حج کا سفر۔۔۔حج کے بعد مکہ معظمہ میں۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

08:01PM Thu 22 Jun, 2023

مکہ معظمہ واپس آگئے اب یہاں صرف قیام کرنا تھا، حج کی تکمیل ہو چکی تھی، حاجیوں کی بڑی تعداد جن میں سعودی باشندے اور وہ حاجی شامل تھے جن کے ملکوں اور سعودی مملکت کے درمیان ویزا پاسپورٹ کا کوئی جھگڑا نہ تھا، واپس ہونا شروع ہوگئی تھی، کوئی دس لاکھ حاجی دیکھتے دیکھتے مکہ معظمہ سے رخصت ہو گئے۔ یا وہ چہل پہل تھی کہ حرم شریف کے اندر کیا حرم کے آس پاس جگہ ملنے میں زحمت ہوتی تھی، یا اب کتنی ہی تاخیر سے کوئی پہونچے حرم ہی میں اسے صف بستہ ہونے کی سعادت نصیب ہو جاتی تھی ۔

 تین دن کے اندر مقامی باشندے یہاں سے کوچ کر گئے اور ہفتے کے آخر تک غیر مقامی باشندوں کے دستے بھی رخت سفر باندھتے نظر آئے ۔ یہ اس وقت ہواجب سعودی حکومت کی طرف سے "کوس رحیل" بج چکا تھا۔

 معلوم ہوا کہ حج کے بعد پاسپورٹ اور ویزا کے اسیر حاجی اس وقت تک مکہ معظمہ سے ہل نہیں سکتے جب تک سعودی حکومت کی طرف سے "لائن کلیر" (راستہ صاف ہے کا اعلان) نہ ہو جائے عموما حج کے اختتام کے ایک ہفتے کے اندر ہی اند "بر بندید محلمہا" کی صدائے جرس فریاد یا مژدہ بن کر گونجنے لگتی ہے۔

 کچھ تو وطن واپس ہونے لگتے ہیں ، یہ وہ حاجی ہیں جو قبل رمضان آئے تھے اور ساڑھے تین مہینے مجموعی طور پر جوار رسول اور جوار کعبہ میں گزار چکے تھے، اولین جہاز انھیں حاجیوں کو لے کر روانہ ہوئے۔ 14 اپریل کو مناسک حج پا یہ تکمیل کو پہونچے تھے۔ شاید 17 اپریل کو "کوس رحیل" بجا (کوئی نہ سمجھ لے کہ واقعی کوئی سائرن غیرہ بجایا گیا) اور 18 اپریل کو ہندستانی حاجیوں کا پہلا دستی رخصتی طواف کر کے الٹے پاؤں واپس جدے روانہ ہوگیا۔

خانہ کعبہ کا رخصتی طواف یا طواف وداع کر کے "الٹے پاؤں" ہی واپس ہوا جاتا ہے، اس طرح کہ منہ کعبہ شریف کی طرف رہے اور پیٹھ دروازے کی طرف اور الٹے چل کر باب الوداع تک آیا جائے یعنی رخ برابر خانہ کعبہ کی طرف رہے اسے "رجعت قہقہری" کہتے ہیں۔

تمام فقہاء طواف وداع کے بعد رجعت قہقہری کو مستحسن بتاتے ہیں ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ اس رجعت قہقہری کے سلسلے میں کوئی مرفوع یا موقوف حدیث نہیں پائی جاتی ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یا صحابہ کرام سے اس بارے میں کوئی حکم یا ارشاد مروی نہیں ہے؛ مگر تمام فقہا نے احترام خانہ کعبہ کے خیال سے اس کی طرف پیٹھ نہ کرنے اور الٹے پاؤں واپس ہونے کو طواف وداع میں مستحسن قرار دیا ہے اور وہ بات جس کی کوئی شرعی سند نہیں اور عام لفظوں میں جسے بدعت کہتے ہیں اسے سب نے قبول کر لیا ہے۔

