سفر حجاز۔۔۔(۱۵) ۔۔۔ انوار مدینہ۔۔۔از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

11:54AM Fri 9 Jul, 2021

                     انوار مدینہ

 

         مسجد نبوی کی زیارت ہو چکی،آستانۂ نبوت پر سلام عرض کیا جاچکا،صدیق  ؓ اور فاروق  ؓ کے دربار میں حاضری کے آداب بجا لائے جاچکے،گھڑیاں اور گھنٹے گزر چکے،راتیں آئیں اور جا چکیں،دن طلوع ہوئے اور ختم ہو چکے لیکن ابھی وہاں حاضر ہونا باقی ہے جہاں آدھی رات کو،خواب اور آرام چھوڑ کر تشریف لے جانا،اور اپنے مولیٰ سے راز و نیاز میں مصروف ہوجانا،خود محبوب رب العالمین کو محبوب تھا،اس مقام کا نام کون مسلمان ہے جس کو معلوم نہیں؟ اس جگہ کی حاضری کونسا دل ہے جس میں اس کا ارمان نہیں؟ بقیع الفرقد،یا عرف عام کے مطابق جنت البقیع وہ خاک پاک ہے جہاں رسول اللہ ﷺ کے چہیتے اور لاڈلے،اللہ کے برگزیدہ اور پیارے ایک دو نہیں،دس بیس نہیں خدا معلوم کتنے اور کس تعداد میں آرام فرمارہے ہیں! حرم نبویﷺ سے کچھ زیادہ دور نہیں،مسجد نبوی سے مشرق کی جانب پیدل ٹہلتے ہوئے چلیے تو آٹھ دس منٹ میں بآسانی پہونچ جایئے گا،آبادی سے الگ ایک نہایت وسیع چاردیواری اور اس احاطہ کے اندر کیا بتایا جائے کہ کیسے کیسے گوہر نایاب زیر خاک آسودہ ہیں!ادھر دیکھیئے تو جگر گوشہ رسول ﷺ  صاحبزادہ ابراہیمؓ جو اگر زندہ رہتے تو نبی ہوتے اور نور نظر سیدنا حسنؓ ،ادھر دیکھیئے تو دونوں صاحبزادیاں حضرت   رقیہؓ ،حضرت  ام کلثومؓ اور شہید کربلا کے لخت جگر سیدنا زین العابدینؓ ایک طرف امت کی شفیق مائیں ،مائی عائشہؓ اور مائی حفصہؓ ،مائی زینبؓ اور مائی ام سلمہؓ اور تقریباﹰ ساری امہات مومنین اور دوسری طرف عم رسولﷺ عباسؓ اور عمہ رسول صفیہؓ ایک گوشہ میں خلیفہ ثالث عثمان ذوالنورینؓ اور ایک ٹکڑے میں عبدالرحمن بن عوفؓ اور سعد ابن ابی وقاصؓ اور اگر ایسی روایات بھی قبول کرلی جائیں جو اب تک محقیقن کے ہاں قبول نہیں کی گئی ہیں تو خاتون جنت فاطمہ زہراؓ اور امیر المومنین علی مرتضیٰؓ بھی ہیں۔

