خط کی انشا اور ہے، لکھنے کی اِملا اور ہے... تحریر: احمد حاطب صدیقی

Bhatkallys

Published in - Other

04:29PM Fri 5 May, 2023

ہفت روزہ ’وقت‘ کراچی کے سابق مالک و مدیر، جامعہ کراچی کے سابق افسر تعلقاتِ عامہ، بین الاقومی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر تشریفات و مطبوعات، اور دورِطالب علمی میں ہمارے مربی و محسن، برادرِ بزرگ جناب محمود احمد فاروقی خفا ہیں کہ

’’کچھ لوگوں نے ملے ہوئے الفاظ کے حروف توڑ توڑ کر لکھنا شروع کردیا ہے۔ بلکہ کو ’بل کہ‘، چنانچہ کو ’چناں چہ‘ اور چونکہ کو ’چوں کہ‘ وغیرہ۔ میاں اس پر کالم لکھو!‘‘ حکم کی تعمیل میں ہم کالم تو لکھ رہے ہیں، مگر کیا عرض کریں؟ کچھ دنوں سے ہم بھی اُنھیں ’کچھ لوگوں‘ میں شامل ہوئے جا رہے ہیں۔

فاروقی صاحب نے اُس روز ہم سے گیارہ منٹ ستائیس سیکنڈ طویل فاصلاتی خطاب کیا۔ اتنا لمبا فونی اور خونی خطاب وہ کبھی کرتے نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے ڈاکٹر وقار احمد زبیری کی شاگردی کی ہے، ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے آگے زانوئے تلمذ وغیرہ تَہ کیا ہے، میجرآفتاب حسن صاحب سے اصلاح لی ہے اور ڈاکٹر جمیل جالبی کی ماتحتی میں کام کیا ہے۔ بھائی ہم سے تو یہ برداشت نہیں ہوتا‘‘۔

جی بھائی خوب یاد آیا۔ دوبرس پہلے یعنی 25جون 2021ء کو چھپنے والے کالم ’’تاکنا، جھانکنا اور جھانکی مارنا‘‘ میں ہم لکھ چکے ہیںکہ

’’اب سے کم از کم ستّر بہتّر برس پہلے تک دستی تحریر اور دستی کتابت میں یہ رواج عام تھا کہ اردو کے دو الفاظ اگر ملا کر لکھے جاسکتے ہوں تو فی الفور ملا دینا چاہیے۔ ایسے الفاظ کو الگ الگ لکھنا غالباً کم خواندہ یا ناپختہ ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ دو الفاظ ہی پر بس نہیں۔ ’کیلے کی گیلی گیلی جڑ‘ والا تو پورا فقرہ ہی ملا کر لکھا جاسکتا تھا۔ ملا کر لکھنے پر ہمیں اپنا ایک دلچسپ مشاہدہ یاد آگیا۔ ہم ہی نے کیا، آپ نے بھی ’امرت سر‘ کو کبھی اِس املا کے ساتھ لکھا ہوا نہیں دیکھا ہوگا۔ ہمیشہ امرتسر ہی لکھا دیکھا۔ ایک روز خوبیِ قسمت سے ہم مسجدِ نبویؐ میں روزانہ سجنے والی محفلِ درس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ موضوع تھا ’نبوت کے مدعیانِ کاذب‘۔ بات مسیلمہ کذّاب سے شروع ہوئی اور مرزا قادیانی تک جا پہنچی۔ مرزا کے متعلق ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے مدرسِ محترم نے فرمایا: ’’الشیخ ثناء اللّٰہ اَمَرْتَسَری یقول…‘‘

انھوں نے ’امرت سری‘ کا تلفظ ’اَمَرْ تَسَری‘ بروزنِ حسن بصری کیا۔ تب ہمیں فصیح و بلیغ عربی بولنے والے عرب عالِم کے تلفظ پر بھی مسکرانے کا موقع مل گیا۔ لیکن وہ بچارے بھی کیا کرتے؟ امرت سر میں بنفسِ نفیس جھانکی مارے بغیر اس شہرکا درست تلفظ جاننا اُن کے لیے ممکن بھی کیسے ہوتا؟‘‘