جو لوگ دین میں نئی بات کو بدعت کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں وہ اس "رجعت قہقہری" پر علما کے اجماع کو خدا جانے کیا کہیں گے۔ بات یہ ہے کہ اگر "بدعت" کی تعریف کرنے میں کوئی غلطی کر جائے تو وہ خود ہی اپنی غلطی کا شکار بن جاتا ہے "كل بدعة ضلالت" والی حدیث کی تشریح میں کسی بھی نئی بات کو پہلے بدعت قرار دیا پھر بعض نئی باتوں کو ضروریات دین میں سے پا کر بدعت کی قسمیں کردیں، بدعت مکروہہ، بدعت مستحسنہ، بدعت مباحہ حتی کہ بدعت واجبہ تک کی قسم نکل آئی پھر كل بدعة میں استثناء کی ضرورت لاحق ہوئی ۔

بحث کا یہ محل تو نہیں لیکن استادی و عمی مولانا مفتی محمد شفیع حجۃالله انصاری فرنگی محلی مد ظلہ العالی نے بدعت کی جو جامع تعریف کی ہے اس کو نقل کو دنیا ضروری معلوم ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں، ادلہ شرعیہ (کتاب سنت اجماع اور قیاس) سے جس فعل اعتقاد یا حکم کا یعنی عمل ، عقیدہ ، جواز ، استحباب، وجوب فرضیت، حرمت، کراہت، ثواب اور عقاب وغیرہ کا) شرعی اور دینی ہونا ثابت نہ ہو اسے شرعی اور دینی سمجھنا یا شرعی اور دینی سمجھ کر اسے بر تنا بدعت ہے اس کو احداث فی الدین کہتے ہیں اور اس تشریح کے لحاظ سے كل بدعة ضلالة میں کوئی استثناء نہیں جن امور کو بدعت مباحہ مستحبہ یا واجبہ یا مکروہہ کہتے ہیں وہ اس تشریح کی بنا پر سرے سے شرعاً بدعت ہی نہیں؛ کیونکہ ان کے جواز یا وجوب یا استحباب یا کہ کراہت وغیرہ کا ادلہ شرعیہ میں سے کسی نہ کسی دلیل سے ثبوت ہوتا ہے کم از کم قیاس سے تو ضرور ثبوت ہوتا ہے شرح مقدمہ شیخ ص 30

بہر حال کچھ لوگ وطن کی طرف چل پڑے اور کچھ مدینہ شریف کے عازم ہوگئے ان لوگوں کے صدائے جرس واقعی مژدہ تھی۔

حج کے بعد اچانک مدینہ منورہ میں اتنا بڑا اجتماع ہو جاتا ہے کہ حدود مدینہ منورہ میں سما نہیں پاتا، مقامی باشندے اور وہ جن پرویزا پاسپورٹ کا نفاذ نہیں تین دن کے اندر مدینہ شریف زیارت کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں نتیجہ یہ کہ وہاں جگہ کی قلت کے علاوہ پانی تک کی قلت ہو جاتی ہے؛ اس لئے ویزا پاسپورٹ والے حاجیوں کو ، جو بعد حج مدینہ شریف کی حاضری کے لئے بیتاب ہوتے ہیں روک روک کر رکھا جاتا ہے اور بالاقساط روانگی کی اجازت دی جاتی ہے اور آٹھ دس روز سے زیادہ وہاں قیام کی اجازت یا موقع نہیں ملتا یعنی ایسے وقت حاجی کو مکہ معظمہ سے جانے کو ملتا ہے کہ اس کے جہاز کے چھٹنے میں 15-16 دن باقی ہوتے ہیں. چاہے بھی تو مدینہ شریف میں دس دن سے زیادہ وہ ٹہر نہیں سکتا۔

ہوائی جہاز سے آنے والے حاجیوں پر پابندیاں ڈھیلی ہوتی ہیں پھر بھی حج کے بعد مولانا مجیب الرحمن اعظمی محدث کو مکہ معظمہ سے مدینہ شریف جانے کی اجازت ایک ہفتے تک نہیں ملی جب کہ ان کے ہوائی جہاز کی روانگی کو دس ہی دن رہ گئے تھے یہی معلوم ہوا کہ مدینہ شریف میں کثرت زائرین سے پانی کی قلت ہوگئی ہے۔

