حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کے عہد زریں میں دار العلوم دیوبند کے ما تحت جامعہ طبیہ بھی قائم تھا جہاں سے سینکڑوں علماء ،حکیم و طبیب اور بعد میں بی یو ایم ایس کا کورس کرکے ڈاکٹر پیدا ہوئے جو انقلاب کے ساتھ بے نشان ہو گیا۔
کریدتے ہو جو اَب راکھ جستجو کیا ہے؟
حضرت حکیم عزیز الرحمن صاحبؒ کے تعارف کیلئے یہی کافی ہے کہ ان کے والد حضرت مولانا محمد ایوب اعظمیؒ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے شیخ الحدیث رہے ہیں جبکہ انکے چھوٹے بھائی مولانا سعید الأعظمی عربی ماہنامہ البعث الاسلامی کے چیف ایڈیٹر اور دار العلوم ندوہ العلماء کے مہتمم اور مایہ ناز استاذ ہیں ۔
حکیم صاحبؒ اسی خانوداہ کے ایک فرد ، ایک اچھے عالم ، ماہر استاذ، نامور حکیم، بہترین مصنف اور اچھے شاعر و اَدیب سب کچھ تھے، اور ساتھ ہی الٰہ آباد کی خانقاہ شاہ وصی اللہ کے فیض یافتہ‘ معمولات کے پابند صوفی اور بزرگ بھی تھے۔
سن و سال کے فرق اور عمر میں غیر معمولی تفاوت کے باوجود حکیم صاحبؒ کے ساتھ برسہابرس تک میرا تعلق انتہائی بے تکلفی کا رہا ہے اور انکی مشفقانہ اَدائیں اس طرح کی تھیں کہ بے تکلف مجلسوں میں اِس کا احساس ہی نہ ہو پاتا تھا کہ وہ بڑے ہیں ہم چھوٹے، وہ بزرگ ہیں اور ہم نا پختہ کار ۔
بعض احباب اَز راہ مذاق انکو ’’حکیم لدنیّ‘‘ بھی کہا کرتے تھے لیکن ان پر یہ لقب اس اعتبار سے بیحد چسپاں تھا کہ علم طِب سے انکی واقفیت تمامتر سماوی فیض اور کراماتی انداز کی تھی۔ انہوں نے اس فن کو باقاعدہ پڑھا نہیں تھا لیکن انہوں نے سالہاسال تک بڑے بڑے اطباء وحکماء کی موجودگی اور منافست اور مقابلہ آرائی کے ماحول میں اس فن کی نہ صرف اہم ترین کتابیں پڑھائی ہیں بلکہ متعدد تصنیفیں بھی یادگار چھوڑی ہیں۔
وہ خود اپنے اس کمال کو قدرت کا عطیہ اور اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا شاہ وصی اللہ الٰہ آبادیؒ کی توجہ کا نتیجہ اور کرامت شمار کرتے تھے۔
انہوں نے بار ہا اپنی یہ داستان سنائی کہ الٰہ آباد خانقاہ میں رہنے کہ دوران حضرت شاہ وصی اللہ صاحبؒ مرحوم نے ان سے ایک دن اچانک یہ فرمایا کہ تم طِب کی کتابیں دیکھا کرو، اس عجیب و غریب ہدایت پر انہیں خود بیحد حیرت ہوئی اور ایک لمحہ کیلئے خود شاہ صاحبؒ کے بارے میں طرح طرح کے وسوسے انکے ذہن میں آنے لگے ۔
لیکن ’’قلندرہر چہ گوید دیدہ گوید‘‘ کسے خبر تھی کہ شاہ صاحبؒ کی ہدایت کے کچھ ہی عرصہ بعدجامعہ طبیہ دار العلوم دیوبند کیلئے ایک استاذ کی جستجو ہوگی اور قرعہ فال حکیم صاحبؒ کے نام نکلے گا؟ حکیم صاحب کو اُس وقت حضرت شاہ صاحبؒ کی بصیرت اور کرامت کا یقین آیا اور پھر ساری زندگی انہوں نے شاہ صاحب ؒ کوکبھی فراموش نہیں کیا اور ہر نشست و برخاست میں ان سے اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے رہے۔
حضرت شاہ صاحب کے طریقۂ اصلاح‘ انکی مجذوبانہ شان‘ انکی کرامتوں، انکی غیر معمولی بصیرت اور انکی عالمانہ عظمت کا ذکر تقریباً ہر دن ہی بڑی عقیدت سے کرتے تھے۔
