قوم مسلم کا خونِ شہیداں آخرکب رنگ لائے گا ؟! (پہلی قسط)۔۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
2018 ء کے آخری مہینے میں ہندوستان کے امن اور جمہوریت پسند عوام کے لئے دو خوشگوارواقعات پیش آئے۔ایک تو سیاسی منظر نامے میں ہلکے ہلکے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے آمد بہار کی طرف اشارے کیے اور جمہوریت نواز گروہوں نے اس وقت کچھ راحت کی سانس لی جب فاشزم کی اندھیری رات میں چند جگمگاتے سے تارے نظر آنے لگے جو نئی صبح کے نمودار ہونے کے امکانات کا احساس دلارہے تھے۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ دہلی ہائی کورٹ نے اندرا گاندھی کے قتل کے ردعمل میں ہوئے سکھ مخالف فسادات کے ایک ملزم سجّن کمار کو(جو کبھی کانگریس کی اعلیٰ قیادت سے قریب ترین افراد میں شامل تھے) قتل و غارت گری کاقصور وار ٹھہراتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔عدالت کے اس فیصلے سے جہاں ایک طرف متاثرہ سکھ قوم کے ساتھ ملک کے ہر انصاف پسندشہری کو تسلّی اور اطمینان کا احساس ہوا، وہیں پر ایک عام عدل پسند شہری اور خاص کرکے مسلم طبقے کی زبان پر یہ سوال بھی آگیا کہ قوم مسلم کا خونِ شہیداںآخر کب رنگ لائے گا؟!
عبث الجھا کے رکھا ہے ، کوئی انصاف بھی آخر امیدیں ساتھ دیں گی شادؔ آخر کب تلک تیرا
سیاسی منظر نامے میں تبدیلی: پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات پرجمہوریت پسندوں اور ہندوتواوادیوں دونوں کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں کیونکہ اس کے نتائج 2019کے پارلیمانی انتخابات پر اس طرح اثر انداز ہونے والے تھے کہ اگر یہ بی جے پی کے حق میں جاتے تو سنگھ پریوار کی فسطائی آندھی کاتباہ کن طوفان میں بدلنا یقینی تھا۔ مگر قدرت نے کچھ ایسا انتظام کردیا ہے بلکہ جمہوریت پسندوں کو ایک موقع دوبارہ دیا ہے کہ اب چاہے تو وہ احتیاط برتیں اور بے لوث اتحاد کے ساتھ زعفرانی طوفان کا رخ پوری طرح موڑ دیں یا پھر اپنی مفاد پرستی کے خول میں بند رہ کراس طوفان کو بے لگام ہونے کے لئے چھوڑ دیں ۔ اورپھر اس کے بعد اپنے ساتھ پورے ملک کی امن پسند رعایا کو آمریت اور فسطائیت کی تباہ کاریوں کے سمندر میں غرق کر ڈالیں۔ گولڈن ٹیمپل اورآپریشن بلیو اسٹار: فی الحال سیاسی پس منظرسے ہٹ کر عدل وانصاف کے پیش منظر پر نظر کریں تو دہلی ہائی کورٹ نے سکھ قوم کو انصاف دینے کا جو فیصلہ سنایا ہے اس نے ہر عدل پسند شخص کو یقین دلایا ہے کہ ابھی ملک میں عدلیہ سے پوری طرح مایوس ہونے کے دن نہیں آئے ہیں۔ یہ جو فیصلہ اب آیا ہے اس کی جڑیں 34سال پہلے کے ہندوستانی سیاسی ماحول اور پنجابی نوجوانوں کی عسکریت پسندی سے جا ملتی ہیں۔ پنچاب میں ’’خالصتان‘‘ کی تشکیل کے نام پر علاحدگی پسند طاقتوں نے’ جرنیل سنگھ بھنڈران والے‘ کی قیادت میں دہشت گردی کا جو طوفان مچا رکھا تھا اور سکھوں کے مذہبی مرکزگولڈن ٹیمپل کو اپنے محفوظ ٹھکانوں(Bunkers)میں تبدیل کررکھا تھاتو اس سے نپٹنے کے لئے اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے یکم جون سے 8جون 1984 تک ’’آپریشن بلیو اسٹار‘‘کے نام سے گولڈن ٹیمپل پر فوجی چڑھائی کی تھی۔(بعد میں 1988میں اسی طرز کا ایک اور حملہ’ آپریشن بلیک ٹھنڈر‘ بھی کیا گیاتھا) اندرا گاندھی کا قتل: اپنے مقدس ترین مذہبی مقام پرفوجی کارروائی اور خونریزی سے پوری سکھ برادری کے جذبات مجروح ہوگئے۔ وہ اپنے مذہبی مقام کی بے حرمتی کے لئے براہ راست وزیر اعظم اندراگاندھی کو ذمہ دار گردانتے تھے۔ایک تو’ خالصتان تحریک‘ اندرونی طور پر سکھوں کی ایک عوامی تحریک بن چکی تھی اور تقریباً پوری نوجوان نسل کو اس تحریک نے متاثر کیا تھا۔ دوسری طرف مقدس مذہبی مرکز پر فوجی چڑھائی نے عام سکھ کو بھی وزیر اعظم کا دشمن بنا دیا۔ پھر31اکتوبر 1984کو یعنی آپریشن بلیو اسٹار کے ٹھیک پانچ مہینوں کے اندر وزیر اعظم کی حفاظت اور سیکیوریٹی پر مامور باڈی گارڈز بے انت سنگھ اور ستونت سنگھ نے اپنی بندوقوں کے دہانے اندراگاندھی پر اس وقت کھول دئے جب وہ اپنی رہائش گاہ پر ہی ایک پریس انٹرویو دینے کے لئے ایک کمرے سے باہر نکل کردوسرے ہال کی طر ف آگے بڑھ رہی تھیں۔کہاجاتا ہے کہ بے انت سنگھ نے پہلے اپنے 0.9کیلیبروالے ریوالور سے گولیاں داغیں تو اندرا گاندھی زخمی ہوکر گر پڑیں۔پھر ستونت سنگھ نے اپنی اسٹین سب مشین گن کی پوری کی پوری 30گولیاں اندراگاندھی کے جسم میں خالی کردیں۔اس حملے کے دوران دونوں ’’بولے سو نہال۔ ست سری اکال ‘‘ کا خاص مذہبی نعرہ لگاتے ہوئے سنے گئے تھے۔ بے انت سنگھ بھی مارا گیا: دونوں قاتل محافظوں نے واردات انجام دینے کے بعد اپنے ہتھیار زمین پر رکھتے ہوئے کہا :’’ہمیں جو کرنا تھا ہم نے کردیا اب تمہیں جو کرنا ہے تم کرو۔‘‘ ان دونوں کو دیگر سیکیوریٹی گارڈز نے دبوچ لیا۔ لیکن بے انت سنگھ نے پھر ایک بار دوسرے کمانڈو کی ہینڈ گن چھین لی تو دیگر کمانڈوز نے فائرنگ شروع کردی جس میں بے انت سنگھ مارا گیااور ستونت سنگھ زخمی ہوگیا۔عدالت میں کیس چلنے کے بعد1989میں ستونت سنگھ اور اس کے ایک او رساتھی کیہر سنگھ کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ لیکن سنگھ قوم اور سکھوں کے مذہبی شعبے ’اکال تخت‘ اور سکھوں کی سیاسی پارٹی ’شرومنی اکالی دل‘ سب کے لئے یہ دونوں شہیدوں کا درجہ حاصل کرگئے۔ سکھ مخالف فسادات: جیسے ہی وزیر اعظم اندر ا گاندھی کے قتل کی خبر عام ہوئی تواس کے ردعمل میں دہلی اور پنچاب کے کچھ علاقوں میں سکھ مخالف فسادات پھوٹ پڑے۔ یکم نومبر کو ’خون کے بدلے خون ‘ کے نعروں کے ساتھ سب سے بھیانک ترین فسادات دہلی کے گلی محلوں اور بازاروں میں ہوئے جہاں بڑی بے دردی سے سکھوں کو قتل کیاگیا۔یہاں تک کہا جاتا ہے کہ موٹرگاڑیوں کے پرانے ٹائروں میں آگ لگا کر سکھوں کے گلے میں ڈال دیا گیا اور انہیں اذیت ناک طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ جوانوں کے علاوہ بوڑھوں اور عورتوں تک کو بخشا نہیں گیا۔ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق دہلی، پنچاب اور ملک کے دیگر چالیس شہروں میں انتقامی کارروائی کے نام پر تقریباً8000سے17000 سکھوں کو قتل عام کیا گیا تھاجبکہ سرکاری اعداد وشمار کہتے ہیں کہ سکھ قوم کے 2,800افرادکا قتل ہواتھا۔سکھوں کے کاروباری ٹھکانوں اور گردواروں تک کو جلاکر نیست و نابود کردیا گیا تھا۔ایک اندازے کے مطابق 50 ہزار کے قریب سکھ بے گھر ہوئے تھے یا پھر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔ کانگریسی لیڈروں کا ہاتھ: اس وقت کانگریس کے کئی لیڈروں پر الزام لگے تھے کہ انہوں نے انتقامی قتل عام کے لئے نہ صرف اکسایا تھا بلکہ خود بھی بڑھ کر عملاً حصہ لے رہے تھے۔حقوق انسانی کی تنظیمیں اور ملک بھر کے اخبارات نے اسے ایک منظم قاتلانہ کارروائی اور نسل کشیgenocide قرار دیاہے ۔ جبکہ خود سی بی آئی کا خیال ہے کہ اس میں دہلی پولیس اور مرکزی حکومت کے بعض افسران کی حمایت بھی شامل تھی۔پیوپلز یونین فار سول لبرٹیز (PUCL)نے اپنی تحقیقات کی بنیاد پر 227افراد کی فہرست جاری کی تھی جن پر سکھ مخالف فساداورقتل عام میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔اس وقت کانگریس کے بڑے لیڈر جن پر قتل عام میں شامل ہونے کا الزام لگاتھا ان میں ایچ کے ایل بھگت، جگدیش ٹائٹلر، للت ماکھن،آر کے آنند،کمل ناتھ اور سجن کمار وغیرہ شامل تھے۔ زندگی کے آخری پڑاؤ میں عمر قید: کانگریسی لیڈروں میں ایچ کے ایل بھگت اور للت ماکھن کا انتقال ہوچکا ہے جن کا فسادات میں بڑا اہم کردار بتایا جارہاتھا۔جگدیش ٹائٹلرکے رول پر ناناوتی تحقیقاتی کمیشن نے بھی انگلی اٹھائی ہے ، مگر وہ اپنے آپ کو بے قصور ٹھہراتے ہیں۔یہی حال کمل ناتھ کا بھی ہے جو اس وقت مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ بن چکے ہیں ۔لیکن سکھ مخالف فسادات میں ملوث ہونے کا الزام ابھی ان پر باقی ہے۔دہلی میں ایک گردوارا نذر آتش کرنے اور کئی سکھوں کو قتل کرنے کے الزام میں جن 6افراد پرسال2010 ء میں دہلی کی ایک نچلی عدالت میں کیس چلاتھااس نے تین سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے پانچ ملزموں کو سزا سنائی تھی اور سجن کمار کو کیس سے بری کردیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں اپیل پر اب 73سالہ سجن کمار کو زندگی کے بقیہ دن عمر قید کی صورت میں گزارنے کا فیصلہ سنایا گیا ہے۔فیصلہ سناتے عدالت نے ان فسادات کو ’’انسانیت کے خلاف جرم ‘‘ قرار دیا ہے۔ظاہر ہے کہ 34سال بعد ہی سہی سکھوں کی نظر میں مجرم بنے رہنے والے ایک بڑے کانگریسی لیڈر کو سزا ہوجانے سے پوری سکھ قوم نے تھوڑی سی راحت ضرور محسوس کی ہوگی۔ مگر امیت شاہ کیوں بولے؟!: سکھ قوم کو اس فیصلے پرخوش ہونے کا حق بھی ہے اور جواز بھی۔لیکن بی جے پی کے خیمے میں بھی لڈو بٹ رہے ہیں کہ کانگریس پر حملہ آور ہونے کے لئے انہیں’ برے وقت میں اچھا موقع‘ ہاتھ آیا ہے۔