ہمارے ایسوں کے لئے جو آخری جہاز سے حج سے صرف پانچ روز پہلے پہنچے تھے مکہ معظمہ سے جانے کا خواب بھی دیکھنا اس وقت غلط تھا اس لئے اب گھر کے خواب دیکھنے لگے۔

 گر نہ پڑھئے نماز کیجئے نیاز

آدمی چاہیے کرے کچھ تو !

گھر سے روانہ ہوئے پورا ایک ہمینہ ہو گیا تھا۔ حج سے پہلے تو انتظامات حج میں انہماک رہتا ہے گھر کی خیرسلا کا بس یوں ہی سا دھیان آجاتا تھا، اب خطوں کا بے چینی سے انتظار ہونے لگا۔

یہاں گھر سے آئے ہوئے خطوں کامل جانا دشوار سہی پر اتنا دشوار نہیں جتنا مکہ معظمہ سے خط کی روانگی مشکل بلکہ عذاب ہے۔ خط لکھئے سادہ لفافہ بازار سے خرید یئے پتہ لکھ لکھا کر ڈاک خانے جائیے جہاں ہزاروں آپ ہی کی طرح پتہ لکھے لفافے ہاتھوں میں لئے کھڑے ہوں گے خدا جانے آپ کا نمبر کب آئے ۔ انتظار کیے جائیے جب نمبر آئے ٹکٹ بابو کو لفافہ دیدیجئیے وہ دیکھ کر ائے گا اتنے کا کٹ ہوا دام دیجئے ٹکٹ لیجئے لفافے پر چسپاں کر کے لفافہ پھر انھیں بابو کے حوالے کر دیجئے ۔ اب جب پھر لفافہ بھیجیں گے پھر یہی سب کچھ کرنا ہو گا، یہ نہیں کہ ایک دفعہ تو پوسٹج معلوم ہوگیا اتنے کا ٹکٹ لفافہ میں لگا اسے سپرد ڈاک کر دیا۔ نہ جانے اس میں کیا قباحت ہے کہ ٹکٹ خریدنے والوں کو ان کے حسب منشاء ٹکٹ دیدیئے جائیں وہ خط لکھ لکھ کر اور کٹ لگا لگا کر روانہ کرتے رہیں۔

ہماری قیام گاہ سے ملا ہی ہوا ڈاک خانہ تھا مگر جب خط لکھنا چاہتے تھے تو سونچنا پڑتا تھا کہ اتنا وقت بھی ہے کہ خط سپرد ڈاک کرنے کے مراحل پورے ہو جائیں ۔ اتفاق سے ہمارے ساتھ ہندستانی لفافے اور پوسٹ کارڈ بھی تھے ہمیں یہ آسانی ہوئی کہ ہوائی جہاز سے واپس ہونے والے شنا ساؤوں کو پوسٹ کارڈیا لفافہ دے دیا کہ آپ کل بمبئی پہنچ جائیں گے وہاں ڈاک میں ڈال دیجئے گا۔

گھر کے خط عموما معلم صاحب کے پتے پر آتے ہیں وہاں خطوط کے انبار میں اپنے نام کے خط جا کر تلاش کرنا ہوتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ سینکڑوں خطوط پڑے کے پڑے رہ جاتے ہیں یعنی مکتوب الیہم کو انبار میں ڈھونڈھے نہیں ملتے۔

 اب اس کا موقعہ بھی بخوبی تھا کہ زیادہ سے زیادہ وقت حرم شریف میں گزرے اور زیادہ سے زیادہ خانہ کعبہ کا طواف کیا جائے ۔ طواف ہر وقت کیا جا سکتا ہے اور ہر وقت کیا جاتا رہتا ہے کسی وقت مطاف کو خالی نہیں دیکھا ٹھیک دوپہر کی دھوپ میں بھی طواف کرنے والے بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ مگر یہ زیادہ تر جفاکش نسل کے یا گرم خطوں سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں کہ جن کے لئے یہاں کی دھوپ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوتی ۔