ایسے ایسے آفتاب اور ماہتاب ،جہاں زیر خاک ہوں ،اس زمین کی نورانیت پر اگر خود آسمان بھی رشک کرنے لگے تو کس کو حیرت ہوسکتی ہے اور یہ چند نام تو صرف نمونہ کے طور پر لے دیئے گئے،کہ ام سے اس خطہ صالحین کی عظمت ،نورانیت کا کچھ اندازہ ہوسکے،ورنہ جہاں ایک نہیں،چند نہیں ہزاروں صحابی آرام فرما ہوں،جہاں بےگنتی شہداء و صدیقین مدفون ہوں اور جہاں زمانہ صحابہ و تابعین سے لےکر اس تیرہ سو برس کے اندر بےشمار اولیاء ،کاملین اور ابرار صالحین کی ایک پوری بستی آباد ہوچکی ہو وہاں کے انوار و برکات کا احاطہ کرنا کس کے بس کی بات ہے! آج ان میں سے کوئی ایک ہستی بھی علیحدہ مدفون ہوتی،تو اس کا مزار مرجع خلائق بن جاتا۔اور اس کے آستانہ پر ایک پورا میلہ لگارہتا،لیکن یہاں روضہ رسولﷺ کا جوار ہے،بجلی کے قمقمے بڑے روشن سہی،ستاروں کی روشنی شب تار کی تاریکیوں کو کافور کردینے والی سہی،اور خوش جمال ماہتاب ان سب سے روشن تر سہی لیکن جب آفتاب عالمتاب طلوع ہوتا ہے تو اس کے پہلو میں کون ایسا ہے جس کی روشنی ماند نہیں پڑجاتی!آستانہ رسول ﷺسے فرصت کس کو،اور فرصت ہو بھی تو دل کس کا ،کہ  بقیع تک جائے خواہ اس کا فاصلہ چند قدم ہی سہی ! ۔اسی حیص بیص  میں دن گزرتے گئے اور ٹلتے گئے،لیکن بالآخر ایک روز صبح سویرے بعد نماز فجر کہ وہ وقت بقیع میں بالکل ہجوم کا نہیں ہوتا حاضری کا ارادہ کرلیا ، اور داغستانی صاحب کی رہبری میں میں چل کھڑا ہوا۔بقیع کو جاکر دیکھا،اچھی طرح دیکھا،کاش نہ دیکھا ہوتا،کاش وہاں جانے پہرہ رہتاہے۔ان پہرہ داروں کا کام یہ ہے کہ زرائروں کو بدعت سے روکیں۔لیکن"بدعت" کی نجدی تعریف میں قبورصالحین داخل نہیں!۔گویا قبورصالحین کو اتنی گندی اور غلیط حالت میں رکھنا ، توہین اور ان پر گندگی کا ڈالنا یقناً  (نعوذبا؅)سنت وآثار سلف کے مطابق ہے! ۔

امت اسلامیہ کی شوربختیوں کی کوئی انتہا ہے؟ ایک طرف اگر محبت کا نام کہیں سے کان میں پڑگیا تو بس"مزارات" پر

راگ ہے۔ناچ ہے، نشہ بازیاں ہیں، بدکاریاں ہیں، طواف ہے سجدہ ہے، چادر ہے، گاگر ہے، دوسری طرف اگر "اصلاح "اور" بدعت  شکنی"کی زبان نے سیکھ لی ہے تو یہ بے ادبیاں ہیں،بے احترامیاں ہیں،امانتیں ہیں، زندوں کی دلآزریاں ہیں،اور مردوں کی

ذلتیں اور خواریاں ہیں!ضد اور نفسانیت کا دوردورہ ہے،فریقا نہ جنبہ داریوں کی گرم بازری ہے،کون کہ سکتا،  روک سکتاہے،ہرزبان آزاد،ہر قلم بے باک،ہر ہاتھ گستاخ!۔

           جو گنہ کیجئے ثواب ہے آج            اس سطور کے پڑھنے والوں میں بہت سے ایسے ہیں جو دلسوزی و نیک نیتی کے ساتھ نجدی حکومت کے ہمدرد ہوا خواہ ہیں،اور ان میں سے ان سطور کے لکھنے والے کے مکرم و مخدوم بھی ہیں، از راہ کرم وہ عام الغیب و الشہادہ کو گواہ کر کے

خود اپنے قلب سے استفتا کریں کہ آج اگر امام احمد بن حنبل ؒزندہ ہوتے اور امام احمد ؒنہ سہی حافظ ابن قیمؒ یاان کے استاد شیخ ابن تیمیہ ؒبھی ہوتے تو وہ بقیع کی اس گندی حالت کو  گوارا فرماسکتے تھے،جو چودھویں صدی کےنجدی حنابلہ نے اس کی بنارکھی ہے؟یہ تو ایسی شے ہے کہ بالفرض فقہ حنبلی اسے جائز رکھاہوتا،تو بھی نجدی حکومت کو جمہور مسلمین کے مذاق کی رعایت لازمی تھی،چہ جائیکہ جب فقہ حنبلی  میں سرے سے اس کی بابت کوئی حکم ہی موجود نہ ہو، مصالح امت کی اہمیت اسی سے واضح ہے کہ خودصاحب شریعت علیہ الصلوۃ و السلام اس کا لحاظ رکھا اور حطیم کو خانہ کعبہ میں شامل کرنے سے اسی بناپر اعراض فرمایا کہ اس سے  امت میں ایک فریق اور فتنہ پیدا ہونے کا احتمال تھا،پھر کسی غیر نبی کا جزئیات میں اس قدر غلو و تشدد اپنے اندر کیوں  کر کوئی پہلو جواز کا رکھ سکتا ہے! ۔

