کامن سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ تھوڑی ہے؟ !( پہلی قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

01:21PM Tue 2 May, 2017
ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی راہیں ہموار کرنے کی کوششوں کا سلسلہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایک زمانے سے یہ مسئلہ وقفے وقفے سے سر اٹھاتا اور سرخیوں میں اچھلتا رہا ہے۔مگر اب کے تشویش ضرور اس بات پر ہے کہ مرکز میں فسطائیت کی علمبردار طاقت کے برسر اقتدار آجانے اور پورے ملک میں زعفرانی آندھی تیز ہوجانے کی وجہ سے سے اب اسے عملی طورپر لاگو کرنے کی طرف پوری قوت اور شدت سے قدم اٹھائے جانے کے آثار نظر آرہے ہیں اور امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔ مگرمسئلے کا پیچیدہ پہلویہ ہے کہ فسطائی سنگھ پریوار نے ماحول کچھ ایسا بنایا ہوا ہے کہ عوام کے ذہنوں میںیہ بات بیٹھ گئی ہے کہ یکساں سول کوڈ کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ مسلمان اور ان کامسلم پرسنل لاء ہے۔اس گمراہ کن پروپگنڈے کی وجہ سے پورے ملک میں عوام کی اکثریت یہ باور کر بیٹھی ہے کہ مسئلہ یکساں سول کوڈ بمقابلہ مسلم پرسنل لاء (بورڈ) کا ہے۔ اور چونکہ ایک زمانے سے غیر مسلموں کی رائے عامہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر پھیلا کر ہموار کی گئی ہے توعوام یکساں سول کوڈ کے منفی اثرات اورمضرات پر سوچنے کے بجائے مسلمانوں کی بالادستی اور ان کے "خاص تحفظات یا درجات" کوختم کرکے انہیں عام سماجی دھارےmainstream کا حصہ بنانے والی پُر فریب سوچ کا ساتھ دینے لگ جاتے ہیں۔ جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ پرسنل لاء یا نجی عائلی قوانین کی رعایت صرف ایک مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس طرح کی رعایتیں تو اس ملک میں درجنوں طبقات اور قوموں کو حاصل ہیں۔ ہندوستان کے مختلف پرسنل لاء: پرسنل لاء شہریوں کے عائلی قوانین جیسے شادی بیاہ، طلاق ، وراثت وغیرہ سے متعلق ہوتے ہیں اور دستور ہند کے تحت دئے گئے حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس لئے سب سے پہلے اسی پہلو سے اگر دیکھیں تو ہندوستان میں شادی بیاہ اور طلاق وغیرہ سے متعلق اگرچہ ایک سرکاری قانون اسپیشل میریج ایکٹ1954 ہے، جس کا اطلاق ملک کے اندر اور ملک سے باہر(سوائے جموں اور کشمیراور خانہ بدوش قبائیلیوں کے)تمام ہندوستانیوں پر ہوتا ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کرمختلف قوموں یا طبقات کے لئے خصوصی قوانین کی شکل میں ایک درجن سے زیادہ دوسرے عائلی قوانین موجود ہیںیا رہے ہیں جیسے: ۱) The Converts' Marriage Dissolution Act, 1866 ۲) The Indian Divorce Act, 1869 ۳) The Indian Christian Marriage Act, 1872 ۴) The Kazis Act, 1880 ۵) The Anand Marriage Act, 1909 ۶) The Indian Succession Act, 1925 ۷) The Child Marriage Restraint Act, 1929 ۸)The Foreign Marriage Act, 1969 ۹) The Dissolution of Muslim Marriage Act, 1939 ۱۰) The Hindu Marriage Act, 1955 ۱۱) The Parsi Marriage and Divorce Act, 1936 ۱۲) Hindu Succession Act (1956) ۱۳) Hindu Minority and Guardianship Act (1956) ۱۴) Hindu Adoptions and Maintenance Act (1956) ۱۵) Muslim Personal Laws (Shariat) Application Act 1937 ۱۶) The Muslim Women (Protection of Rights on Divorce) Act, 1986 قبائلی پرسنل لاء بھی ہیں: آئینی شکل میں موجود مندرجہ بالا قوانین اور ان سے متعلق زمینی حقائق کا جائزہ لینے سے پہلے یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ہندوستان میں آباد مختلف قوموں اور طبقات پر لاگو ہونے والے ان عائلی قوانین کے علاوہ ہندوستان کی ایک بہت بڑی آبادی ایسی بھی ہے جو آدی واسی کہلاتی ہے۔ یہ وہ قبائل ہیں جو ملک کے مختلف حصوں میں آباد ہیں۔ اورحیران کن بات یہ ہے کہ ان قبائل پر ان میں سے کوئی بھی قانون لاگو نہیں ہوتا ہے۔مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، راجستھان اورشمالی ہند کی مختلف ریاستوں میں پائے جانے والے یہ آدی واسی اور خانہ بدوش قبیلےnomadic tribes اپنے آپ کو ان ملکی قوانین کا پابند مانتے ہی نہیں ہیں۔ شادی بیاہ اور طلاق وغیرہ کے لئے ان کے اپنے سماجی اور ثقافتی روایات اور رسم و رواج پر مبنی قوانین ہیں جو قبیلوں اور علاقوں کے مطابق جدا جدا ہوسکتے ہیں،مگر ان کی زندگیوں پر انہی قوانین کا اطلاق ہوتا جو صدیوں سے تہذیبی ورثے کے طور پر ان کے یہاں رائج ہیں۔اور ملکی یا آئینی قوانین سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔اور تعجب ہے کہ کبھی کوئی تنظیم یا کسی میڈیا چینل کی طرف سے اس پر نہ بحث ہوتی ہے، نہ اسے غیر دستوری کہا جاتا ہے اور نہ ہی اسے انسانوں کے بیچ عدم مساوات کا سبب مانا جاتا ہے ،جبکہ مسلمانوں کے پرسنل لاء کو سامنے رکھ کریہ پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ ہندوستانی شہریوں کے بیچ مساوات اور' سمانتا' بنائے رکھنے کے لئے اس طرح کی خصوصی رعایتیں اور پرسنل لاء کو ختم کردیاجانا چاہیے اور "ایک ملک میں ایک قوم اور ایک قانون" رائج رہنا چاہیے۔

