غلطی ہائے مضامین۔ عوام مخنث ہوگئے۔۔۔ تحریر :ابو نثر
واحد میں بھی بدل گیا ہے۔ جس پر’’عوام حیران بھی ہوتی ہے، پریشان بھی ہوتی ہے، مگر مؤنث سے مذکر بنتی دکھائی دیتی ہے نہ واحد سے جمع ہوتی نظر آتی ہے‘‘۔ جمع ہونے کا کوئی فائدہ بھی نظر نہیں آتا۔
وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ کم ازکم 1967ء تک ہمارے سیاسی رہنما بھی عوام کو مذکر ہی مانتے اور گردانتے تھے۔ چناں چہ بھٹو صاحب نے سنِ مذکور میں جب پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو اپنے منشور میں یہ دل فریب نعرہ لگایا ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘۔ جب کہ آج اسی جماعت کے صدر نشین (چیئرپرسن) بھی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ’’طاقت کا سرچشمہ ہماری مؤنث عوام ہے‘‘۔ یقین نہ آئے تو ان کی عوامی تقریریں سن لیجیے۔ یوں بھی سیاسی تاریخ (صرف ہماری نہیں، پوری دنیا کی سیاسی تاریخ) یہ بتاتی ہے کہ طاقت کے سرچشموں کا ٹھینگا ہمیشہ عوام کے سر پر رہا ہے۔