مترجم و مفسر قرآن علامہ عبداللہ یوسف علی۔۔۔از: آصف جیلانی

ایک 81/سالہ کمزور شخص جو کئی سال سے وسطی لندن کی سڑکوں پر بے مقصد گھومتا پھرتا نظر آتا تھا، دسمبر 1953ء کی سخت سردی میں ویسٹ منسٹر کی ایک عمارت کے دروازے کی سیڑھیوں پر کسمپرسی کے عالم میں پڑا ہوا تھا۔ پولس نے اسے فوراً ویسٹ منسٹر اسپتال میں داخل کردیا۔ دوسرے روز اسپتال سے فارغ کرنے کے بعد اسے چیلسی میں بوڑھے لوگوں کی ایک پناہ گاہ میں بھیج دیا گیا۔ 10/دسمبر کو اس مفلس پر دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اس شخص کا کوئی عزیز رشتہ دار اس کی میت لینے نہیں آیا۔ پولس نے جب پاکستان ہائی کمیشن سے شناخت کے لئے استفسار کیا تو انکشاف ہوا کہ یہ مفلس، ممتاز، مسلم دانشور، مشہور تاریخ دان، ماہر تعلیم اور قرآن پاک کے انگریزی مترجم اور مفسر علامہ عبداللہ یوسف علی تھے۔
ازدواجی زندگی میں مصائب کے ستائے ہوئے علامہ عبداللہ یوسف علی ایک طرف اپنے گھرکے بعض افراد کی جانب سے اذیت آمیز رویہ کا شکار تھے۔ دوسری جانب برطانوی حکومت نے بھی اپنے اس محسن سے جو ظالمانہ بے رخی برتی، اس کی نظیر مشکل سے ملتی ہے۔ برطانوی حکومت ساری عمر انہیں اعزازات اور انعامات سے نوازتی رہی لیکن جب یہ لندن کی سڑکوں پر بے یار و مددگار پھرتے تھے تو انہیں یوں نظر انداز کردیا کہ اب ان کی افادیت باقی نہیں رہی۔
علامہ عبداللہ یوسف علی ، 14/اپریل 1872ء کو بمبئی کے بوہرہ داؤدی گھرانے میں پیدا ہوئے ان کے والد پولس انسپکٹر تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے بمبئی کے انجمن حمایت اسلام اسکول میں حاصل کی اور بعد میں مشنری ولسن کالج سے بی اے کیا۔ اسی دوران انہوں نے قرآن پاک حفظ کیا۔ علامہ عبداللہ یوسف علی نے 19/سال کی عمر میں بمبئی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں فرسٹ ڈویژن میں سند حاصل کی اس کے بعد وہ اسکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے برطانیہ کی کیمبریج یونیورسٹی چلے گئے۔ جہاں انہوں نے سینٹ جونز کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ ہندوستان واپسی پر انہوں نے انڈین سول سروس میں شمولیت اختیار کی ۔ پھر ایم اے اور ایل ایل ایم کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان واپس آگئے۔
1900ء میں علامہ عبداللہ یوسف علی کی ایک انگریز خاتون ٹریسا میری شیلڈرس سے بورن متھ کے سینٹ پیرس چرچ میں شادی ہوئی۔ ٹریسا میری سے ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ انڈین سول سروس سے منسلک ہونے کی وجہ سے علامہ عبداللہ یوسف علی بیشتر وقت ہندوستان میں رہتے تھے اور ان کی بیوی بچے انگلستان میں مقیم تھے۔ اس بناء پر ان کی ازدواجی زندگی شدید دباؤ کا شکار رہی۔ تاہم پھر ٹریسا میری نے بے وفائی کی، جس کی وجہ سے ان کی ازدواجی زندگی ناکام ہوگئی اور آخر کار انہوں نے 1912/میں ٹریسا میری کو طلاق دے دی۔ گو وہ اپنے چاروں بچوں کی تحویل حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور ان کے لئے انگلستان میں گورنس کا انتظام بھی کیا لیکن ان کے بچوں نے انہیں مسترد کردیا۔ اس دوران علامہ عبداللہ یوسف نے بے گھر کی زندگی گزاری 1917ء میں انہوں نے انڈین سول سروس سے استعفیٰ دے دیا اور ہندوستان کو چھوڑ کر انگلستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران وہ ووکنگ کی شاہ جہاں مسجد کے ٹرسٹی اور ایسٹ لندن کی مسجد تعمیر کے لئے فنڈ جمع کرنے کے نگراں کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔
1914/ میں جب پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو برطانیہ کے بیشتر مسلمان اس جنگ میں برطانیہ کی مدد کرنے کے مخالف تھے کیونکہ ان کے نزدیک یہ جنگ سلطنت عثمانیہ کے خلاف تھی۔ لیکن علامہ عبداللہ یوسف علی نے برطانیہ کے مسلمانوں کی اس رائے کے برعکس اس جنگ کی بھرپور حمایت کی۔ انہوں نے جنگ کے لئے برطانیہ کی امدادی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جنگ کی حمایت میں مضامین لکھے اور جلسوں میں تقریریں کیں۔ ان کی ان ہی خدمات کے صلہ میں برطانوی حکومت نے انہیں 1917/ میں "سر" کے خطاب سے نوازا۔
1920ء/میں علامہ عبداللہ یوسف علی کی ایک انگریز خاتون گرٹ روڈاین موبے سے شادی ہوئی ان کا مسلم نام معصومہ رکھا گیا۔ علامہ عبداللہ یوسف علی کی پہلی بیوی کے بچے ان کی دوسری شادی کرنے کے فیصلے سے خوش نہیں ہوئے اور انہوں نے عبداللہ یوسف علی اور معصومہ کے ساتھ برا رویہ رکھا۔ اس صورت حال سے پریشان ہوکر علامہ عبداللہ یوسف علی اور ان کی اہلیہ نے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا۔ دوسری شادی سے ان کا ایک بیٹا پیدا ہوا انہوں نے اس کا نام رشید یوسف علی رکھا لیکن بد قسمتی سے ان کی دوسری شادی بھی کامیاب نہ ہوسکی۔
ہندوستان میں قیام کے دوران علامہ اقبالؒ نے عبداللہ یوسف علی کو اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ قبول کرنے پر آمادہ کیا اس عہدہ پر وہ 1925/سے 1927/تک فائز رہے۔ 1928/ میں عبداللہ یوسف علی اس متنازعہ مسلم وفد میں شامل تھے جو سر آغا خان کی قیادت میں لیگ آف نیشنز گیا تھا۔ ان کے ساتھ اس وفد میں سر ملک فیروز خان نون بھی شامل تھے۔ اس وفد کا مقصد لیگ آف نیشنز میں اسرائیل کے قیام کے قرارداد کی حمایت کرنا تھا۔ بر صغیر کے مسلمانوں نے اس وفد کی سخت مخالفت کی تھی۔
علامہ عبداللہ یوسف علی کو دوبارہ اسلامیہ کالج لاہور کا پرنسپل بنایا گیا، وہ 1935/ سے 1937/تک اسلامیہ کالج لاہور میں بطور پرنسپل خدمات انجام دیتے رہے۔ اس دوران پنجاب یونیورسٹی کے فیلو، سینڈیکیٹ اورانکوائری کمیٹی کے ممبر بھی رہے۔ انہوں نے "مسلم ایجوکیشنل آئیڈیلز" ، "فنڈامینٹلز آف اسلام" "مورل ایجوکیشن،ایمز اینڈ میتھڈز"، "پرسنیلٹی آف مین ان اسلام" اور " میسج آف اسلام" نامی کتابیں تحریر کیں اور عالم اسلام کو ان تصانیف کا تحفہ دیا۔ لیکن ان کا سب سے اہم اور شہرہ آفاق کارنامہ انگریزی میں قرآن پاک کا ترجمہ اور اس کی تفسیر ہے، جس کی اشاعت 1934/میں ہوئی۔
1947/میں بر صغیر کی آزادی کے بعد علامہ عبداللہ یوسف علی ہندوستان لوٹے اور سیاست میں حصہ لینے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ ناکامی کے بعد انہوں نے لندن واپس جانے کا فیصلہ کیا اس وقت ویسے بھی وہ جسمانی اور ذہنی طورپر بہت نحیف ہوچکے تھے اور اکیلے نیشنل لبرل کلب میں رہ رہے تھے، بچے پہلے ہی انہں چھوڑ چکے تھے اس زمانے میں گو کہ ان کے بینک اکؤنٹ میں 20/ہزار578/ پونڈ جمع تھے لیکن وہ پھر بھی سخت مفلسی کی زندگی گزار رہے تھے اور لندن کی سڑکوں پر سکون قلب کے ایک متلاشی شخص کی طرح گھومتے ہوئے نظر آتے تھے۔
9/دسمبر،1953 کو ویسٹ منسٹر کے ایک مکان کی سیڑھیوں پر وہ نیم مردہ حالت مین پائے گئے۔ دوسرے روز حرکت قلب بند ہونے سے ممتاز مسلم دانشور اور قرآن پاک کے انگریزی مترجم و مفسر علامہ عبداللہ یوسف علی اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور آخر کا سکون قلب کی وہ منزل انہیں مل گئی، جس کے لئے وہ زندگی بھر متلاشی رہے۔ پاکستان ہائی کمیشن نے ان کی شناخت کی اور ووکنگ کی شاہ جہاں مسجد کے قریب بروک ووڈ کے مسلم قبرستان میں انہیں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی قبر کے قریب ہی ایک اور ممتاز مسلم دانشور اور قرآن پاک کے انگریزی مترجم مارما ڈیوک پکھتال کی قبر بھی موجود ہے۔ ورثہ میں جو رقم علامہ عبداللہ یوسف علی نے چھوڑی تھی اس میں سے کچھ رقم ان کے سب سے چھوٹے بیٹے رشید یوسف کو دی گئی جب کہ باقی پیسے لندن یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہندوستان کے طلبہ کی تعلیم کے لئے مخصوص کردئے گئے۔