ملک و ملت کے گلِ صدرنگ قاضی عدیل عباسی۔۔۔حفیظ نعمانی(تیسری قسط)۔

مولانا حسرت موہانی کے بارے میں لکھتے لکھتے قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’میں ابھی مولانا کی دُکان پر ہی تھا کہ ’’مدینہ‘‘ میں ایک مترجم کی ضرورت کا اشتہار نکلا۔ مولانا نے یہ خوب دیکھ لیا تھا کہ مجھے تجارت سے دلچسپی نہیں۔ میں کپڑے کی دُکان کو واقعی نہیں سمجھ پایا تھا اور دن بھر بیٹھا لمبے لمبے خطوط لکھا کرتا تھا جس سے مولانا بہت چڑتے تھے۔ میں نے وہ اخبار دکھاکر مولانا سے کہا کہ مولانا مدینہ اخبار کو آپ میری سفارش لکھ دیجئے۔ مولانا نے کہا کہ کبھی کوئی مضمون لکھا ہے اور اخبار میں چھپا ہے؟ میں نے کہا کہ لکھا تو نہیں لیکن یقین ہے کہ میں لکھ سکتا ہوں۔ واہ وا جب لکھا نہیں تو کیسے یقین ہے کہ لکھ سکتا ہوں؟ اور انکار کرکے کہا کہ آپ کسی کام کے نہیں ہیں۔ اتنے لمبے چوڑے خطوط جو روز لکھے وہ کوئی کام نہیں کرسکتا۔ آپ پڑھونی کیجئے، پڑھونی میں مولانا کی بارگاہ میں کافی گستاخ ہوگیا تھا بگڑکر کہتا تھا کہ میں ہرگز پڑھونی نہیں کروں گا اور میں کچھ کرکے آپ کو دکھاؤں گا۔ اور میں نے کہا کہ آپ سفارش نہ کریں میں خود کرلوں گا۔ چنانچہ میں نے درخواست بھیج دی اور اتفاق کی بات کہ مدینہ والوں نے مجھے بلا بھیجا۔‘‘
میں بجنور پہونچا تو میرا مناسب خیرمقدم ہوا مجید حسن صاحب مالک و منیجر اخبار مدینہ بڑی محبت سے ملے گورے چٹے گول چہرہ لمبا قد چہرہ پر داڑھی سادگی اور انکساری طور طریق ایسا معلوم ہوا کہ اپنے گھر پہونچ گیا۔ عمارت کے داہنی جانب ایک کمرہ تھا وہ مجھے رہائش کے لئے مل گیا میری تنخواہ 60 روپئے ماہوار مقرر ہوئی مجید صاحب نے یہ پیشکش کی کہ 10 روپئے میں قیام و طعام اور 50 روپئے نقد، بطیب خاطر میں نے منظور کرلیا روپیہ یہاں کس کو درکار تھا؟ رہنے کی جگہ اور کھانے کا انتظام ہوگیا۔ اب میں جولانئی طبع دکھانے کے لئے آزاد تھا۔ مضمون لکھ کر فرصت ہوئی تو کانگریس کے دفتر پہونچا اور شام کو روزانہ کے جلسوں کی صدارت بھی کی۔ جو بخار دل میں بھرا تھا تقریروں کے ذریعہ آگ اگل کر نکالنا شروع کیا۔ خلافت کمیٹی اور ضلع کانگریس کا ممبر بھی ہوگیا۔ اور پورے جوش اور لگن سے کام کرنے لگا۔
’’مجید صاحب میرا بڑا اعزاز فرماتے تھے وہ واقعی ایک شریف النفس انسان تھے وہ گریجویٹ کو اتنا عظیم سمجھتے تھے جیسے کوئی امام وقت ہو۔ دوسرا یہ کہ میں نے آتے ہی ایک مضمون ’’سقراط اور گاندھی‘‘ لکھا جسے دوسرے اخباروں اور رسالوں نے بھی نقل کیا۔ یہ ان کے لئے بڑے فخر کی بات تھی اس سے میرا اعزاز اور بڑھ گیا۔‘‘
