Quran May Mustamal Arabi Alafaz ka Urdu Imla By A.M.Muniri

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

01:19AM Wed 13 Dec, 2023

 آج علم وکتاب پر لفظ توریت کے سلسلے میں اہل علم نے تبادلہ خیال کیا ہے، بعض کی رائے میں اردو میں  تورات درست ہے، اور توریت لکھنا غلط ہے۔

ہماری ناقص رائے میں اس الجھن کی اصل وجہ قرآن کے رسم املا کے سلسلے میں عموما ہماری ناواقفیت ہے۔

در اصل آج سے پندرہ سو سال قبل جب قرآن نازل ہورہا تھا توعربی زبان کی لکھائی خط کوفی کی ابتدائی شکل رائج تھی، لکھنے کے وسائل قلم دوات اور کاغذ کی متبادل چیزیں عام دسترس سے باہر تھیں۔ لہذا اس زمانے میں لکھنے کی جو زبان تھی اس میں نقطے اعراب وغیرہ نہیں پائے جاتے تھے، چونکہ زبان وعلم کا دارومدار زیادہ تر یادداشت اور حفظ پر تھا، تو نقطوں اور اعراب کے بغیر بھی عبارتیں درست پڑھی جاتی تھیں، لیکن جب اسلام جزیرہ نمائے عرب سے باہر پھیلنے لگا، اور درست عربی زبان بولنے والے ان ملکوں میں کم ملنے لگے ، تو عربی زبان کے املا کے قواعد میں تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہونے لگی، اور مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں ہوتی رہیں، لیکن جب ہمارے ائمہ کرام نے محسوس کیا کہ املا کی تبدیلیوں کا یہ سلسلہ بند نہیں ہوگا، لہذا ان تبدیلیوں کے ساتھ  قرآن کے املا میں تبدیلیاں لاتے رہنے سے اللہ تعالی کی یہ کتاب ایک کھلونا بن جائے گی، اور اس کے املا میں تغیر وتبدل ہوتا رہے گا تو دوسری تبدیلیوں کی راہ کھل جائے گی، تو انہوں نے متفقہ فتوی دیا کہ قرآن کا املا وہی رہے گا، جو نزول قرآن کے وقت تھا، اس کی آیات ماہرین قراء سے سن کر درست پڑھی اور یاد کی جائیں گی، لہذا نزول قرآن اور تدوین قرآن کے زمانے میں جو املا رائج تھا اسے امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے، اسے رسم عثمانی کہا جانے لگا، جسے غلطی سے بر صغیر میں خط عثمانی کہا جاتا ہے، خط تو نستعلیق ،رقعہ، نسخ ہوا کرتے ہیں، خط کا تعلق املاء کے قواعد سے نہیں ہے۔ لہذا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی نگرانی میں جو سات مصحف تیار کرکے انہیں مختلف جگہوں پر راونہ کیا تھا، یہ قرآن کے املا کا معیار ہے۔ بعد کے ادوار میں قرآن کو درست طور پر پڑھنے کی غرض سے کھڑا الف ، کھڑی زیر، الٹی پیش وغیرہ ایجاد ہوئے، ان کا شمار حروف میں نہیں ہوتا، یہ بنیادی طور جہاں کہیں الف حذف ہوتا ہے، کہیں یاء حذف  ہوتی ہے، کہیں الف ، یاء اور واو محذوف ہوتا ہے، یا یاء اور واو  کی جگہ الف پڑھا جاتا ہے،وہاں پر لگایا جاتا ہے، یہ علامات عام طور پر رائج عربی زبان میں رائج نہیں ہیں، اور یہ قرآم کریم کا امتیاز بھی ہے اور اعجاز بھی، کہ قرآن کریم کے املا میں آج تک تبدیلی نہیں آئی، جوں کی توں اس کا املا بھی باقی ہے۔

یہ دیکھئے ایک نام ابراھیم ہے، قرآن میں راء کے بعد الف ، اور سورہ بقرہ میں ہاء کے بعد یاء لکھا ہوا نہیں ہے، اسے درست پڑھنے کے لئے کھڑا زبر، اور کھڑی زیر کا اضافہ ہوتا ہے، اگر ایسا عربی عبارتوں میں لکھا جائے گا تو غلط شمار ہوگا، صلوۃ، زکوۃ، جیسے الفاظ جب مضمون میں لکھے جائے گے، تو انہین صلاۃ، زکاۃ، لکھا جائے گا، عربی میں عام طور پر رسم عثمانی کے بجائے املائی کی اتباع کی جاتی ہے، لیکن عبد الرحمن جیسے بعض الفاظ اسم علم ہونے کی وجہ سے رائج قواعد املا کے خلاف بھی لکھے جاتے ہیں۔

اردو زبان میں کئی ایک الفاظ جن کا املاء قرآن میں مختلف ہے، انہیں رسم عثمانی کے مطابق لکھا جاتا ہے، جیسے صلوۃ، زکوۃ وغیرہ، لیکن چونکہ اردو زبان مین گول تاء (ۃ )  مستقل حرف تہجی میں شامل نہیں ہے، تو اسے حرف تاء (ت ) میں تبدیل کیا جاتا ہے، جیسے اردو میں  (رحمۃ ) کے بجائے (رحمت ) لکھا جاتا ہے، توراۃ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے، راء کے بعد جو ( الف) پڑھا جاتا ہے، وہ بنیادی طور پر  (یاء ) ہے، کھڑا زبر درست تلفظ کے لئے دیا جاتا ہے، اور اردو کے قاعدے کے مطابق ( ۃ) کو تبدیل کرکے (ت ) کردیا جاتا ہے۔

علم قراءت کی طرح علم رسم قرآن ایک مستقل علم ہے، اور اس میں بڑی تفصیلات ہیں، جنہیں بیان کرنے کی یہ جگہ نہیں ہے۔ گذشتہ شمالی ہند کے سفر میں علی گڑھ میں اس موضوع پر ہمارے دو محاضرے رکھے گئے تھے، جس میں ہم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب مصاحف پروجکٹر پر پیش کرکے اس کی تفصیلات بیان کی تھیں۔ ہماری دینی جامعات میں اس قسم کے تعارفی پروگرام منعقد کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔

2023-12-12