ڈاکٹر رضئ الاسلام ندوی صاحب نے مولانا محب اللہ لاری ندوی مرحوم کاذکر چھیڑا ہے، ڈاکٹر صاحب ندوے میں آپ کے عہد زریں کے عینی گواہ ہیں۔ ہمارا حال تو سنی مسلمانوں کا ہے، سنی سنائی باتیں نقل کرنا ہمارا مشغلہ ہے، مولانا سے چند ایک بار ملنے کا شرف اس ناچیز کو حاصل ہوا ہے، چونکہ مولانا کم گو اور انتظامی آدمی تھے لہذا کبھی علمی استفادے کا موقعہ ہاتھ نہ آسکا۔ لیکن مولانا چونکہ ہمارے سن شعور میں ندوے کے اہتمام سے وابستہ ہوئے تھے، اور اس وقت ہمارے کئی ایک دوست احباب ندوے میں زیر تعلیم تھے، تو آپ کے دور اہتمام کے بارے میں معلومات سے واقفیت رہی۔
انسان کو اللہ کی رضا پر راضی برضا رہنے چاہئے، اس ناچیز کو زندگی میں جو مواقع ملے اس کی بنیاد پر یہ کہنا مشکل ہے کہ چونکہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی تاریخ میں ہماری پہلی بیچ تھی جو ندوۃ العلماء میں داخل نہ ہوسکی، تو یہ محرومی تھی یا نہیں؟،اس کا قصہ یوں ہے کہ ہمارے دورطالب علمی میں جامعہ میں عربی چہارم تک تعلیم ہوتی تھی، یہاں سے طلبہ ندوے جاتے اور ازسر نو امتحان دے کر کوئی عربی چہارم ہی میں یا ایک سال نیچے داخل ہوجاتے تھے، دو ایک طالب علم ہی کا اس وقت بمشکل عربی پنچم میں داخلہ ہو پاتا۔ یاد پڑتا ہے کہ مولانا عبد العزیز خلیفہ ندوی صاحب نائب مہتمم ندوہ کا جامعہ سے اعلی نمبرات سے عربی چہارم پاس کرنے کے بعد بھی ندوے میں داخلہ پنجم عربی کے بجائے ایک سال پیچھے عربی چہارم ہی میں ہوا تھا، ابھی میری تیرہ چودہ سال کی عمر تھی، بڑھی ہوئی بدمعاشیاں اور پھر عربی چہارم میں فیل، جامعہ میں مزید پڑھنے پر جی مائل نہیں تھا، معاشی حالات تعلیم جاری رکھنے کے حق میں نہیں تھے، والد ماجد کا بھی اصرار تھا کہ میں کسی ملازمت سے لگ جاؤں، تعلیمی استعداد کی کمی کی وجہ سے جو صورت حال تھی، اس میں جامعہ یا ندوے سے اسکالرشپ پانے کی کوئی امید نہ دارد، یہ ۱۹۷۰ کا سال تھا، اور اس سے ایک سال قبل مولانا محب اللہ لاری ندوی ندوۃ العلماء لکھنو کی بحیثیت مہتمم تقرری ہوئی تھی، ابھی تقرری پر تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ ندوہ زبردست اسٹرائیک کی زد میں آگیا، بد قسمتی سے ندوے میں تعلیم پانے والے ہمارے چند عزیز یا تو اس اسٹرائیک کا سبب ت یا پھر لیڈر کی حیثیت سے اس میں ملوث پائے گئے، جب میرا ندوے جانے کا وقت آیا تو تایا جان نے فیصلہ کن انداز سے فرمایا کہ ان بچوں کی وجہ سے پہلے ہی ندوے میں میری بدنامی ہوچکی ہے، اگر تم بھی وہاں جاؤگے تو منہ پر مزید کالک ملنے اور شرمندہ ہونے میں دیر نہیں لگے گی، اور لشتم پشتم بے دلی سے ایک چھوٹے اور غیر معروف مدرسے میں مزید اعلی تعلیم پانا لکھ دیا گیا۔ اور زندگی بھر افسوس رہا کہ اس وقت ندوے وہ طلبہ چلے گئے تھے جو اپنے درجے میں اچھے نمبرات حاصل کرنے کے باوجود، خارجی مطالعہ کی کمی کی وجہ سے ا س وقت لکھنو اور آس پاس پائے جانے والی عظیم علمی وادبی شخصیات کے مقام و مرتبہ سے وہ نابلند تھے ، ناچیز کواس محرومی کی حسرت زندگی بھر رہی، یہ اور بات ہے کہ توفیق یزدی سے زندگی ضائع نہیں ہوئی ، گھورے سے اللہ نے زندگی کے اسباب پیدا کئے، نصف صدی بیت چکنے کے باوجودآج بھی مرحومہ والدہ ماجدہ کی وحشت زدہ ہرنی جیسی حسرت بھری اس کی آنکھیں نگاہوں کے سامنے آجاتی ہیں ، تو جس میں ایک کپ کپی سی چھاجاتی ہے، اور پلکوں تک آکر قطرے رک جاتے ہیں،کتنی بے بسی سے انہوں نے تایا مرحوم سے کہا تھا ؟ ، بچے کی عمر کمانے کی نہیں ، اسے پڑھنے کی خواہش ہے ، میں سی پرو کر اپنے بال بچوں کو پال لوں گی، اسے آگے پڑھنے کے کچھ اسباب پید ا کردیں۔