کسی پر بھی نگاہِ شک نہ اٹھی آج محفل میں ہمیں پر آ کے کیوں ساقی کی چشمِ امتحاں ٹھہری

قبائلی خود کو ہندو نہیں مانتے!: پوجا پاٹ اورغیر اسلامی( ہندوانہ) مذہبی طرز عبادات کے باوجود یہ آدی واسی یا قبائلی طبقے اپنے آپ کو ہندو مذہبی قوانین یا پرسنل لاء کے تابع بھی نہیں رکھتے ، کیونکہ وہ اپنے آپ کو ہندومانتے ہی نہیں۔لہٰذا بظاہر یکساں سول کوڈ ملک میں رائج کرنے کا ڈھونگ رچا کرملک کی فسطائی حکومت نے مسلم پرسنل لاء کو ہی ختم کرنے کی جو سازش رچی ہے، لگتا ہے کہ اس کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہی خانہ بدوش قبائلnomadic tribesبننے والے ہیں ، کیونکہ وہ بھی یکساں سول کوڈ کواپنی ثقافت اور سماجی روایات کے لئے بڑا خطرہ مانتے ہیں۔اسی لئے انہوں نے اپنی ثقافت کے تحفظ، برہمن واد کے غلبے کی روک تھام اوریکساں سول کوڈ کی مخالفت اور قانونی مہم جوئی کے لئے باقاعدہ راشٹریہ آدی واسی پریشد تشکیل دے رکھا ہے، جس کے بینر تلے وہ آخری دم تک مخالفانہ جد وجہد جاری رکھنے کا عہد کررہے ہیں۔اس پریشد کے نیشنل کنوینر پریم کمار گیدم کا استدلال ہے کہ آدی واسی قبائلی ملک کے دستورکے آرٹیکل 244 اور342کی تشریح کے اعتبار سے ہندو نہیں ہیں، جبکہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں سے بھی یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ہندوازم سے آدی واسیوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔اسی لئے ان پر ہندو میریج ایکٹ، ہندو کوڈ بل وغیرہ جیسے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا، یہاں تک کہ ان پر اسپیشل میریج ایکٹ بھی لاگو نہیں ہوتا۔ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے!: راشٹریہ آدی واسی پریشد کے قومی کنوینر پریم کمارگیدم کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح پر یکساں سول کوڈ کی راہ میں قدم بڑھانا،کسی مخصوص قوم ، طبقے یاپھر صرف مسلمانوں اور ان کے پرسنل لاء کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا سب سے بڑا اور اصل شکار تو ملک میں الگ الگ شناخت کے ساتھ بسنے والے 6,743طبقات اور قبائل ہونگے، جن کے اپنے قبائلی پرسنل لاء بھی ختم ہوجائیں گے جو کہ ان کی شادی بیاہ، پیدائش او ر موت کے مسائل پر لاگو ہوتے ہیں ۔اور اگرا یسا ہواتو پھر ان کا تہذیبی ورثہ بالکل تباہ و برباد ہوجا ئے گااور اس کے نتیجے میں ملک کی سالمیت ہی خطرے میں پڑجائے گی۔جبکہ" خانہ بدوش قبائلی برادریوں " کی تنظیم کے ایک نمائندے انیل کمار مانے کا کہنا ہے کہ حکومت کی یہ سیاسی چال ہے۔ اور اگر مودی حکومت ملک میں یکساں سول کوڈ لاگو کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ہر قیمت پر اس کی مخالفت کی جائے گی۔ اسی طرح دیگر پسماندہ طبقاتOBCکے ترجمان کمار کالے کا موقف یہ ہے کہ حکومت کو شہریوں کے بنیادی حقوق میں مداخلت سے فوری طور پر باز آنا چاہیے۔ اس طرح کی مداخلت کرنے کا حکومت کو کوئی اختیار نہیں ہے۔اس لیے اسے یکساں سول کوڈ کے نظریے سے اپنے ہاتھ اٹھا لینے چاہئیں۔

مرحبا اے غمِ دوراں ہو تری عمر دراز ہوش میں آئے تو ہم گردشِ ایام کے بعد

(۔۔۔بدھسٹ اور دلت بھی مخالف ہیں۔۔۔سلسلہ جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط ملاحظہ کریں)