چھٹیوں کے موسم کو مطالعہ کا موسم بنا کر بھی اردو کی خدمت کی جا سکتی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

12:37PM Thu 14 Apr, 2016
مشتاق کریمی ایک زمانہ وہ بھی تھا جب معاشرہ میں اخبارات و رسائل کا بڑا عمل دخل تھا ۔اخبارفروش کا چائے خانوں ،نکڑوں اور لائبریریوں میں بڑی بے صبری سے انتظار کیا جاتا تھا ۔اگر اخبار فروش کو کسی وجہ سے تاخیر ہوجاتی تو قارئین کی بے چینیاں بڑھ جاتیں ،ان کی نگاہیں بار بار اس راستہ کی جانب اٹھتی رہتیں جس راستہ کو عبور کرکے اخبار فروش ان تک پہنچتا ۔ادھر اخبار ہاتھوں میں پہنچا اور ادھر تشنگان مطالعہ نے الگ الگ صفحات اپنے ہاتھوں میں تھام لئے ۔یہ منظر کچھ ایسا ہوتا جیسے شدید گرمی میں شدت کے پیاسوں کو کسی نے ٹھنڈا مشروب تھما دیا ہو ۔رسالوں کی مقبولیت بھی اس زمانہ میں بام عروج پر تھی ۔ماہنامہ کھلونا ،شمع ،روبی ،بیسویں صدی ایسے درجنوں رسالے تھے جن کا انتظار بھی بے چینی میں اضافہ کا سبب بنتا تھا ۔قارئین ان رسالوں کو چند ہی دنوں میں مطالعہ کی میز سے گزار دیتے ،پھر دوبارہ اور سہ بارہ بھی ان کی ورق گردانی کر لی جاتی تاہم تب بھی مہینہ نہ گزرتا اور بک اسٹال کے چکر شروع ہوجاتے اس امید کے ساتھ کہ کہیں ناشرین نے اس مرتبہ رسالہ چند روز قبل شائع کرکے روانہ نہ کردیا ہو ۔مطالعہ کے ایسے دیوانوں کی تعداد اب بھی ہے مگر بہت مختصر ۔ زمانہ بڑی تیزی سے کبوتر کی چال چل گیا ہے۔حالات تیزی سے بدل گئے ہیں ۔ٹیلی ویژن کی آمد کے بعد مطالعہ کا ذوق ذرا ہی کم ہوا تھا مگر یکے بعد دیگرے جیسے جیسے مختلف چینلوں کے جن بوتلوں سے باہر نکلے ویسے ویسے دلچسپی کے مراکز بھی بدلے ۔انٹرنیٹ کی انٹری کے بعد مطالعہ گاہوں پر سناٹا سا چھانے لگا ۔اخبار وکتب فروش حضرات متفکر ہوئے ۔بعد ازیں موبائیل کے ہاتھوں میں آنے کے بعد اخبارات و رسائل کے صفحات لمس کو ترسنے لگے ۔غرضیکہ موبائیل اور ریموٹ کنٹرول نے قارئین پر بڑی حد تک قابو پالیا ۔الیکٹرونک میڈیا کی اس یلغار نے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا ۔کبھی بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں نظر آتی تھیں اب موبائیل اور ریموٹ کنٹرول دکھائی پڑتے ہیں ۔ایسے میں طویل چھٹیاں ہوں تو پھر کچھ نہ پوچھئے ! اسکول کے زمانے میں کم از کم ہمارے بچے درسی کتابوں کی ورق گردانی کر ہی لیتے ہیں ۔اگر وہ اس سے بھی گریز کریں گے تو اساتذہ کی ڈانٹ سہنی پڑے گی اور پھر امتحان کا نتیجہ بھی متاثر ہوگا ۔یہی وجہ ہے کہ انتہائی ذہین سے لیکر کمزور ترین بچہ بھی درسی کتابوں کو کسی نہ کسی حد تک پڑھ ضرور لیتا ہے ۔مگر یہ بات ہمارے مشاہدہ میں آئی ہے کہ طویل چھٹیوں میں ہمارے طلبہ کی بہت بڑی تعداد کتابوں سے ایسے دور ہوجاتی ہے جیسے ان کا کبھی کتابوں سے کوئی سروکار ہی نہ رہا ہو۔اتنی طویل مدت تک جب کوئی بچہ کتابوں سے دور رہ جاتا ہے تو وقت گزاری کے لئے وہ ممکنہ طور پر الیکٹرونک میڈیا سے ’دوستی ‘کر بیٹھتا ہے ۔الیکٹرونک میڈیا پر عمدہ اور معیاری مواد بھی ہے اور بہت بڑی مقدار میں گھٹیا ،سطحی ،غیر معیاری اور اخلاق کے شیشے کو چکنا چور کرنے والا مواد بھی ہے ۔