مجید حسن صاحب اخبار کے مالک تھے وہ اخبار کے اور پریس کے ذریعہ کاروبار کرتے تھے اخبار کی پالیسی وہ تھی جو ہمارے ارمان تھے لیکن مجید حسن صاحب کے لئے اصل چیز کاروبار تھا۔ انہیں قاضی صاحب کی تحریر تو بہت پسند تھی لیکن انہوں نے جو فرصت کا سارا وقت کانگریس اور خلافت کے لئے مخصوص کردیا تھا، یہ پسند نہیں تھا چند مہینے تو انہوں نے برداشت کیا اس کے بعد وہ کھل گئے اور جو اُن کے دل میں تھا اسے خوبصورتی سے کہہ دیا۔ قاضی صاحب لکھتے ہیں۔
’’مجھے ایک پرچہ ملا اور زبانی بھی کہا گیا کہ میری تنخواہ 120 روپئے ماہانہ کردی جائے گی۔ ایک نئی کوٹھی رہائش کے لئے ملے گی۔ میں اپنی بی بی کو لے آؤں چند ہزار روپئے کی کتابیں خرید لوں اور لکھنے پڑھنے کا کام دلجمعی سے کروں اور سیاسی کام ترک کردوں کیونکہ اس سے مطالعہ کے انہماک اور اچھی تحریرات کے وجود کے لانے میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ یہ پیشکش مجید صاحب کی فیاضی اور اولوالعزمی کی دلیل تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ میرے اصولِ زندگی کو اس سے ٹھیس لگتی تھی۔ میں نے انکار کردیا، میرا مسلک پیشہ ورانہ صحافت نہیں صحرا نور دی تھا اور صحافت حصولِ مقصد کا ذریعہ۔ میں نے چیف ایڈیٹر خلیل الرحمن صاحب کی جانشینی سے بھی انکار کردیا۔۔۔ البتہ اس کا مجھے افسوس ہے کہ جن الفاظ میں میں نے انکار کیا تھا وہ بڑے سخت تھے اور استعفیٰ جو دیا وہ بھی اسی رنگ کا تھا۔‘‘
آگے لگتے ہیں: ’’آج مولانا امین احسن اصلاحی سے کون واقف نہیں ہے؟ وہ بھی مدینہ کے شعبۂ ادارت میں کام کرتے تھے اور یہیں سے انہوں نے پرائیویٹ بی اے پاس کیا جس کی اطلاع ہم لوگوں کو اس طرح ملی کہ مدینہ اخبار نے اپنے پورے اسٹاف کی طرف سے ان کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی یہ عجیب بات تھی کہ مدینہ ایک قوم پرور اخبار اور تزک موالات کا حامی تھا اور اب تک وہ ایک مستند نیشنلسٹ آرگن ہے۔ چنانچہ میں نے اخبار زمیندار میں اس مبارکباد کی تجویز پر اظہار کیا اور لکھا کہ جب کالجوں اور اسکولوں کا بائیکاٹ ہے اور تمام طلباء کو دعوت دیتا ہے کہ وہ کالج اور اسکول کی چہار دیواری سے باہر نکل آئیں تو اس کے شعبۂ ادارت کے ایک فرد نے امتحان میں کیسے شرکت کی اور اگر ایسا کیا ہی تھا تو کون سا موقع مدینہ کے لئے اس پر مبارکباد دینے کا تھا؟ اتفاق کی بات ہے کہ میں یہ لکھ کر وہاں سے چند روز کے لئے گھر آیا راستہ میں بجنور بھی گیا اس وقت مدینہ کے ایڈیٹر نصراللہ خاں عزیز تھے۔ نصراللہ خاں عزیز ممنون تھے کہ میں ان سے ملنے آیا۔ لیکن انہیں زمیندار کا وہ پرچہ مل گیا۔ بس کیا تھا وہ برآفروختہ ہوکر مجھ سے بحث کرنے لگے لیکن میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اخبار نویس قلم سے بات کرتے ہیں اس وقت آیئے میٹھی میٹھی باتیں کریں۔ آپ اپنے اخبار میں لکھ دیجئے گا۔ بجنور سے میں ناگ پور کانگریس کے اجلاس میں شرکت کے لئے گیا اور وہاں سے لاہور کے اخبار زمیندار کا چارج لینے چلا گیا۔‘‘
(جاری)