بہت سے روشن پہلوؤں سے انکار نہیں لیکن نہ ہو کہ کسی اہل دل کے زبان پر آیتہ  سعودی حکومت کے روشن اور یقیناً آیہ کریمہ

اثمھما  اکبر من نفعھما     کا مضمون آجائے اس کی ساری خوبیاں ایک طرف،اور جنت البقیع کی یہ ناقابل برداشت حالت

تنہا دوسری طرف،کم سے کم،عام مسلمان تو اس مشاہدے کے بعد اپنے دماغوں میں سعودی حکومت کی کوئی خوشگوار

یاد لیکر نہیں واپس ہوسکتے،اور حکومت کی فہرست جرائم کا یہ آخری عنوان ہرگز نہیں،جو مسجد نبوی کے ساتھ جس

بے التفاتی دسردمہری کا مستقل برتاؤ قائم ہے،اسے بھی کوئی کیسے بھلاسکتا ہے؟ مسجد میں قالین بچھے ہوئے ضرور دیکھے گئے،لیکن اول تو یہ سننے میں آیا ،کہ یہ قالین ہمیشہ نہیں بچھے رہتے بلکہ صرف موسم زیارت بھر کے لیے بچھوا دیے گئے ہیں،باقی سال کے بیشتر حصہ میں محض چٹائی بچھی رہتی ہے! اور پھر جو قالین بچھے ہوئے دیکھے گئے وہ اتنے بوسیدہ اور ایسے ادنیٰ درجہ کے تھے،کہ مسجد نبویﷺ تو الگ رہی،اگر دہلی کی جامع مسجد میں بچھادیئے جائیں تو بجائے زیب و زینت کے،بدنمائی اور بدزیبی کا سامان بن جائیں ! ۔ یہ صحیح ہے کہ سعودی حکومت ترکوں کی سی دولت نہیں رکھتی،لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ سعودی حکومت اتنی مفلس و نادار بھی نہیں کہ مسجد نبویﷺ کے لیے ایسے قالین بہم نہ پہونچاسکے جن کا انتطام بھوپال ،ٹونک ،بھاولپور اور رامپور کی مسلمان ریاستیں بدقت نہیں،بلادقت کرسکتی ہیں!اور تنہا فرش ہی پر موقوف نہیں،روشنی کا انتطام بھی ایسا ہی ناقص و ابتر ہے،بجلی کا انجن خاص مسجد نبوی کے لیے موجود ہے لیکن خدا معلوم انجن کا قصور ہے یا انجن چلانے والوں کا کہ روشنی اول تو ہے بہت ناکافی یعنی جس وقت سارے قمقمے روشن ہوتے ہیں اس وقت بھی دھندلی سی رہتی ہے،دوسرے بجلی کہ بار بار "فیل" ہوتی رہتی ہے۔بارہا ایسا اتفاق ہوا کہ تہجد کی اذان ہوگئی ،دروازوں پر نمازیوں کا ہجوم ہے لیکن پھاٹک اس لیے نہیں کھلتے کہ اندر اندھیرا گھپ پڑا ہوا ہے،اور روشنی کی رو کسی طرح انہیں چکتی ! بجلی کی روشنی اور ایسا اندھیرا!۔