 ہم نے طواف کا وقت ٹھنڈے ٹھنڈے رکھا یعنی عصر کے بعد سے بعد نماز عشا تک کا وقت اس وقت طواف کرنے والوں کا بہت ہی سخت ہجوم رہتا ہے ہجوم سے کوئی بچنا چاہے اور ٹھنڈا وقت بھی چاہے تو آدھی رات سے نماز تہجد تک طواف کر سکتا ہے۔

 اللہ والوں کے نزدیک حرم شریف میں نفل نماز سے افضل ہے طواف کرنا اگر چہ یہاں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ملتا ہے چونکہ احناف کے نزدیک عصر اور مغرب کے درمیان نفل پڑھی نہیں جاتی ہے اس لئے حرم شریف میں ہو تو طواف ہی کرے ۔ نہ کر سکے تو ٹکٹکی لگائے خانہ کعبہ کو دیکھتار ہے۔ یہ بھی عبادت ہے۔ اور نفل کا وقت ہو تب بھی طواف کو ترجیح دے تو اچھا ہے۔

طواف کے لئے سینکڑوں دعائیں معلمین پڑھاتے ہیں اور فقہاء نے لکھی بھی ہیں لیکن کوئی خاص دعا لازمی و ضروری نہیں ہے۔

 مسنون دعائیں بے شک ہیں۔ مگر وہ بھی چند ہیں اور مختصر بہت سے لوگ طواف میں تامل صرف اس غلط فہمی میں کرنے لگتے ہیں کہ جو دعائیں معلمین نے طواف کے وقت پڑھائی تھیں وہ سب یاد کہاں ہیں اور بغیران کے طواف ہوگا نہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں کوئی دعاء اور کسی زبان میں دعاء کرتے ہوئے طواف کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بہتر اور مسنون دعاء "ربنا اتنا فی الدنیا حسنة "الخ ہے اگر صرف یہی پڑھتا رہے تو کافی ہے ۔ لوگ اپنے اپنے ذوق کے مطابق دعائیں منتخب بھی کر لیتے ہیں اور طواف میں پڑھتے رہتے ہیں۔ جیبی سائز کی کتابیں بھی دعاؤں والی ملتی ہیں۔ ان کو ہاتھ میں لئے پڑھتے جاتے ہیں اور طواف کرتے جاتے ہیں۔

 شیخ ظہور الحسن صاحب نے بتایا کہ وہ طواف کے دوران فلاں فلاں آیتیں اور دعائیں پڑھتے ہیں۔ ان میں سورہ قریش بھی انھوں نے شامل کر لی تھی۔

مولانا اویس صاحب ندوی بھی بیٹھے ہوئے تھے ، بڑی بے چینی سے بولے ان میں درود شریف کو بھی شامل کر لیجئے یہ اس کے بعد اثر پیدا کرنے والی بیتابی کے ساتھ کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا حق ہے آپ کا بہت بڑا حق امت پرہے

 اس طرح انھوں نے کہا کہ سننے والوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

 بے شک کوئی عبادت بلکہ کوئی دعا بغیر درود شریف کے اجذم اور ابتر ہے۔

اپنی نجات کے لئے یا ثواب کے لئے عبادت کرنا اور جس ہستی نے نجات کی راہ دکھائی اس پر درود شریف پڑھنا بھول جانا سخنت نا انصافی ، بد ترین بخل اور شدید احسان فراموشی ہے۔

بعض روایتوں میں ہے کہ درود شریف پڑھنے کی برکتوں اور منفعتوں کا مشاہدہ کر لینے دانوں نے تو پورے طواف میں سوائے درود شریف کے اور کچھ نہیں پڑھا۔

