سچی باتیں ۔ دشمنی کا سد باب --- تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم

Bhatkallys

Published in - Other

03:50PM Sun 1 Apr, 2018

 قرآن مجید کے چھبیسویں  پارہ میں  ایک سورہ حجرات ہے اس میں  ارشاد ہوتا ہے کہ  اِنَّمَا الْمُؤْ مِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْااللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ۔ سب مسلمان آپس میں  بھائی ہیں  سو اپنے بھائیوں  کے درمیا ن صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے تقویٰ اختیار کئے رہوتا کہ تم پر رحم کیا جائے۔ گویا مقصود بندوں  کو نزولِ رحمت سے خبر دینا ہے اور جو شرطیں  نزولِ رحمت کی ہیں  انھیں  بیان کردینا یعنی ہر ایک مسلمان کو بھائی سمجھنا اور یہ سمجھ کر مسلمانوں  میں  باہم ملاپ کراتے رہنا ،دوسرے ہر فرض کا تقویٰ اختیار کیے رہنا اس کے معًا بعد دو ضوابط ارشاد ہوتے ہیں  جن سے مسلمانوں  کی باہمی سازگاری قائم رہ سکتی ہے۔ یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسٰی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَا نِسَائٌ مِّنْ نِسَآئٍ اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْا اَنْفُسَھُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْن  ،  یَآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْااجْتَنِبُوْا کِثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا۔ اے ایمان والونہ تو مردوں  کومردوں  پر ہنسنا چاہیے کیا عجب ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں  اور نہ عورتوں  کو عورتوں  پر ،کیا عجب ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں  اور نہ ایک دوسرے پر عیب لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو ایمان کے بعد گناہ کا نام رکھنا ہی برا ہے اور جو توبہ نہ کریں  گے تو وہی ظالم ہے ،اے ایمان والو بہت گمانوں  سے بچتے رہو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں  اور ایک دوسرے کی کھوج میں  نہ لگے رہواور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ یہاں  نصیحت چھ چیزوں  کی کی گئی ہے۔    ایک دوسرے کی تحقیر نہ کریں  ’’تمسخر‘‘اور ’’مزاح‘‘  دو متضاد چیزیں  ہیں  مزاح یا خوش طبعی سے مقصود دوسرے کا دل خوش کرنا ہوتاہے ’تمسخر‘ سے دوسرے کی دل شکنی اور تحقیر ہوتی ہے ممانعت اسی سے ہے۔    ایک دوسرے پر عیب نہ لگائیں۔    ایک دوسرے کے لئے چڑھانے والے نام نہ تجویز کریں۔    ایک دوسرے کے اقوال ،اعمال، احوال کی نسبت بد گمانیاں  نہ کرتے رہیں۔    ایک دوسرے کے رازوں  کی ٹوہ اور رتجسس میں  نہ رہیں۔  پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی کمزوریوں  کا تذکرہ نہ کریں۔ خوب غور کرکے دیکھئے ،دلوں  میں  رنجش پیداکرنے کی جتنی بھی راہیں  ہیں  ان سب کو کس حکمت کے ساتھ بند کردیا گیا ہے اور اگر ان تعلیمات پر عمل ہوتو نااتفاقیوں  اور رنجشوں ،نفاق و شقاق کے لئے کوئی بھی گنجائش باقی رہ جائے ؟ لیکن آج ان تعلیمات پر عمل ہے کہاں؟ آج ان احکام کی تعمیل پوری نہ سہی ادھوری ہی کون کررہا ہے؟ کیا وہ لوگ جو ایک دوسرے کو ’’ٹوڈی‘‘ یا ’’ہزوانی‘‘ کہتے رہتے ہیں ؟ کیا وہ جو اس قسم کی خبریں  شائع کرتے رہتے ہیں  کہ مولانا شوکت علی نے اپنا ایمان گورنمنٹ کے ہاتھ اور ڈاکٹر انصاری نے اپنا ضمیر کانگریس کے ہاتھ فروخت کرڈالا؟ کیا وہ جو دن رات اسی فکر میں  رہتے ہیں  کہ اپنے بھائیوں  کی کمزوریوں  کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کا پردہ فاش کیا کریں  اور جس حد تک بھی ممکن ہو اپنی ہی قوم کے ناموروں  کو دنیا کی نظروں  میں خوب حقیرو ذلیل کرکے رہیں؟ خوب خیال رہے کہ ہمیں  ممانعت تو واقعی عیوب کی بھی جستجو سے اور سچے الزامات لگانے سے بھی ہے،چہ جائیکہ ایک دوسرے کے متعلق اتہامات خود اپنے ذہن سے تراشنا ،یا محض افواہ کو شہرت دینا اور چرچے کرنا ! ہر فریق کی نیت پر حملہ کرنے ،ہر گروہ اور ہر سرگروہ سے متعلق بڑی سے بڑی بدگمانی کرنے، ہر ایک کی پردہ دری کرتے رہنے کا نتیجہ با لآخر اسی مادی دنیا میں  کیانکل رہا ہے؟ اب کسی کا بھی اعتبار ،کسی کا بھی وقار ،باقی رہ گیا ہے ؟کسی کی عزت محفوظ رہی ہے؟ آخرت میں  جو کچھ پیش آنا ہے ،وہ تو آکر رہے گا، آج اور یہیں  اگر ہندو یاانگریز ،مسلمانوں  سے صلح کرنا چاہے توآخر کن افراد سے ،کس انجمن سے ،کس جماعت سے ،مخاطب کرے؟ کسی کا کوئی وزن آپ نے اپنے ہاتھوں  باقی رہنے دیا؟