بنگلور کے واقعہ کی گونج پورے ملک میں

از:حفیظ نعمانی
بنگلور اور دہلی کے شرمناک واقعات نے اتنی اہمیت اختیار کرلی ہے کہ این ڈی ٹی وی انڈیا کا پروگرام ’’ہم لوگ‘‘ کل صرف اس کے گرد گھومتا رہا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب تک بنگلور سے ایسی خبریں تو آتی تھیں کہ وہاں لڑکوں نے لڑکیوں کی آوارہ گردی یا بے راہ روی پر دوڑایا، سزادی یا انہیں اس کا پابند کیا کہ وہ کسی بھی یوم کے موقع پر لڑکوں کے ساتھ آوارہ گھومتی نظر نہ آئیں۔ لیکن یہ خبر شاید پہلی بار آئی ہے اور اس لئے اسے ایک ہفتہ ہوجانے کے باوجود بار بار اور ہر دن دکھایا جارہا ہے کہ دن کے ڈھائی بجے ایک سنسان سڑک پر ایک لڑکی جارہی ہے اور اسکوٹر پر سوار دو لڑکے اس کے پاس سے گذرتے ہیں اور پھر واپس آکر ان میں سے ایک اس لڑکی کے ساتھ ایسی حرکت کرتا ہے جس سے پورا ملک دہل جاتا ہے۔
لڑکی سڑک سے اٹھ کر کپڑے جھاڑتی ہے اور روانہ ہوجاتی ہے۔ بنگلور ملک کے ان شہروں میں ہے جو سب سے خوبصورت پرامن اور موسم کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ ہم بار بار وہاں جاچکے ہیں اور نہ جانے کتنی بار زبان سے نکلا ہوگا کہ اگر لکھنؤ کے بعد کوئی شہر رہنے کے قابل ہے تو وہ بنگلور ہے۔ ایک ہفتہ ہوگیا اس واقعہ پر مذاکرات بھی ہورہے ہیں اور مضامین بھی لکھے جارہے ہیں۔ مذاکرات میں اکثر حضرات یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے قانون تو سخت سے سخت بنادیئے ہیں لیکن یہ بیماری قابو میں نہیں آتی۔ ہم نے بار بار لکھا ہے کہ قانون کوئی تلوار یا بندوق نہیں ہے۔ اور ہے تو اہمیت تو اس ہاتھ کی ہے جو تلوار چلائے یا بندوق چلائے۔ ہمارے ملک کی عدالتوں کا جیسا نظام ہے اس کے ہوتے ہوئے نہ یہ لعنت رُک سکتی ہے اور نہ اس سے بھی بڑی لعنتیں۔ جب ایک مقدمہ برسوں ماتحت عدالت میں چلے۔ اس کے بعد سیشن میں جائے۔ پھر ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں تو ظاہر ہے کہ چالیس برس لگ جائیں گے۔ جیسے کل ایک خبر اخباروں میںآئی کہ آبروریزی کے ایک مجرم کو عمرقید کی سزا سنائی گئی تو ہماری طرح ہر کوئی یہ جاننے کیلئے پوری خبر پڑھ رہا ہوگا کہ یہ کب کی بات ہے؟
ہم نہیں جانتے کہ کون کرے اور کیا کرے؟ ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر ٹھاکر حکومت سے یہ کہتے کہتے چلے گئے کہ عدالتیں خالی پڑی ہیں ججوں کے ناموں کی ایک فہرست بھیجی تھی جس میں 75 نام تھے انہیں منظور کردیا جائے اگر کسی نام پر اعتراض ہے تو اس کو تبدیل کردیا جائے اور وزیر قانون جو صرف اپنے وزیر اعظم پر لگنے والے الزامات کا جواب دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں وہ یہ کہتے رہے کہ ہم نے اتنے جج اس وقت اور اتنے جج اُس وقت مقرر کردیئے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ عدالتوں کا نظام کھاپ پنچایتوں سے بھی بدتر ہے۔ ہر مقدمہ میں برسوں تک صرف تاریخ پڑتی رہتی ہے۔ ماتحت عدالتیں جنہیں دس بجے سے پانچ بجے تک عدالت میں بیٹھ کر مقدمات سن کر فیصلہ کرنا چاہئے وہ 11.00 بجے کے بعد عدالت آتے ہیں اور دو گھنٹے بیٹھ کر پھر چیمبر میں چلے جاتے ہیں وہاں سے 3.00 بجے آکر دو چار ضمانتیں ردّ کرتے ہیں اور جیل کے حوالاتیوں کو تاریخ دے کر گھر چلے جاتے ہیں۔ کسی پر یہ پابندی نہیں ہے کہ اس کے ایک مہینہ میں کتنے مقدموں کا فیصلہ کرنا ہے؟