 یوں تو حرم شریف کے اندر بھی لوگ جوتے بغل میں دبائے چلے جاتے ہیں اور اپنے پاس رکھ کر نماز میں یا تلاوت میں یا کسی عبادت میں لگ جاتے ہیں مگر یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ جب ہر دروازے پر "بواب" رہتے ہیں ان کے پاس الماریاں ہوتی ہیں جن میں وہ نمازیوں کے جوتے حفاظت سے رکھ لیتے ہیں اور واپسی پر نکال کر دے دیتے ہیں تو حرم شریف کے اندر جوتے لے جانے اور کبھی کبھی قرآن شریف کی الماریوں کے پاس انھیں رکھنے کا سوء ادب کیوں سرزد ہو۔ بواب بیچارے کچھ طلب گار بھی نہیں ہوتے۔ دے دیجئے تو قبول، نہ دیجئے تو مطالبہ نہیں۔

 اس ڈر میں کہ جوتے کہیں کھو نہ جائیں سب ہی لوگ دو دو ریال کی چپلیں یہاں استعمال کرتے ہیں کہ اگر کھو بھی گئیں تو زیادہ خسارہ نہیں، کھوتی تو کم ہیں بدلتی خوب ہیں۔ سب چپلیں ملتی جلتی کسی کا تسمہ پہچان کے لئے نیلا ہے تو نیلے تسمے کی کئی ہزار چیلین موجود ہیں۔ لوگ مزید پہچان کے لئے کوئی نشان بھی بنا دیتے ہیں گر پہچان کا نشان تو نشان بنانے والے کے فائدے کی چیز ہے جو دھو کے میں آپ کی چپل لے گیا۔ وہ نشان دیکھ لیتا تو کیوں لے جاتا! ہاں آپ چپلوں کے ڈھیر میں نشان سے اپنی چپل پہچان پہچان سکتے ہیں کچھ لوگ چپل کے تسمے میں ایک دھجی باندھ لیتے ہیں یہی پہچان ہوتی ہو مگراس کی کیا ضمانت کہ دھجی کہیں کھل ر گر نہ جائے گی پھر توآپ بھی اس طرح اپنی چپل کو دیکھیں گے کہ پہچانی نہیں جاسکتی۔

 ہم لوگوں کی چپلوں کے ساتھ با رہا یہی ہوا کبھی کوئی چپل واپسی میں ملی کبھی دوسری قسم کی، یعنی ہم سے پہلے جانے والا غلطی سے ہماری چپل لے گیا اپنی چھوڑ گیا۔ اب ہم اس کی چپل استعمال کریں یا نہ کریں ۔ ایک مسئلہ سامنے آ گیا ۔ فقہاء نے حرم شریف میں جوتوں کے ادل بدل کو دیکھ کر یہ جزئیہ لکھ دیا ہے کہ اگر بدلے کا جوتا مالیت یا حیثیت میں اپنے جوتے سے کم یا برابر سرابر کا ہو تو اس کا استعمال جائز ہے اور اپنا گھٹیا تھا اور بدلے میں ملنے والاعمدہ اور قیمتی ہے تو اس کی حیثیت لقطہ  "پڑی پائی چیز" کی ہوگی یعنی اعلان کیجئے کہ یہ کس کی ہے وغیرہ وغیرہ۔

مولانا محمد میاں صاحب فاروقی الہ آبادی نے ہماری چپلیں بدلنے کے روز روز قصے سن کر کہا، یہ تو ہوگا ، دیکھئے ہمارا جوتا ایک دفعہ بھی نہیں بدلا۔

مطلب یہ کہ ایک ہی قسم کی سینکڑوں ہزاروں چپلوں میں بدل جانا ابھی عجیب نہیں۔ جوتا  "خصوصا جب وہ کار خانے کا نہ ہو بلکہ کاریگر کا بنایا ہوا ہو' اپنی الگ پہچان رکھتا ہے اسے کوئی دھوکے سے اٹھا نہیں لے جاتا ہاں چرا کر لے جاسکتا ہے بات بڑے پتے کی معلوم ہوئی۔ حالانکہ اب غور کرتے ہیں تو کیسی بدیہی بات تھی؟