بہت ہی کم ایسے بچے دیکھنے کو ملتے ہیں جو معیاری اور اخلاقی مواد سے استفادہ کرتے ہیں جبکہ بہت بڑی تعداد میں بچے اور نوجوان اس مواد و مناظر کے رابطہ میں آتے ہیں جو راہ مستقیم پر نہیں بلکہ خار دار راہوں پر انھیں ڈال دیتا ہے ۔ کوئی کچھ بھی کہے ہمیں تو موبائیل اور انٹرنیٹ کے رابطہ میں گھنٹوں وقت برباد کرنے والے بچے بالکل ایسے ہی معلوم ہوتے ہیں جیسے کوئی عادی شخص نشہ میں دھت کسی ایک مقام پر دنیا و مافیہا سے بے نیاز پڑا رہتا ہے ۔ہم نے خود دیکھا کہ نصف شب کے قریب محلہ کے نکڑ پر چار پانچ دوست بیٹھے ہیں اور کوئی بھی کسی سے ہمکلام نہیں ہے ۔سب کے ہاتھوں میں اینڈرائیڈ موبائیل ہیں اور وہ رنگینیوں میں ایسے گم ہیں کہ ان کے قریب سے زہریلا سانپ بھی گزر جائے تو انھیں پتہ نہ چلے ۔ایسے میں علمائے کرام ،اساتذ�ۂکرام ،سماجی خدمتگار اور عمائدین کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں ۔ہماری علمی ،ادبی و سماجی تنظیموں کو بھی ان ذمہ داریوں کو محسوس کرنا چاہئے ۔محض سرکاری فنڈ کے پروگرام کم سے کم خرچ میں ،کم سے کم افراد کی موجودگی میں لے لینا اور اردو کی خدمت کے دعوے کرنا مفاد پرستی کی بد ترین مثال کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔جو روپیہ ان تقریبات سے پس انداز ہوتا ہے اسے اپنا سرمایہ بنانے کی بجائے معاشرہ کا ،اردو کا سرمایہ بنایا جائے اور رسالے اور کتابیں خرید کر انھیں بچوں کے ہاتھوں میں تھمایا جائے تو اردو کی آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے نم ضرور ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس روز ہماری اسکولوں میں سالانہ رزلٹ تقسیم کئے جاتے ہیں اس روز رزلٹ سے قبل تمام بچوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے اور ان کی ذہن سازی کرتے ہوئے چھٹیوں کے ایام میں انھیں کون سے کام کرنے چاہئیں ان کی تفصیلات بتائی جائے ۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ رزلٹ کے ہمراہ بطور تحفہ بچوں کے رسالے اور اصلاحی کتابیں ان کے ہاتھوں میں تھمائی جائیں ۔اس کے علاوہ ہمارے اردو اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہونے والے بچوں کے صفحات ،سائنسی صفحات ،کوئز کی معلومات ،پسندیدہ اشعار ، اقوال زرین ،طبی معلومات اور دینی صفحات بھی رول کرلے انھیں بطور تحفہ دئے جاسکتے ہیں۔ہمارے کتنے اساتذہ اخبار خرید کے پڑھتے ہیں یہ ڈاٹا تو ہمارے پاس نہیں البتہ یہ ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے اساتذہ کی بہت بڑی تعداد اردو کی روزی روٹی کھانے کے باوجود اردو اخبارات و رسائل سے گریز ہی کرتی ہے مگر کم از کم اسکولوں میں سال بھر اردو اخبارات خریدے جاتے ہیں۔ان اخبارات کے قیمتی و معلوماتی صفحات کو ردی میں نہ بیچتے ہوئے اگر خوبصورت طریقہ سے رول کرکے بچوں کے ہاتھوں میں تھما دیا جائے تو یہ اردو کی سچی خدمت بھی ہوگی اور یہ کوشش بچوں کو مطالعہ کی جانب راغب کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے ۔عزم کیجئے کہ اس برس رزلٹ کے دن رزلٹ کارڈ کے ہمراہ بچوں کے رسالے اور اخبارات کے تراشے بھی بطور تحفہ ہم پیش کریں گے اور پھر طویل چھٹیاں گزارنے کے بعد جب یہ بچے واپس اپنی اسکولوں میں آئیں گے تو ان سے فیڈ بیک بھی لیں گے ۔