دینی مدرسوں اور جامعات کے ماحول میں عموما تدریسی اسٹاف کی عزت اور احترام زیادہ رہتا ہے، جو شخص تدریسی اسٹاف سے اہتمام اور نگرانی کے منصب پر نہیں پہنچتا ، طلبہ عموما انہیں احترام اور عزت کا معاملہ نہیں کرتے ، مولانا محب اللہ لاری مرحوم کے ساتھ بھی ابتدا میں یہی صورت حال پیش آئی، مولانا عمران خان ندوی مرحوم کے اہتمام سے استعفی اور یکسوئی سے تاج المساجد کی تعمیر میں جٹ جانے کے بعد ندوے میں حضرت مولاناعلی میاں رحمۃ اللہ کے ابتدائی دور نظامت میں منصب اہتمام ڈگمگاتا رہا ، کبھی مولانا ابو العرفان ندویؒ قائم مقام مہتمم رہے تو کبھی شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق سندیلوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محب اللہ ؒ آپ کے ہم سبق بھی تھے، اور ہم مشرب بھی، لیکن کانپور میں چمڑوں کی مصنوعات کی تجارت بند ہونے کے بعد وہ دارالعلوم کے اہتمام و انصرام سے جڑگئے تھے، وہ طلبہ کے لئے اجنبی تھے، لہذا ابتدا میں طلبہ آپ سے ہم آہنگ نہ ہوسکے، اور انتظامی امور میں اصولوں کی سخت پاسداری کے باوجود آپ کے دل کی نرمی کو سمجھ نہیں پائے، لہذا عموما صورت حال یہ تھی کہ طلبہ جب تک ندوے کی چہار دیواری میں رہتے تو آپ سے مانوس نہ ہو پاتے، شکایتوں کا ایک انبار بندھ جاتا، لیکن جب فارغ ہوکر نکلنے کا وقت آتا تو آپ کی قدر وقیمت پہنچانتے ، عموما آپ کو الوداع کہتے وقت ان کی آنکھیں فراق میں ڈبدبائی ہوتیں ، کیونکہ مولانا دل سوزی سے انہیں آئندہ زندگی میں درپیش ٹیڑھی میڑھی راہوں اور پگڈیوں سے آگاہ کرتے ، ایک زمانہ تھا دبی کے اسکولوں میں فارغین ندوہ کی اچھی خاصی تعداد تدریس سے وابستہ تھی، سرکاری طور پر خلیجی ممالک میں ہندوستان کے دینی مدارس کی اسانید کی کوئی حیثیت نہیں ہے، یہاں کی اسانید کو سرکاری سند کے بجائے ،اجازت مانتے ہیں، لیکن ان اساتذہ کا کہنا تھا کہ مولانا کو جب پتہ چلتا کہ خلیجی ممالک میں ملازمت کی تلاش میں کوئی جارہا ہے تو اسے بلاکر علی گڑھ وغیرہ دوسری عصری یونیورسٹیوں کی جانب سے ندوے کی اسانید کے اعتراف کے مراسلات کی نقلیں بغیر طلب کئے خود سے یہ کہ کرفراہم کرتے کہ ان کی تمہیں ضرورت پڑے گی، حالانکہ عام طور پر ندوے سے اصل سند فراغت حاصل کرنے کے لئے جو مشکلات ہوتی ہیں ان کی عموما طلبہ شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مولانا کا دور اہتمام ندوے کا ایک سنہرا دور تھا، اس دور میں ندوے کا اثر ہندوستان کے اکناف و اطراف میں بہت پھیلا، اس کی شاخیں بڑھیں، طلبہ کی جو تعداد دوچار سو کے حدوں میں رہتی تھیں، ہزارہا ہزار تک پہنچ گئی، حضرت مولانا علی میاں علیہ الرحمۃ کے دور نظامت میں مولانا معین اللہ ندوی ؒ، مولانا محب اللہ لاریؒ اور مولانا سید محمد واضح حسنی ؒ ، اور مولانا سید محمد رابع حسنی دامت برکاتھم ٹیم نے ایک جان دوقالب کی حیثیت سے عہدے اور منصب کی خواہش سے بلند ہوکر ندوے کو آگے بڑھانے کے لئے بہت بڑا کام کیا ، فارغین ندوہ کے اکابرین کے ساتھ ربط وتعلق میں مضبوطی آئی، اور ایک لحاظ سے فارغین میں دینداری اور مسجدسے تعلق بھی بڑھا۔ اس دور میں دارالعلوم کے احاطے میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیاں بھی پھیلیں۔
ناظم ندوۃ کا ، انتظامی امور سے یکسو ہوکر قومی و ملی قیادت کے لئے فارغ ہونے کا بھی دور یہی ہے، اگر یہ حضرات ناظم ندوۃ کو اس کے انتظامی و مالی جھمیلوں سے آزاد نہ کردیتے تو شاید حضرت مولانا علیہ الرحمۃ کے دور میں جو ملی و قومی مرکزیت ندوے کو حاصل ہوئی وہ نہ ہوپاتی، اللہ ان مرحومین کی بال بال مغفرت فرمائے، انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے ،اور جو بقید حیات ہیں ان کا سایہ تادیر امت پر باقی رکھے۔ آمین۔