ملک کی جیلیں ان ملزموں سے بھری پڑی ہیں جن کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے اور برسوں سے وہ اس لئے وہاں پڑے کھا رہے ہیں کہ پولیس گواہ تلاش کرتی پھر رہی ہے۔ یا جب پیشی پر آتے ہیں تو سرکاری وکیل کہہ دیتا ہے کہ گواہ نہیں آئے۔ تو مقدمہ خارج کرنے کے بجائے ایک مہینہ کی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ اور برسوں یہ ڈرامہ ہوتا رہتا ہے۔ قانون سخت ہے تو وہ جب سامنے آئے گا جب عدالتوں کی آخری سیڑھی آئے گی۔ اس کے لئے ضرورت اس کی ہے کہ کم از کم آبروریزی یا چھیڑچھاڑ یا دوسرے وہ جرم جن سے سماج پر برا اثر پڑتا ہے ان کے لئے یہ پابندی کردی جائے کہ ان کو سیشن جج کے خلاف ہائی کورٹ یا ہائی کورٹ کے خلاف سپریم کورٹ جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ سیشن جج کا فیصلہ آخری ہوگا۔
ایک طرف تو سخت سے سخت سزا کی باتیں ہوتی ہیں اور دوسری طرف وہ باتیں شروع ہوجاتی ہیں کہ اگر ایک بھی بے گناہ کو غلط سزا ہوگئی تو انصاف کا خون ہوجائے گا۔ جب ملک کی حالت یہ ہوجائے کہ خبروں کے مطابق ملک میں ہر 15 منٹ میں ایک لڑکی بالغ یا نابالغ کی آبرو یا جان جارہی ہو تو دس بیس بے گناہ بھی مارے جائیں تو برداشت کرنا پڑے گا۔ بنگلور کا جو واقعہ تذکروں میں ہے اس کا گواہ ایک بے جان کیمرہ ہے۔ اگر اس کیمرے اور گرفتار ملزموں کو چہرے یا کپڑے یا اسکوٹر ایک ہیں تو اس مقدمہ کو ایک ہفتہ سے زیادہ چلانا یہ ثابت کرے گا کہ ہم خود معاشرہ کو برباد کررہے ہیں۔
جس پروردگار نے دنیا بنائی ہے اسی نے اپنی تخلیقات میں انسان کو اپنا شاہکار اشرف المخلوقات قرار دیا ہے۔ اور وہی حکم دیتا ہے کہ زنا کرنے والی عورت اور مرد کو 100-100 کوڑے مارے جائیں اور اس کے بعد یہ بھی حکم دیتا ہے کہ کوڑے مارنے میں نرمی نہ برتی جائے۔ یعنی پوری طاقت سے مارے جائیں۔ اور وہی پروردگار اپنے اس شاہکار کو جب شرک اور نافرمانی یا خدا کی برابری کرنے کی سزا دے گا تو وہ آگ ایسی ہوگی جیسی کسی نے دیکھی بھی نہ ہوگی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ جہاں یہ قانون ہے وہاں سے ایسی خبریں برسوں میں ایک آجاتی ہیں اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ جرم اور سزا کے درمیان کا وقفہ چند ہفتوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔
ہمارے قانون ساز سخت سے سخت کا قانون بنانے کے ساتھ ساتھ اتنا اور کردیں کہ وہ سزا جلد سے جلد دی جائے گی اور جیل سے باہر دی جائے گی۔ سزا کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ جرم کرنے والا دوبارہ نہ کرے لیکن یہ بھی ہونا چاہئے کہ جو دوسرے دیکھیں وہ کرنے کی ہمت نہ کریں۔ سعودی عرب میں اس لئے قتل کی سزا جمعہ کے دن سب سے بڑی مسجد کے باہر جمعہ کی نماز کے بعد میدان میں دی جاتی ہے جسے ٹی وی کے ذریعہ پورا ملک دیکھتا ہے۔ ہم اگر کسی بڑے پارک میں ننگا کرکے 100-100 کوڑے ماریں اور سارا ملک دیکھے تو یقین ہے کہ آج کے مجنوں راہ چلنے والی لڑکی کو بجلی کا ننگا تار سمجھ کر کتراکر نکل جائیں گے اور اگر وہی ہوتا رہا جو ہورہا ہے تو سال دو سال کے بعد ہر 15 منٹ کے بجائے ہر 5 منٹ میں کوئی واردات ہوگی اور رونے والے روتے رہیں گے۔