عزیزو! املا کے مسائل بہت ’’پے چیدہ‘‘ ہیں۔ آج تک سلجھائے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے جب تک اُردو جیتی رہے گی املا کی الجھی ہوئی ڈور کی گرہیں کھولتی رہے گی۔ بہرحال (یا بہ ہر حال) جس لفظ کا جو املا اہلِ زبان اور اہلِ قواعد و انشا میں رائج ہوجاتا ہے وہ درست تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ چوں کہ اہلِ زبان ’چونکہ‘ بھی لکھتے ہیں، چناں چہ ہم کو ’چنانچہ‘ کا املا بھی دونوں طرح سے کرنے کی سہولت مل گئی ہے۔

اِملا عربی لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں لفظ کو رسم الخط کے مطابق لکھنا۔ یعنی اُردو رسم الخط میں حروف کی جو شکل ہے، کسی لفظ کے حروف کی جو مروجہ ترتیب ہے اور حروف پر جو اعراب ہیں، اُس کے مطابق تحریر کرنا۔ تسلیمؔ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔

عالمِ وحشت میں جب لکھا کوئی خطِّ فراق ربط بگڑا میری انشا کا، غلط املا ہوا

سرمدؔ کا تو عمر بھر کا دیوان ہی غلط ہوگیا تھا:۔

نسخۂ آشفتۂ دیوانِ عمرِ ما مَپُرس خط غلط، معنی غلط، انشا غلط، املا غلط

بچوں کا املا درست کرانے کے لیے جو عبارت بول کر انھیں لکھواتے ہیں، اُسے املا کراناکہتے ہیں۔ ’اِملا کرنا‘ کسی کو حکم دینایعنی ‘Dictate’کرنا ہے،جیسا کہ محمود بھائی نے ہمیں کیا۔بڑے افسروں کے ساتھ ’املا نویس‘ بھی لگایا جاتاہے۔ اہلِ لغت کی رائے میں لکھاوٹ یا لکھائی کے معنوں میں املا بولا جائے تو مؤنث بولاجائے گا۔ میر علی اوسط رشکؔ کو نامۂ جاناں پرنامۂ تقدیر کا شک ہواتو بولے:۔

نامۂ جاناں ہے یا لکھا مری تقدیر کا خط کی انشا اور ہے، لکھنے کی اِملا اور ہے

خیر،املا کے مسائل پر مار دھاڑ اہلِ قواعد و انشا میں آج بھی ہو رہی ہے اور آگے بھی رہے گی۔ڈاکٹر عبد الستا ر صدیقی کی تجویز تھی:۔

’’مرکب لفظ جو دو یا زیادہ لفظوں سے بنے ہوں ملا کر نہ لکھے جاویں، بل کہ الگ الگ لکھے جائیں‘‘۔ مگر ڈاکٹر صاحب کا یہ نسخہ ہر مرض میں کارگر نہیں۔کچھ ’مرکبات‘ تو واقعی ایسے ہیں کہ ملا کر لکھ دیے جائیں تو ٹیلی وژن پر خبریں پڑھنے والی اَن پڑھ لڑکیوں کے لیے انھیں درست تلفظ سے پڑھنا مشکل ہوجاتا ہے۔مثلاً ابھی کچھ ہفتے پہلے کی بات ہے، ایک خاتون خبرخواں ’توپخانہ‘ کو ایک ہی خبر میں بار بار’ ’تُو- پَخانہ‘‘ پڑھ رہی تھیں جوہر بار طبعِ سلیم پر گراں گزر رہا تھا۔طبعِ ڈاکٹر محمد سلیم پر بھی۔ اگر لکھنے والے نے ڈھنگ سے ’’توپ خانہ‘‘ لکھ دیا ہوتا تو سب کے حق میںبہتر ہو جاتا۔