پانچ ریاستوں کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے بعد دھول چاٹنے پر مجبور بی جے پی کے لئے تو’ بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ والی بات ہوگئی ہے۔ تعجب تو بی جے پی کے صدر امیت شاہ کے بیان پر ہورہا ہے جنہوں نے کہا ہے کہ ’’1984کے فسادات کے متاثرین انصاف پانے کی اپنی تمام امیدیں کھو چکے تھے۔ کیونکہ ان جرائم کو انجام دینے والوں کے لئے کانگریس کی سیاسی سرپرستی حاصل تھی۔دہلی ہائی کورٹ نے سجّن کمار کو جوقصوروار ٹھہرایا ہے اس سے متاثرین کو پھر ایک بار تیقن مل گیا ہے کہ 1984کے مجرمین بچ کر نہیں نکل سکیں گے۔‘‘ انہوں نے التوا میں پڑے ہوئے معاملات کی پوری طرح جانچ کرنے کے لئے ایک نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے پر وزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ آخر یہ کون بول رہا ہے!: ٹھیک ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے سے عدل پسندوں کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ہے۔ متاثرین کو کچھ راحت ملی ہے۔ اورسچائی یہ بھی ہے کہ یہ پوری سکھ کمیونٹی کی جیت ہے کیونکہ انہوں نے گزشتہ 34برسوں سے اس دردناک نسل کشی کے خلاف عدل و انصاف کی چوکھٹ پر مسلسل دستک دی ۔ ایک بہت ہی چھوٹی قوم ہونے کے باوجود اپنے خلاف ہونے والے اپنے طرز کے واحد ہولناک فساد کو بڑے پیمانے پر یاد رکھا۔ حصول عدل کی جدوجہدہر محاذ پرلگاتار جاری رکھی۔اورآج انہیں ایک بڑی کامیابی بھی ملی ۔ ہوسکتا ہے کہ مزید کچھ کامیابیاں آنے والے دنوں میں بھی مل جائیں۔ لیکن اس پر خوش ہونے اور بغلیں بجانے کا کوئی اخلاقی حق بی جے پی اور اس کے سرداروں کوتو نہیں ہونا چاہیے۔ سوپ بولے تو بولے،مگر۔۔۔: امیت شاہ اور ارون جیٹلی وغیرہ کے بیانات پڑھ کر میں سوچتارہ گیا کہ ’سوپ بولے تو بولے، چھلنی کیوں بولے جس میں بہتّر سو چھید!‘۔ مودی، جیٹلی، امیت شاہ اوران کے ٹولے کو اپنے دامن میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے کہ ان کی اپنی پارٹی کی پوری تاریخ قوم مسلم کے شہیدوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔یہ بات تو ساری دنیا پر عیاں ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ سنگھ پریوار نے ایسے درجنوں خونریز فسادات مچائے ہیں۔مسلم نسل کشی کی درجنوں سازشوں کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ خود امیت شاہ اور نریندرمودی گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کا جو خوفناک کھیل دکھاچکے ہیں ، اس کے بعد توانہیں عدل و انصاف کی دہائی دیتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
haneefshabab@gmail.com (......جاری ہے ......ہندوستان میں مسلم کش فسادات کا سلسلہ۔۔۔مگر انصاف کہاں ملا ؟!..... آئندہ قسط ملاحظہ کریں) (ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج مواد سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق رہنا ضروری نہیں ۔)