فرش اور روشنی کی بدانتطامی سے کہیں زیادہ تکلیف دہ وضو خانوں  کی بدانتطامی ہے،جس قسم کے وضو خانے اور حوض ہندوستان کی بڑی بڑی مسجدوں میں عموماً ہوتے ہیں اس طرح کی کوئی چیز مسجد نبوی میں سرے سے موجود ہی نہیں البتہ مختلف دروازوں کے باہر پانی کے نل کی چند ٹوٹیاں لگادی گئی ہیں،یہ گنتی کی چند ٹوٹیاں اول تو کسی بڑے  مجمع کے لیے کافی نہیں ہوسکتیں،پھر اکثر تجربہ یہ ہوا ہے کہ جن حوضوں میں یہ ٹوٹیاں لگی ہوئی ہیں،نماز کے وقت سرے سےوہ حوض ہی خشک ہیں اور اگر ٹوٹیوں سے پانی آتا ہوا دیکھا بھی گیا تو خدا جانے ٹوٹیوں میں کیا نقص ہے کہ پانی نکلتا بہت قلیل مقدار میں ہے اور بہت باریک دھارے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جتنے وقت میں تین آدمی وضو کرسکتے ہیں۔اتنی دیر ایک آدمی کو لگ جاتی ہے اور ہجوم کی کش مکش میں پورا ،ادھورا الٹا سیدھا جس طرح بھی وضو کرنے کو مل جاتا ہے وہ بیچارہ اسی کو غنیمت سمجھتا ہے،وضو خانوں کی طرح طہارت خانوں کے بھی کافی انتظام کی شدید ضرورت ہے۔یہ سارے انتظامات ایسے ہیں جو تھوڑی ہی سی توجہ سے بغیر کسی غیر معمولی بار مصارف کے انجام پاسکتے ہیں،کاش!۔سعودی حکومت کو اس کی توفیق ہوتی کہ اختلافی و نزاعی جزئیات امور کو چھوڑ کر اپنی توجہ و التفات کا مرکز انھیں معاملات کو بناتی جن کا تعلق بلا نزاع و اختلاف ،زائروں اور نمازیوں کو ہر فرقے اور ہر طبقے سے ہے۔

اپنے ملک کے فرقہ شیعہ کی حالت دیکھ کر خیال یہ ہوتا تھا کہ حج و زیارت کے لئے شیعہ تو جاتے نہ ہونگے،لیکن تجربہ سے معلوم ہوا کہ یہ خیال غلط تھا ہندوستان کے شیعہ تو بیشک برائے نام ہی تھے ، لیکن عراق وخراسان کے شیعہ ہزاروں کی تعداد میں آئے ہوئے تھے، شیعوں کے مزور علیحدہ ہیں، انھیں آداب زیارت وہی تلقین کرتے رہتے ہیں″روضۃ جنت″ کے اندر شیعوں کو بکثرت نماز پڑھتے دیکھا گیا، فرداً فرداً بھی اور اپنی جماعتیں بنا بنا کر بھی، اہل سنت کے پنجوقتہ جماعت کے وقت یہ لوگ الگ الگ ہٹ جاتے تھے یا اکثر باہر چلے جاتے تھے، بعض فراخدل شیعہ ایسے بھی دیکھنے میں آئے جو ستون عائشہؓ صدیقہ کے پاس کھڑے ہوکر دیر تک نمازیں پڑھتے رہے، اور اپنے شیعہ دوست چودھری محمد علی ردولوی کا یہ فقرہ مجھے کسی طرح نہیں بھولتا ، جو اس موقعہ پر انھوں نے فرمایا تھا کہ ″ بیوی عائشہ جیسی بھی ہوں بہر حال ہمارے رسول کی محبوب تھیں″ لیکن یہ حال سب کا نہ تھا، بیشتر تو یہ ہوتا رہتا کہ یہ لوگ نہایت