مرکبات الگ الگ لکھے جائیں تو اِس عاجز کے خیال میں اچھے خاصے مرکبات ایسے ہیں جن کا مطلب طلبہ و طالبات کوالگ سے سمجھانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔مثلاً محمود بھائی سے معذرت کے ساتھ، ملا کر لکھے جانے والے اِن الفاظ کو ہم الگ الگ لکھے دے رہے ہیں۔ دیکھیے اب یہ مرکبات اپنا مطلب آپ بتا نے لگے ہیں:خوب صورت، خوش رنگ، ہم رنگ،گُل بدن،بُت خانہ اور دست گیر۔ کچھ مرکبات ایسے ہیں جنھیں کوئی بھی ملا کر نہیں لکھتا مثلاً خوش مذاق، خوش خوراک، نیک بخت، خوش بخت، دل لگی اور ملک گیر وغیرہ

تاہم ایسے مرکبات بھی ہیں جن کو الگ الگ کر کے لکھا جائے تو وہ اجنبی اور نامانوس سے لگنے لگتے ہیں۔’کیوں کہ‘ہماری نگاہیں مروجہ املا کو پہچاننے کی عادی ہو چکی ہیں، لہٰذا ان خاص مرکب الفاظ کوملا کر لکھنے کا جو رواج چل رہا ہے، اُسے محمود بھائی کی ’دل جمعی‘کی خاطر جوں کا تُوں رائج رہنے دیجیے۔ الگ الگ کرکے لکھنے سے سب کے سب ’بے ڈھب‘ لگنے لگتے ہیں، مثلاً: ’شب نم۔ دست خط۔ پے چیدہ۔ پاس بان۔ بچ پَن۔ لڑک پَن۔ جان وَر اورخاک سار‘ وغیرہ وغیرہ۔اِنھیں میں ’بل کہ‘ کو بھی شامل کرلیجے۔ اگرچہ کہ ’بل کہ‘ لکھنے کی باقاعدہ مہم چل رہی ہے، مگر ہم جب بھی اورجہاں بھی ’بل کہ‘ لکھا دیکھتے ہیں ہمیں اپنا ہی ایک مصرع یاد آجاتا ہے: ’ہم نے دیے وہ بل کہ دیے سب کے بل نکال‘۔

چوں کہ، چناں چہ، کیوں کہ، کیوں کر، حالاں کہ اورجب کہ کو اکثر لوگ ملا کر لکھنے کے عادی ہیں تو لکھنے دیجیے۔ عادت بدلنا بہت مشکل کام ہے۔اسی طرح ’بہ‘ کے ساتھ لکھے جانے والے اکثر الفاظ ہمارے ہاں ملا کر لکھے جاتے ہیں، لہٰذا ’بِہ تر‘ یہ ہے کہ انھیں بھی ملے ہوئے املا کے ساتھ ملا رہنے دیجے، مثلاً: بخدا، بخوبی، بدستور، بدقت، بدولت اور بہرحال۔البتہ ہماری رائے یا مشورہ یہ ہے کہ’ غرضیکہ‘ اور’بشرطیکہ‘ کا املا دونوں الفاظ کوالگ الگ کر کے لکھا جایا کرے تو بہت سوں کا غلط تلفظ درست ہوسکتا ہے: ’’غرضے کہ‘‘ اور ’’بشرطے کہ‘‘۔ کچھ لوگ ان مرکبات کو ’غرض یہ کہ‘ اور’بہ شرط یہ کہ‘ پڑھتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔جب کہ ہمارے ایک پروفیسر دوست حالانکہ (حال آں کہ) کو ’حالا نِکّا‘ اور بشرطیکہ کو ’بہ شرطی کا‘ پڑھتے ہوئے پائے گئے۔

بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل