قوم اب تقریر کے بجائے سخت قانون چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی

پارلیمنٹ کا اجلاس بھی چل رہا ہے اور ملک میں باہر بھی وزیراعظم سے ہر طبقہ کے لوگ اپنے دل کی بات کہہ رہے ہیں۔ ملک میں ادب اور فلم کی دنیا کے 50 نامور حضرات نے وزیراعظم کی خدمت میں ایک کھلا خط بھیجا ہے۔ ان کو ماب لنچنگ کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وزیراعظم نے ایسا نہیں ہے کہ اس کی مذمت نہ کی ہو لیکن جو طبقہ اس بیماری میں مبتلا ہے وہ وزیراعظم کی نصیحت اور درد بھری اپیل کو خاطر میں لانے والا نہیں ہے بلکہ متوجہ کرنے والوں کے نزدیک اس کے لئے سخت قانون بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جو نعرہ ملک کو ایک ڈوری میں باندھنے کے کام آسکتا تھا وہ ہر رشتہ کو توڑنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ہم نے کچھ دنوں پہلے اپنے اسی کالم میں لکھا تھا کہ سنبھل سے مغرب کی جانب 20 کلومیٹر کے فاصلہ پر مسلمانوں کا ایک بہت بڑا گاؤں حاجی پور ہے ہم یہ تو نہ بتا سکیں گے کہ اس بستی کو بسانے والے حاجی صاحب کا نام کیا تھا لیکن وہ جو بھی تھے ان کا مذہبی ہونا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حاجی تھے اور جس زمانہ میں انہوں نے حج کیا ہوگا اس زمانہ میں ہندوستان سے سو پچاس ہی مسلمان حج کرنے جاتے تھے کیونکہ ان کا سفر سال دو سال کا بھی ہوجاتا تھا۔ اس زمانہ میں انہوں نے وہاں گاؤں بسایا جہاں چاروں طرف جاٹ آباد تھے۔
ہمارے نانا صاحب مرحوم چودھری عبدالحکیم حاجی پور کے سب سے بڑے زمیندار تھے گاؤں کی حیثیت سے شاندار مکان تھا مردانہ الگ اور زنانہ الگ اور سواری کے بہت شوقین تھے اس لئے اس زمانہ کی رائج سواریوں میں سے ہر سواری ان کے پاس تھی ایک گھوڑی ایک کھٹولہ (صرف ایک آدمی کا بیل تانگہ) تانگہ باپردہ سواری کے لئے ربہ اور رتھ جو زیادہ تر شادی کیلئے جاٹوں کے گھروں میں بھی مانگا جاتا تھا۔ ہم نے لکھا تھا کہ حاجی پور سے جو کوئی گذرتا تھا وہ نانا ابا کی مردانہ کھانچی کے سامنے سے گذرتا تھا اور اگر وہ جاٹ ہوتا تھا تو سامنا ہوتے ہی رام رام چودھری صاحب اس کے منھ سے نکلتا تھا اور جواب میں نانا ابا بھی رام رام رام رام دو بار میں جواب دیتے تھے اور پڑوس کے گاؤں کا کوئی زمیندار جاٹ ہوتا تھا تو بغیر دودھ یا شربت پلائے جانے نہیں دیتے تھے۔
قاضی عدیل عباسی صاحب نے تحریک خلافت کی تاریخ لکھی ہے اس میں انہوں نے کئی جگہ لکھا ہے کہ خلافت تحریک کو گاندھی جی نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور ان کی وجہ سے کانگریس ہندو اور گاندھی جی کو ماننے والے تمام ہندو نعرۂ تکبیر کے جواب میں اللہ اکبر کہا کرتے تھے اور یہ عام بات تھی۔ ہمارے دوستانہ تعلقات نہ جانے کتنے ہندوؤں سے رہے ان میں سیاست کی دنیا کے بھی تھے اور تجارت پیشہ بھی۔ اور یونیورسٹی یونین کا تو حال یہ تھا کہ شہر کے تمام پریس جتنے پوسٹر نہ چھاپتے ہوں گے اتنے ہم اکیلے چھاپتے تھے اور یونین میں کوئی جیتے وہ ہمارا بیٹا ہوتا تھا اور ان میں سے نہ جانے کتنے ایسے تھے جو پریس میں داخل ہوتے ہی چچا سلام وعلیکم اور ہم جیتے رہو جیتے رہو کہہ کر گلے لگاتے تھے۔ یہ صرف اس لئے تھا کہ نہ کسی کے رام رام کہنے سے اس کا دین مجروح ہوتا تھا اور نہ سلام علیکم کہنے سے اس کا دھرم داغدار ہوتا تھا۔ یہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہوگیا کہ جے شری رام کا مطلب مندر وہیں بنے گا ہوگیا۔ اور مسلمان اسے زخموں پر نمک چھڑکنا سمجھنے لگے۔ اگر ہندو دوست اسے فی الحال اپنوں تک محدود رکھیں اور کسی کو مجبور نہ کریں تو سال دو سال میں یہ دوری ختم ہوجائے گی شری رام کے بارے میں کبھی کسی مسلمان نے نازیبا بات نہیں کہی سب نے اچھے الفاظ میں ان کو یاد کیا کسی مصنف نے ان کو پیغمبر لکھ دیا تو اس کی تردید نہیں کی بلکہ کہا کہ قرآن عظیم میں ہے۔ لکل قوم ہاد۔ ہم نے ہر قوم میں ہادی بھیجے۔
کل بھی راجیہ سبھا میں وزیراعظم نے کہا کہ جو ہورہا ہے وہ بہت غلط ہے لیکن جھارکھنڈ ریاست یا حکومت کو الزام دینا ٹھیک نہیں ہم اس کی تائید نہیں کرسکتے ہندوستان میں کسی جگہ دو چار انگریزوں کے ساتھ زیادتی ہوجاتی ہے تو یوروپ میں ہر اخبار انگریزوں کو مشورہ دیتا ہے کہ کوئی ہندوستان نہ جائے۔ وہ اس شہر یا بازار یا ہوٹل کا نام نہیں لیتا۔ آسٹریلیا میں ایک زمانہ میں ہندوستانیوں پر حملے ہورہے تھے۔ ہر طرف سے آواز آئی کہ اب کوئی آسٹریلیا نہ جائے۔ وزیراعظم الیکشن کے مریض ہیں جھارکھنڈ میں الیکشن ہونے والے ہیں تو وہ وہاں کی حکومت کیلئے نہ جانے کتنوں کو قربان کرسکتے ہیں۔
کرناٹک میں بی جے پی نے اتنا گندہ اور بھونڈا کھیل کھیلا ہے کہ جمہوریت کا منھ کالا کردیا کانگریس اور جنتادل کے 16 ممبروں کو کتنا کتنا روپیہ دیا کہ وہ جو لاکھوں کروڑوں روپئے خرچ کرکے ایم ایل اے بنے تھے اب ایم ایل اے نہیں رہے۔ بہت بوڑھے سابق وزیراعظم دیوگوڑا صاحب اپنا سرتھامے بیٹھے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اپنی عمر میں ایسی خرید و فروخت کبھی نہیں دیکھی اور ہم جس نے اپنی پوری عمر میں 1967 ء میں جسٹس ملا ّ کا اور مولانا اسحاق سنبھلی کا بغیر خرچ کے الیکشن لڑایا جس نے آچاریہ کرپلانی کا مرکزی وزیر حافظ ابراہیم سے الیکشن لڑایا 1969 ء میں بغیر ایک روپیہ کے امتیاز ادیب دربنس گوپال شکلا کا الیکشن لڑایا وہ سن رہا ہے کہ کرناٹک میں حکومت پر قبضہ کے لئے 25 ہزار کروڑ سے زیادہ مودی جی نے خرچ کردیا اللہ جانے کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے۔ لیکن جو طریقہ اپنایا ہے ایسے تو وہ پورے ملک کی اسمبلیاں خرید سکتے ہیں تو پھر الیکشن کی کیا ضرورت رہ گئی۔؟
Mobile No. 9984247500
(ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج کسی بھی بات یا رائے سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ یہ مضمون نگار کا ذاتی خیال ہے۔ادارہ)