سچی باتیں۔۔ نظریہ ڈارون۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:07PM Fri 4 Feb, 2022

 1930-01-24

ڈاکٹر ہنری فیٹر فیلڈ آسیرنؔ کا شمار اس وقت سائنس کے مشاہیر علماء میں ہے۔ امریکنؔ میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے ڈاکٹر ہیں، بہت سے علمی ڈگریوں کا ضمیمہ اُن کے نام کے ساتھ لگاہواہے، متعدد مستند کتابوں کے مصنف ہیں، اور علم الحیات علم الحیوانات میں ان کا ماہر فن ہونا ، آج سے نہیں، بیس پچیس سال قبل سے مسلّم چلاآتاہے ۔ ڈارونؔ کے مسئلہ ارتقاء کے زبردست نقیبوں میں تھے۔ لیکن پانچ سال ہوئے اپنے ایک شریک کار ڈاکٹر اینڈریوزؔ کے ہمراہ وسطی ایشیا کے صحرائے گوبیؔمیں تحقیق وتفتیش کے لئے گئے، اُس وقت سے اس عقیدہ میں تزلزل شروع ہوا، یہاں تک کہ اب سرے سے ڈارون ازمؔ کے منکر ہوگئے ہیں، اور اپنے افکار کو سائنٹفک رسالہ ہیومن بیالوجیؔ میں شائع بھی کردیاہے، اور اس انکار میں بالکل تنہا نہیں ہیں، بلکہ ڈاکٹر اینڈریوزؔ بھی ہمراہ وہمرائے ہیں! کہتے ہیں کہ انسان کا وطن، اُس کی آفرینش کے وقت وسطی ایشیا کا علاقہ تھا، جو اُس وقت بندروں کی سکونت کے بالکل ناقابل تھا، اور انسان کابندر کی اولاد ہونا تو الگ رہا، کوئی دُور کی قرابت ومناسبت بھی اس کے ساتھ نہیںمعلوم ہوتی!

یہ انکار اور قطعی انکار، مدلّل انکار، کس سے مسئلہ سے ہورہاہے؟ کسی جزئی وفرعی مسئلہ سے نہیں، کسی نزاعی واختلافی مسئلہ سے نہیں۔ ایسے مسئلہ سے ہورہاہے، جو بالکل اصول، بلکہ اصل الاصول کی حیثیت رکھتاتھا، جو اہل فن کا بالکل اجماعی وقطعی مسئلہ تھا، جو شک وتردد ، نزاع واختلاف سے بالاترتھا، اور جس کے اوپر سائنس کے خدامعلوم کتنے شعبوں کی اہم ترین حقیقتوں کا دارومدارتھا! اور پھر انکار کرنے والا کون ہے؟ کالی رنگت کا کوئی جاہل نہیں، مشرق کا کوئی دیوانہ نہیں، مغرب ہی کا ایک محقق ، دانایان فرنگ ہی کا ایک مشہور ومسلّم دانا، علم وحکمت کا پُتلا، فضل وتحقیق کا دیوتا ! کَل تک یہ مسلّم تھا، کہ جو ڈارونؔ کا ، اور اُس کے اِس نظریہ کا کہ انسان ایک ترقی یافتہ بندرہے، مُنکر، وہ علم سے جاہل، عقل سے بیگانہ، حکمت سے بے خبر، تحقیق سے ناآشنا، اُس کے دعوے قابل مضحکہ اوراُ س کے دلائل مستحق تحقیر۔ اورآج انکار وتردید کی صدا خود اُنھیں عالموں کے حلقہ سے، انھیں ماہرین فن کے حلقوم سے بلند ہونے لگی! کل کی حقیقت آج وہم میں تبدیل ہونے لگی، اور صبح تک جس کے ’’ہست‘‘ ہونے پر اصرارتھا ، شام کو اُس کے ’’نیست‘‘ ہونے پر دلائل قائم ہونے لگے!۔

لیکن اپنے علوم وفنون پر ناز کرنے والوں، اپنے سائنس اور آرٹ پر فخر کرنے والوں کی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات ، یا اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے؟ ان کا فلسفہ، ان کی نفسیات (سایکالوجی)، ان کی معاشیات (اکنامکس) ، ان کی اخلاقیات( اتھیکس)، اُن کی تاریخ ، ان کی ارضیات( جیالوجی) ، ان کی فلکیات ( ایسٹرانومی) ، ان کی حیاتیات (بیالوجی)، ان کی عمرانیات (سوشیالوجی) ، ان کا قانون ، ان کی طب ، غرض ان کے ماہرین فن کے سارے کے سارے دفتر کمالات و مناقب ، بجز اس کے اور کیا ہیں، کہ آپ ی ایک بات کہتے ہیں، اور آپ ہی اُس کی تردید کرنے لگ جاتے ہیں۔ ابھی ایک دعوے کا زور وشور کے ساتھ اعلان ہوتاہے، اور ابھی اُسی قوت واصرار کے ساتھ اُس کی مخالفت ہونے لگتی ہے۔ ابھی ایک محقق ایک دعوے کو لے کر اُٹھتے ہیں، لیکن اُن کے قلم کی سیاہی بھی خشک نہیں ہونے پاتی ، کہ ایک دوسرے اُن سے بھی بڑے محقق نمودار ہوجاتے ہیں، اور وہ اُس کا رد چھاپ کر شائع کردیتے ہیں۔ تعمیر ختم بھی نہیں ہونے پاتی ، کہ تخریب شروع ہوجاتی ہے۔ اور پھر تعمیر اور پھر تخریب کو گھومتا رہنے والا چکّر ! کلام مجید میں آتاہے ولَا تَکُونُوا کَالَّتِی نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنْ بعد قُوَّۃٍ انْکاثًا، (اُس عورت کی طرح نہ ہوجانا ، جو طاقت خرچ کرکے سُوت کاتتی ہے ، اور پھر اُسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالتی ہے)۔ تفسیروں میں آتاہے ، کہ مکہ میں اس طرح کی ایک مجنون بُڑھیاتھی ۔ مکہ میں تو خیر کوئی ایک مجنون بُڑھیاہوگی، لیکن آج دانش آباد یورپ وامریکہ میں کتنے جوانانِ عاقل ٹھیک اسی ذہنیت کے موجود نہیں؟