کثیف جسم ولباس کے ساتھ کئی کئی غول آتے اور جالیوں کو یا منبر رسول کو بوسہ دینے کی کوشش کرتے ، سعودی سپاہیوں کی نظر پڑجاتی اور وہ انھیں ڈھکیلتے اور کبھی کبھی مارتے بھی ، یہ لوگ بھاگتے اور سپاہی انھیں پکڑنے دوڑنے یہ یا ماجر ا عموماً خراسانی شیعوں کے ساتھ پیش آتے رہتا ہے تھا، عراق کے شیعہ اپنے خراسانی بھائیوں سے جسم ولباس میں ہر طرح بہتر ہوتے تھے، یہ لوگ مقابلہ پر آمادہ ہوجاتے تھے، اور سپاہیوں سے کلہ بکلہ لڑتے ، غرض دونوں صورتون میں وہ مقدس جگہ جو صرف نماز، عبادت، تضرع والحاح کے لئے تھی، اور جس کا ادب واحترام فرشتے تک کرتے ہیں، خود امت محمدیہ کے نادانوں کے ہاتھوں بے ادبیوں اور بد تمیزیوں کی تماشہ گاہ بن جاتی، ایسا ہی ہنگامہ مصری عورتوں کی زیارت کے وقت برپا رہتا، ماشا ء اللہ بڑی قد آور تنومند ، چہرے کھلے ہوئے، لیکن اور ہر طرح  پر مستور، سر سے پیر تک سیاہ لباس میں  ملبوس ، غول باندھ کر آتی ہیں، اور آتے ہی جالیوں سے چمٹ کر بوسہ دینا چاہتی ہیں، سعودی سپاہی عموماً جثہ کے لاغر ونحیف ، بڑھ کر انھیں روکنا اور دھکے دینا چاہتے ہیں، لیکن خود ہی شکست کھاتے ہیں اور اس ہاتھا پائی ، آپا دھاپی میں جو بدتمیزیاں ، نادانستہ سہی عین مواجہ مبارک میں سرزد ہوتی رہتی ہیں،خدا کرے آئندہ کبھی واقع نہ ہوں اور ان کے ذکر کرنے کی ضرورت کسی کو پیش نہ آئے۔

بوہروں کے مختلف فرقوں ، داؤودیوں ، اور سلیمانیوں کو اور دوسرے اسلام ی فرقوں کو اپنے اپنے طریقوں پر نمازیں پڑھتے اور زیارت کرتے دیکھا، رحمت عالم کا دربار ، سب کی عقیدتوں کا مرکزہے، اختلافات جتنے ہیں باہر ہیں، اندر نہیں ، راہ میں ہیں، منزل مقصود میں نہیں، امام ابوحنیفہ ؒ ہوں یا امام شافعیؒ، حضرت جیلانیؒ ہوں یا خواجہ اجمیریؒ، سب آستان رسالت تک پہنچانے کے واسطے اور ذرائع ہیں، حرم کے اندر داخل ہوکر در رسول پر پہونچ کر نہ کوئی حنفی ہے، نہ شافعی، نہ مالکی ہے، نہ حنبلی، نہ اشعری ہے  نہ ماتریدی، نہ قادری ہے ، نہ چشتی ، نہ صابری ہے، نہ مجددی، نہ مقلد ہے نہ غیر مقلد، سب کے سب صرف محمدی ہیں، رسول کی حیات میں صحابہ کا کیا مذہب تھا؟ کیا وہ بجز محمدی ہونے کے کچھ اور تھے، حضور کے مواجہ میں اپنے آپ کو کسی اور کی جانب منسوب کرنا کتنی بڑی گستاخی اور نادانی تھی!۔ پھر آج جب آپ کی خوش نصیبی آپ کو در رسول تک لے آئی ہے اور آپ کو یقین ہے کہ آپ کا رسول زندہ  جاوید ہے۔ تو یہ کتنی بڑی گستاخی اور کیسی کھلی ہوئی نادانی ہوگی کہ اپنے نبی کے ہوتے ہوئے کسی غیر نبی کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑے رہیں، اور اس رشتہ پر فخر ونازکرتے رہیں! ۔رات کی تاریکیوں میں بے شبہ ہر روشنی ایک نعمت ہے، لیکن جب آپ

آفتاب کے سامنے ہیں تو اتنی دیر کے لئے تو اپنی قندیلوں اور اپنی مشعلوں کو گل ہی کردیجئے اور ہوسکے تو آج نئے سرے سے مسلمان ہوجیے، اپنے اسلام کی تجدید کیجئے، اللہ اور رسول کے سامنے اپنے عہدو پیمان کو استوار کیجئے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کیجئے جس کا ہاتھ قادر مطلق کا ہاتھ اور جس کی بیعت خالق کائنات کی بیعت ہے ، إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ۔

مبارک ہیں وہ جنہیں اس عہد کی توفیق نصیب ہو،مبارک تر ہیں وہ جنھیں اس عہد پر ثابت قدمی نصیب ہو۔