مقبوضہ کشمیر کی حالت زار۔۔۔۔از: کلدیپ نیئر

Bhatkallys

Published in - Other

01:57PM Fri 12 May, 2017
سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ بیرونی اشارے پر ہوتا ہے یا بنیاد پرستوں کی وجہ سے بہرحال حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کی حالت زار خراب ہے۔ بے شمار اسکول جلا دیے گئے اور طلبہ کے دل میں خوف ہے کہ اگر وہ کلاسوں میں گئے تو علیحدگی پسند ان پر حملہ کر دیں گے جو کہ ریاست میں تعلیم کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں۔ نتیجۃً طلبہ کے لیے باقی ملک کے ساتھ امتحانوں کی تیاری کرنا اور امتحان دینا مشکل ہوگیا ہے جہاں پر امن طور پر امتحان جاری ہیں۔ علیحدگی پسندوں کو احساس کرنا چاہیے کہ سیاسی تحریک میں طلبہ کا تعلیمی نقصان نہیں کرنا چاہیے۔
جس کے نتیجے میں سیاحوں کا وادی میں آنا بہت کم ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ سید علی شاہ گیلانی نے سری نگر کی گلیوں میں جلوس نکالے تاکہ سیاحوں کو تحفظ کا یقین دلایا جائے۔ جو بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے اس کا اس کے سوا کوئی اثر نہیں ہوا کہ سیاح اب کشمیر کے بجائے دیگر پہاڑی مقامات کا رخ اختیار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈل جھیل کے ’’شکارے‘‘ اور ناگن باغ کے ’’ڈونگے‘‘ بے کار کھڑے ہیں۔ ریاست کی معیشت بری طرح تباہ ہوئی ہے اور عام کشمیری بھی اقتصادی بدحالی کا شکار ہو گئے ہیں۔ جہاں تک وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا تعلق ہے تو لگتا ہے کہ انھیں صورت حال کا کچھ اندازہ ہی نہیں۔ وہ مسلسل ایک ہی بات کہہ رہی ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی واحد شخص ہیں جو  کشمیر کا بحران حل کر سکتے ہیں۔ غالباً ان کے نزدیک ان کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور بی جے پی کا الحاق مسئلہ کشمیر حل کر دے گا۔ نئی دہلی حکومت کو اس کا احساس کرنا چاہیے کہ شبیر شاہ جیسا شخص، جو ایک زمانے میں بھارت نواز تھا، اب تبدیل ہو کر آزادی کے نعرے لگانے شروع کر چکا ہے۔ وجہ غالباً یہ لگتی ہے کہ اسے وادی میں اپنے معاملات چلانے کے لیے جگہ نہیں مل رہی۔ لیکن بی جے پی کا اس قسم کے لوگوں سے کوئی رابط نہیں۔ یہی حال یٰسین ملک کا ہے جو بھارتی یونین میں رہتے ہوئے کشمیر کا کوئی حل چاہتے ہیں لیکن نئی دہلی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کو اس قدر پھیلا دیا ہے کہ سارے اختیارات دہلی حکومت کے ہاتھ منجمد ہو گئے ہیں۔ کشمیر میں نئی دہلی حکومت کی طرف سے ان کی قومی زبان اردو کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک بڑی شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ اسے مسلمانوں کی زبان سمجھا جاتا ہے۔ اگر مرکزی حکومت اردو کے بارے میں اپنا معاندانہ رویہ ترک کر دے تو کشمیریوں کا کم از کم  ایک گلہ ختم ہو سکتا ہے۔ وادی کے لوگ عمومی طور پر غریب ہیں اور ایسا ہی ملک کے دیگر علاقوں کے لوگ ہیں جنھیں اپنے روزگار کی ضرورت ہے جو کہ ریاست کی تعمیر و ترقی اور وہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں اضافے سے ہی ممکن ہے۔ زیادہ دیر کی بات نہیں جب کشمیری لوگ مرکزی حکومت کے خلاف بندوق اٹھانے کے خلاف تھے۔ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ بڑی شدو مد سے کشمیریوں کی مدد کرنے اور ریاست کے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے کشمیریوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ عسکریت پسند انھیں الگ شناخت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لہٰذا اگر اس بات پر تنقید کی جاتی ہے کہ وادی کے اندر سے عسکریت پسندوں کی مزاحمت نہیں کی جاتی تو اس کو وادی کے عوام کے الگ تھلگ رہ جانے کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یہ بھی بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ کشمیر میں چند سال پہلے جو تباہ کن سیلاب آیا تھا جس کے جواب میں حکومت نے انھیں معاوضے کا پیکیج دینے کا اعلان کیا تھا لیکن اس اعلان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا بلکہ اس حوالے سے میڈیا یا سیاسی جماعتوں نے بھی کشمیریوں کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ کسی لیڈر نے نئی دہلی حکومت سے یہ سوال نہیں کیا کہ کشمیریوں سے کیے گئے وعدے پر عمل کیوں نہیں ہوا جب کہ وادی میں اس غفلت کو دانستہ خیال کیا جا رہا ہے۔ مجھے اب بھی یقین ہے کہ 1953ء میں بھارت نے  جو کشمیر کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ باقی تمام شعبے ریاست کے اختیار میں ہوں گے اگر اس پر عملدرآمد کیا جائے تو ریاست کی صورت حال بہت بہتر ہو سکتی ہے۔ کشمیری نوجوان جو ریاست کی خصوصی حیثیت اور داخلی صورتحال پر ناراض ہیں ان کو یہ کہہ کر راضی کیا جا سکتا ہے کہ پورے ملک کی مارکیٹ ان کے لیے کھلی ہے۔ لیکن صرف یہ ایک اقدام ہی کافی نہیں ہو گا بلکہ بھارت کو وادی پر لاگو کیے جانے والے تمام غیر منصفانہ ایکٹ بھی واپس لینا ہوں گے۔ مسلح افواج کو جو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں وہ بھی واپس لینا ہوں گے۔ یہ خصوصی اختیارات 26 سال قبل کشمیر کے غیر معمولی حالات کی وجہ سے دیے گئے تھے جو ابھی تک جاری ہیں۔ جہاں ایک طرف حکومت کو یہ ایکٹ واپس لینا ہوں  گے وہاں دوسری طرف فوج کو شدید ذمے دار بھی بنانا ہو گا۔ نیشنل کانفرنس نے جو کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ سے نجات حاصل کرنے کے لیے طویل جدوجہد کرنا پڑی جب مقبول عام کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ ان کی قیادت کر رہے تھے کیونکہ وہ ریاست میں سیکولر جمہوری نظام رائج کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی پارٹی کو انتخابات میں شکست ہو گئی کیونکہ ان کو  کو نئی دہلی حکومت کے بہت قریب سمجھا جانا تھا۔ پی ڈی پی انتخاب جیت گئی کیونکہ اس کے لیڈر مفتی محمد سعید دہلی حکومت سے بطور خاص ایک فاصلہ رکھتے تھے۔ اب کشمیریوں نے پی ڈی پی اور بی جے پی کے اتحاد کو ووٹ دیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں یہ اتحاد انھیں ان  کی شناخت دلا سکتا ہے۔ عمر فاروق عبداللہ کو بھی ان کی جماعت  نیشنل کانفرنس کو نئی دہلی حکومت کا حامی ہونے کی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ کشمیریوں کے روابط نئی دہلی کے ساتھ بہت گہرے ہیں جنھیں چیلنج نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کے باوجود چھوٹی سی اپوزیشن کشمیریوں کو تسلی دینے کی خاطر دہلی حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتی رہتی ہے۔ لارڈ ریڈ کلف کو کشمیر کی اہمیت کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ وہ لندن میں ایک جج کے طور پر کام کرتے تھے۔ انھوں نے برصغیر کو تقسیم کرنے اور بھارت اور پاکستان کو الگ الگ کرنے کے لیے ایک لائن کھینچی تا کہ دو علیحدہ ملک وجود میں آ سکیں۔ کئی سال بعد اپنے ایک انٹرویو میں لارڈ ریڈ کلف نے مجھے بتایا تھا کہ اسے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ کشمیر کے مسئلہ کو اس قدر زیادہ اہمیت حاصل ہو جائے گی جتنی کہ اب حاصل ہو چکی ہے۔ مجھے یہ واقعہ اس وقت یاد آیا جب میں چند سال قبل ’’اردو‘‘ نامی ایک رسالے کی سالانہ تقریب کی صدارت کرنے سری نگر گیا۔ اردو زبان کو بغیر کوئی وجہ بتائے ریاست سے نکال دیا گیا حالانکہ چند سال قبل تک یہ وہاں کی سب سے  اہم  زبان تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں اردو کی اہمیت اس وجہ سے ختم ہوئی کہ پاکستان نے اس قومی زبان کا درجہ دیدیا تھا۔ کشمیری چاہتے ہیں کہ انھیں اپنے پر خود حکومت کرنے کا احساس دیا جائے نہ کہ بھارت ان پر حکومت کرتا رہے۔ (ترجمہ: مظہر منہاس)