب ہے چلنا، جیسے غالب کا مصرع رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے لیکن اسی املا کے ساتھ ایک ’’رُو‘‘ بھی ہے جس کا ایک مطلب چہرہ بھی ہے جیسے ’رونمائی‘۔ ’خود رُو‘ جس کا مطلب ہے اپنے آپ اُگنے والا۔ ویسے آپس کی بات ہے ہم عرصے تک خودرُو کو خودرو ہی کہتے رہے۔ رَو فارسی مصدر رفتن سے ہے جس کا مطلب ہے چلنا۔ رفتار اسی سے ہے۔ فارسی میں ایک اور مصدر ہے ’روئیدن‘ اس کے معنی ہیں اگنا۔ روئیدگی اسی سے بنا ہے۔ اس مصدر سے فعل امر ’رُو‘ بنتا ہے۔ اس سے فعل امر ’خودرُو‘ بنا ہے جس کا مطلب ہے اپنے آپ اگنے والا۔ (انشا اور تلفظ، رشید حسن خان) مثلاً یہ شعر لالہ خود رُو نہیں ہے خون نے فرہاد کے جوش میں آکر لگا دی کوہ کے دامن میں آگ اب اگر اسے ’لالہ خود رَو‘ پڑھا جائے تو اس کے معنی ہوں گے’اپنے آپ چلنے والا لالہ‘ ۔ ویسے صوبہ خیبر پختون خوا اور سندھ میں بھی لالہ بڑے بھائی کو کہتے ہیں اور وہ اپنے آپ چلتے ہیں۔ فراق گورکھپوری نے ایک نظم میں بچپن کا ذکر کیا ہے، اس کا ایک مصرع ہے نمود لالۂ خود رُو میں دیکھنا جنت اب یہ واضح نہیں قلمرو میں ’ر‘ پر پیش ہے یا زبر۔
فرائیڈے اسپیشل
www.akhbarafoafkar.com