دوہزار سترا۔۔۔۔ نیے سال کا منظوم استقبال۔۔۔از: عزیز بلگامی

میں کیسے بچ کے نکل آگیا نیے سن میں
کہاں سے جان پڑی پھر سے دِل کی دھڑکن میں
یہ کس نے لایا مجھے ’’دو ہزار سترا‘‘ میں
میں جیسے ڈُوبا ہوا تھا لہو کے دریا میں
تھی سر پہ موت،تو ہاتھوں میں تھے مرے کاسے
بچا لیا مجھے کس نے لہو کے دریا سے
یہ کس نے شہرِ حلَب سے اُٹھا کے لایا مجھے
بموں کے بیچ سے کس نے بچا کے لایا مجھے
بموں کے بیچ تو بچنا محال تھا میرا
میں زندہ رہ گیا کیا یہ کمال تھا میرا؟
میں بچ کے آگیا ’’برما‘‘ کی قتل گاہوں سے
مجھے اماں ملی کیوں کر جہاں پناہوں سے
کھڑا ہے پھر سے، اک اور،سالِ نو مرے آگے
اُلجھ نہ جائیں کہیں پھر سے اِ س کے نم دھاگے
سوال یہ ہے ،کیا محفوظ ہوگا سال نیا؟
یہ سال مجھ کو دکھائے گا کیا کمال نیا؟
شدید قسم کے حالات سے لڑا ہوں میں
اُمید و بیم کا پیکر بنا کھڑا ہوں میں