انکے ایسے واقعات بھی سناتے جسکی زد خود اُن پر پڑتی تھی اس سلسلہ کا انہوں نے یہ واقعہ بھی بارہا سنایا کہ اپنی زبان کی تیزی اور تنقید کی بے احتیاطی میں کوئی جملہ انہوں نے حضرت مولانا حبیب الرحمن الأعظمیؒ کے بارے میں کہدیا شاہ صاحب اس پر سخت ناراض ہوئے اور انکے پاس جاکر معافی مانگنے کا حکم فرمایا کہ تمہاری بات سے ایک عالم کی شان میں بے اَدبی ہوئی ہے، لہذا وطن جاکر ان سے معافی مانگو پھر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ فلاں آدمی کو اپنے ساتھ لے لو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ تم صراحت کے ساتھ معافی مانگنے کے بجائے اپنی ذہانت کی وجہ سے ایچ پیچ سے کام لواور معافی مانگنے کا جو مقصد ہے وہ پورا نہ ہو۔ اس واقعہ سے حضرت شاہ صاحبؒ کی مربیانہ شان بھی ظاہر ہوتی ہے۔
حکیم صاحبؒ اپنی غیر معمولی ذہانت، طبیعت کی بے باکی اور حاضر جوابی کی وجہ سے بآسانی کسی کے قابو میں آنے والے نہ تھے۔ بڑے بڑوں کو بھی خاطر میں نہ لانے کا مزاج رکھتے تھے۔ لیکن یہ محض حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادیؒ کی شان اصلاح اور پر تأثیر صحبت تھی کہ جس نے حکیم صاحبؒ کے ہاتھوں سے جنت کو جانے نہ دیا اور وہ اپنی بے باکی کے باوجود خانقاہی اُصولوں پر چلنے میں کامیاب رہے۔
ہماری نظر میں حضرت شاہ صاحبؒ کی طب والی کرامت کے مقابلہ میں یہ کرامت کسی طرح کم نہ تھی کہ حکیم عزیز الرحمن صاحبؒ جیسا آزاد طبع کا پیکر‘ شب و روز خانقاہی معمولات کا پابند رہا، حقیقت یہ ہے کہ ہوا میں اڑنے اور اڑانے کے مقابلہ میں انسان بنانے کی کرامت کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔
پنجوقتہ نماز ہی نہیں تہجد کا دائمی معمول‘ نفلی روزوں کا اہتمام‘ اور دیگر صباحی و مسائی اور اَوراد و اَذکار کی ہر حال میں پابندی کی امید ایک ایسے شخص سے کب کی جاسکتی تھی جو شاعرانہ ذوق ،آزادانہ مزاج رکھنے والا اور شب و روز نقد و تبصرہ کا خوگر ہو، حکیم صاحبؒ کی زندگی میں وارستہ مزاجی کے ساتھ معمولات کی پابندی کو دیکھ کر حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی ؒ کے فیضان نظر کی تأثیر پر ہمارا اعتقاد اور بڑھ جاتا تھا۔ کہ یہ ’’مکتب کی کرامت‘‘ نہیں انکی کیمیا گر صحبت کا اثر ہے۔
اب نہ تو حضرت تھانویؒ اور شاہ وصی اللہ صاحبؒ جیسے مربی رہے اور نہ ویسی خانقاہیں۔ ع
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
دیوبند کے قیام کے دوران کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا جسمیں حکیم صاحبؒ ،استاذ العلماء حضرت مولانا محمد حسین بہاریؒ ،حضرت مولانا مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی اور اس ناچیز کی بے تکلف اور مزاحیہ جملوں اور قہقوں سے بھرپور مجلس منعقد نہ ہوتی ہو۔
حکیم صاحبؒ کی زبان ہم سب سے تیز چلتی، فقرہ بازیوں اور اپنی طرف سے دفاع میں احقر بھی پیچھے نہیں رہتا، حضرت علامہ بہاری تو استاذ اکبر تھے ہی ان کا احترام ہم سبھوں کے دل میں تھا، دلچسپی لینے اور قہقہہ لگانے میں حضرت مفتی صاحب بھی پیچھے نہیں رہتے تھے۔ ہماری مجلسیں عام طور پر عصر کی نماز کے بعد ہوتیں اور حکیم صاحبؒ کی نکتہ آفرینیوں اور تبصروں سے زعفران زار رہا کرتی تھیں۔
حکیم صاحبؒ کے ذہن میں سننے اور نہ سننے کے لائق واقعات کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ تھا مذاقا انکی باتیں سنکر کبھی کبھی میں کہتا کہ ’’اَرواح ثلاثہ‘‘ میں شامل ’’امیر الروایات‘‘ کی طرح آپ بھی ایک ’’عزیز الروایات‘‘ مرتب کردیجئے۔ ان کے بیان کردہ واقعات کا تعلق علماء، شعراء اور مختلف طبقہ کے لوگوں سے ہوا کرتا تھا اور اسے وہ بڑی دلچسپی کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے ۔
حکیم صاحبؒ سے وابستہ شخصیتوں میں ایک اچھی شخصیت ڈاکٹر اعزاز الدین بھوپالی مرحوم کی بھی تھی جو اعلی تعلیم یافتہ اور نہایت ہی باوقار اور صالح انسان تھے ، دار العلوم کے فارغ طلبہ کو انگریزی زبان سکھانے ور تاریخ و جغرافیہ وغیرہ کی تعلیم دینے کیلئے انکو لایا گیا تھا ۔ بڑے ذاکر و شاغل آدمی تھے غالباً ان کا روحانی رشتہ بھوپال کے شاہ یعقوب مجددی صاحبؒ سے تھا ۔ اپنے اُصولوںکے بیحد پابند، اپنا کام خود کرنے کے عادی اور ہمہ وقت ذکر و شغل میں رہنے والے آدمی تھے۔حکیم صاحب کی فقرہ بازیوں اور بے تکلفانہ مذاق کا سلسلہ ڈاکٹر صاحبؒ کے ساتھ بھی رہا کرتا تھا۔
ایک دن کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحبؒ آپ اس قدر ذکر کرتے رہتے ہیں کہ خدشہ ہونے لگا ہے کہ کہیں جنت کے اُس پار نہ پہنچ جائیں ۔ ڈاکٹر صاحبؒ کا جواب صرف مسکراہٹ اور یہ کہ حکیم صاحب آپ کیا فرما رہیں ہے؟!
حکیم صاحبؒ کی میری رہائش گاہ پر اکثر آمد و رفت رہتی تھی جس کی وجہ ذہنی ہم آہنگی اور مزاجی یگانگت تھی، مجھے فطری طور پر اور انکو خانقاہی نسبت کی وجہ سے تھانوی ذوق و مزاج ملا تھا، چنانچہ تعلیمی اداروں میں ہم لوگ سیاسی خرخشوں کے قائل نہیں تھے۔
دار العلوم دیوبند کے احاطہ میں سیاسی دنگل بازیوں کی زندگی ہمیں یکسر پسند نہیں تھی اور جو حلقہ اس سلسلہ میں پیش پیش تھا اس سے کبھی مزاجی مناسبت پیدا نہ ہو سکی، ہمیں دار العلوم دیوبند میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی علمی جلوہ ریزیاں اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ہمہ جہت تجدیدی و اصلاحی عطر بیزیاں پسند تھیں اور اسے ہی ہم دار العلوم کی تاریخ کا حاصل سمجھتے تھے۔
دار العلوم میں تھوڑے تھوڑے وقفہ سے ہنگاموں اور اسٹرائیکوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن حکیم صاحبؒ اس سے سخت متنفر رہے اور برملا تنقیدوں سے بھی خطرات کے باوجود کبھی باز نہیں آئے۔
حکیم صاحبؒ جامعہ طبیہ کے احاطہ میں رہتے تھے لیکن سخت ہنگاموں کے زمانہ میں بھی روڈ پار کرکے دار العلوم کی مسجد میں فجر سمیت ہر نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے انکے معمول میں کبھی فرق نہیں آیا جو یقیناً انکی استقامت کی دلیل اور خانقاہی تربیت کا اثر تھا۔
حکیم صاحبؒ شعر فہمی کا بڑا اچھا ذوق رکھتے تھے انہیں اُردو اور فارسی کے سینکڑوں اشعار یاد تھے اور نقد شعر کا بھی اچھا سلیقہ تھا۔ اردو کے مشہور شعراء غالب، اقبال سے لیکر حسرت ، جگر اور اصغر وغیرہ کے بارے میں ماہرانہ تبصرہ کیا کرتے تھے فراق ، اختر شیرانی، ساحر، مجاز وغیرہ کے کلام ہی نہیں لطائف اور طباعی و ذہانت کے واقعات کا ذکر بھی بڑی دلچسپی اور خوش اسلوبی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ ایک خوش شکل نوجوان نے مسواک دی تو عربی میں گویا ہوگئے:
أعطیتنی السواک ۔ أخی لا أری سواک
من شجرۃ الأراک۔ أخی لا أری سواک
ظاہر ہے کہ یہ انکی ذہانت اور حاضر دماغی کے ساتھ قدرت کلام کی بھی دلیل تھی۔ شعر و سخن پر گفتگو کا لطف اس وقت زیادہ بڑھ جاتا تھا جب محترم قاری شبیر احمد صاحب ان سے چھیڑ چھاڑ کرتے یا کسی شاعرکے کلام پر تبصرہ فرمایا کرتے تھے۔
حضرت قاری شبیر احمد صاحب کو اللہ نے غیر معمولی ذہانت، فن قراء ت میں مہارت کے ساتھ شعر و شاعری کا بڑا پاکیزہ ذوق عطا فرمایا ہے۔ خود بھی اچھا شعر کہتے ہیں اور اساتذہ سخن اور نامور شعراء کے ہزاروں اشعار ان کو زبانی یاد بھی ہیں اور اس وقت تو ایک مدرسہ کے بہترین مہتمم اچھے خطیب اور داعی و مصلح سبھی کچھ ہیں۔
حکیم صاحبؒ کے یہاں چائے پینے ، دنیا بھر کے مسائل پر تبصرہ کرنے اور تنقیدیں سننے اور سنانے کا لطف حضرت قاری صاحب کی موجودگی میں اور دوبالا ہو جایا کرتا تھا۔
حکیم صاحبؒ میں شعر و سخن ہی نہیں انسانوں کی ظاہری شکل و صورت سے لیکر باطنی اوصاف و خصوصیات تک پڑھنے کا بڑا سلیقہ تھا، معاملہ کو ایک نظر میں تاڑ جایا کرتے اور پھر تبصرہ کئے بغیر بھی نہ رہتے تھے ۔ اس سلسلہ کاایک لطیفہ یہ ہے کہ جب ایک صاحب نئے نئے دارالعلوم میں استاذ مقرر ہوکر آئے تو مسجد کے گیٹ پر ان کی شکل دیکھتے ہی کہنے لگے مولوی بدر سرچھوٹا‘ ڈاڑھی گھنی‘ اور کرتا لمبا‘ مجھے تو کسی فتنہ کی بو آرہی ہے، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ چند ہی دنوں بعد کئی حادثات انکی ذات سے متعلق رونما ہوئے تو کہنے لگے کہ دیکھو میں نے کیا کہا تھا؟
ظاہر ہے کہ قیافہ شناسی ایک فن ہے لیکن اسکی حیثیت قرینہ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس لئے شرعی احکام میں اسے دلیل کا نہیں محض قرینہ اور علامت کا درجہ دیا گیا ہے۔
حکیم صاحبؒ کی کچھ باتوں کو ہم انکے ’’ذوقیات‘‘ کے خانے میں ڈالتے، ہمیں یقین نہیں ہوتا اور حکیم صاحبؒ کو اپنے نکتہ پر اصرار رہتا تھا۔
اکثر وبیشتر گرمی کی شدت کے زمانہ میں بدن کھول کر پوربی انداز میں صرف ایک لنگی یا بنیاین اور لنگی پہن کر جامعہ طبیہ کے احاطہ یااپنے کمرہ میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے یا حصن حصین پڑھتے ہوئے نظر آتے تھے، یہ انکی خانقاہ سے وابستگی کا کرشمہ تھا ورنہ اس قدر ذہین اور آزاد طبع انسان معمولات کا اس قدر پابند نہیں ہو سکتا تھا۔
انمیں دینی غیرت و حمیت تھی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت تھی، اور اپنے شیخ، اور حضرت تھانوی ؒاور دیگر اکابر دیوبند سے بے پناہ عقیدت بھی تھی جس کا اثر انکی بات چیت اور طریق زندگی میں نمایاں رہتا تھا ۔
حکیم صاحبؒ کو اللہ تعالی نے تصنیف و تالیف کا اچھا سلیقہ دیا تھا و ہ بے حد زود نویس تھے۔ انہوں نے امام ابو حنیفہ کی سوانح، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت اور متعدد کتابیں تصنیف کرڈالیں ۔
عربی زبان سے ترجمہ پر آئے تو شیخ محمد بن ناصر العبودی کی افریقیہ الخضراء کا ترجمہ شاداب افریقہ کے نام سے اور شیخ زائد کی سوانح حیات کا ترجمہ کر ڈالا ۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے رسالہ خاتم النبیین کا بھی فارسی سے اُردو میں ترجمہ کیا۔
لیکن ان کے کارناموں میں اہم ترین چیز انکی تیار کردہ میڈیکل ڈکشنری ہے جو ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے اور جو انکی قابلیت کی دلیل ہے ،اس ڈکشنری نے ہی انکے لئے حج بیت اللہ کی راہ آسان کی۔ وصی میڈیکل ڈکشنری کے علاوہ انہوں نے ایک اور سہ لسانی طبی ڈکشنری بھی لکھدی ہے جو انکے کمال اور عربی اُردو اور انگلش پر عبور کی علامت ہے۔
دار العلوم دیوبند میں حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کی عظمت کا اور انکی معصومانہ ادائوں کا خاص طور پر ذکر کرتے تھے اور انکے خلاف ایک حلقہ کے طرف سے کئے جانے والے غلط پروپیگنڈوں سے سخت کبیدہ خاطر رہتے تھے۔
رفقاء و احباب و ہم عصروں میں جامعہ طبیہ کے اساتذہ ، ڈاکٹر اعزاز الدین صاحبؒ ، سید ازہر شاہ قیصر،ؒ مولانا حامد الأنصاری غازی صاحبؒ، حضرت مولانا محمد حسین بہاری، ؒ حضرت مفتی ظفیر الدین مفتاحی صاحب اور عزیزوں میں اس ناکارہ کے ساتھ نشست و برخواست تقریباً روزانہ ہی رہا کرتی تھی ۔ طبیعت میں اللہ نے بڑی صفائی اور نفاست رکھی تھی ہمیشہ صاف ستھرے لباس میں رہتے تھے۔
دار العلوم سے علاحدگی کے بعدکچھ عرصہ کیلئے وہ دبئی چلے گئے تھے جہاں ان کا ایکلوتہ بیٹا ملازم تھا ۔ حکیم صاحبؒ نے وہاں عملی طور پر مطب بھی کھول لیا تھا اور علاج و معالجہ کا سلسلہ بھی شروع کردیا تھا۔
پھر وطن میں آکر مقیم ہو ئے اور حالات کی نا مساعدت کے باوجود نہ انکے معمولات کی پابندی میں فرق آیا اور نہ تصنیف و تالیف کے مشغلہ میں خلل واقع ہوا۔
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
ایک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
عمر کے آخری ایام میں ’’لغات حدیث‘‘ کے نام سے ایک طویل کتاب کی تالیف میں وہ مشغول تھے اور حضرت مولانا سعید الأعظمی صاحب کی اطلاع کے مطابق تقریباً تین ہزار صفحات وہ لکھ چکے تھے۔
رمضان المبارک میں اس کے چند صفحات انہوں نے میرے پاس بھجوائے تھے تاکہ اس کی طباعت وغیرہ کا کہیں سے نظم ہوجائے ، ان اوراق کو میں پورے طور پر پڑھ بھی نہیں پایا تھا کہ رمضان المبارک کے مہنیہ میں اور غالباً عشرہ اَواخرکی آمد کے ساتھ ہی ان کا وقت موعودآپہونچااور وہ ہمیشہ کیلئے داغ مفارقت دے گئے جسکی اطلاع بھی مجھے دیر سے ملی ۔ ع حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
فارسی کے مشہور شاعر قاآنیؔ کا اپنے معاصر شاعر خاقانیؔ کی پہلے موت پر یہ شعر انہوں نے ہی سنایا تھا کہ میرا خیال یہ تھا کہ خاقانی میرامرثیہ کہے گا لیکن افسوس کہ مجھے ہی اس کا مرثیہ کہنا پڑ رہا ہے:
ہمیں گفتم کہ خاقانی دریغا گوئے من باشد
دریغا من شدم آخر دریغاگوئے خاقانی
اللہ تعالیٰ حکیم صاحبؒ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور انکی ہر طرح کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور انہیں صدیقین و صالحین کے زمرہ میں شمار فرمائے۔ آمین