اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار مولانا توقیر رضا خاں بن گئے

Bhatkallys

Published in - Other

12:44PM Tue 10 May, 2016
حفیظ نعمانی   ہمارے نزدیک اس ہفتہ، یا اس مہینہ کی نہیں بلکہ اس سال کی سب سے بڑی خبر مسلمانوں کے لئے یہ ہے کہ مولانا توقیر رضا خاں بریلی سے اچانک دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں وہ دارالعلوم کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب اور مولانا محمد سالم صاحب سے ملے اور اعلان کیا کہ چند روز پہلے جو دہلی پولیس نے دس لڑکوں کو دہلی سے اور تین لڑکوں کو دیوبند سے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا تھا وہ دیوبند کے تینوں بچوں کے گھر جاکر ان کے والدین کو تسلی دیں گے۔ مولانا توقیر رضا خاں نے مولانا ارشد مدنی کی ان کوششوں کو بھی سراہا جو وہ اسیرانِ ملت کی بے گناہی ثابت کرنے اور انہیں باعزت رہا کرانے کے لئے کررہے ہیں۔ بریلی مسلک کے اس وقت سب سے بڑے ترجمان مولانا توقیر رضا خاں صاحب ہیں۔ دارالعلوم کے مہمان خانہ میں مولانا توقیر رضا خاں نے پریس سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمان اس وقت انتہائی پریشانی میں ہیں اور اس پریشانی کا مقابلہ مسلک اور نظریات سے ہٹ کر متحد ہوکر ہی کیا جاسکتا ہے۔ انہو ں نے فرمایا کہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم سازش ہورہی ہے جس کا مقابلہ متحد ہوکر ہی کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک کی پولیس اور خفیہ ایجنسیاں پوری طرح اپنا اعتبار کھوچکی ہیں۔ یہ وقت اختلافی باتوں کا نہیں ہے اور ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ گولی مارتے وقت کوئی معلوم نہیں کرتا ہے کہ تم دیوبندی ہو یا بریلوی یا شیعہ ہو یا سُنّی۔ آزادی کے بعد آج اس اتحاد کی جتنی ضرورت ہے اتنی کبھی نہیں تھی۔ مولانا توقیر رضا نے یہ قدم اٹھاکر ہمارے نزدیک تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا ہے۔ بریلوی مسلک کا ہر کوئی معاف کرے کہ ہم اعتراض کے لئے نہیں بلکہ حقیقت بیان کررہے ہیں کہ اس معاملہ میں ان کا ہی رویہ زیادہ سخت رہا ہے۔ جیسے مسجد سے نکالنا یا اپنی مسجدوں میں نہ آنے دینا۔ دیوبندیوں کی طرف سے کبھی نہیں سنا۔ بیشک دیوبندی علماء نے اعتراض کئے ہیں لیکن اعتراف بھی کیا ہے۔ ہمارے چھوٹے دادا مولانا حکیم محمد ایوب صاحب خود بریلی جاکر اعلیٰ حضرت سے ملے تھے اور والد سے آکر بیان کیا تھا کہ وہ محنت بے انتہا کرتے ہیں۔ ملاقات کے لئے جب بلایا تو وہ کہنیاں ٹیکے چٹائی پر بیٹھے تھے اور کہنیوں کے گہرے نشان اس کی گواہی دے رہے تھے کہ شاید گھنٹوں سے وہ غور و خوض میں تھے۔ ہم نے کچھ دن پہلے پانی کے مسئلہ پر لکھا تھا کہ مولانا احمد رضا خاں صاحب کا فتویٰ ہے کہ پانی اس وقت تک پانی ہے جب تک اسے پانی کہا جائے۔ اس کا واقعہ یہ تھا کہ برسوں پہلے برسات آنے سے پہلے ہر کنوئیں میں ایک سرخ رنگ کی دوا جراثیم مارنے کے لئے ڈالی جاتی تھی۔ سنبھل میں چمن سرائے کے ایک کنوئیں میں وہ دوا کچھ زیادہ گرگئی۔ محبوب علی نام کے ایک عالم اور بڑے زمین دار کو جب پانی دیا گیا تو انہوں نے ہاتھ روک لیا اور معلوم کیا کہ کیا کٹورہ میں رنگ تھا؟ ملازم نے جواب دیا کہ میں تو دھوکر لایا ہوں۔ محبوب صاحب نے قلم کاغذ منگوایا اور اس پانی سے استفتا لکھا کہ کیا فرماتے ہیں مفتیانِ علماء فتین کہ جس روشنائی سے میں یہ لکھ رہا ہوں وہ کنوئیں کا پانی ہے۔ کیا اس پانی سے وضو جائز ہے اور یہ پاک ہے؟ سنبھل کے دیوبندی اور بریلوی عالموں کو استفتا بھیجا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ سارے عالم چکراگئے۔ وہ زمانہ ہمارے والد کی طالب علمی کا تھا۔ ان کے استاذ مولانا کریم بخش صاحب کے پاس ہی استفتا آیا۔ انہوں نے بھی فقہ کی ساری کتابیں چھان لیں۔ پھر بڑے فقہوں کے فتوے دیکھے۔ ان میں صرف مولانا احمد رضا خاں صاحب کا فتویٰ ملا کہ پانی کو جب تک پانی کہا جائے گا وہ پانی رہے گا۔ اسے پینا اور وضو کرنا جائز ہے۔ مسلک کا اختلاف تو دیوبندیوں میں بھی ہے۔ رفع یدین آمین بالجہر اور امام کے پیچھے مقتدی کا سورۃ کا دہرانا یا خاموش رہنا۔ یہ سب اپنی جگہ رہتے ہوئے بھی ہم کیوں متحد نہیں ہوسکتے۔ ہمیں یہ بھی تو دیکھنا چاہئے، جو مقابلہ پر ہیں ان کے درمیان تو ایسے اختلاف ہیں جن کے بعد روز سیکڑوں قتل ہوجانا چاہئیں۔ مسلمان بھی بس ایک بات پر متحد ہوجائیں کہ بات جب حکومت کی جانبداری اور ظلم کی آجائے تو سُنّی شیعہ، بریلوی دیوبندی اور اہل حدیث سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔ اور یہی رویہ الیکشن کے موقع پر ہونا چاہئے۔ اگر ہر صوبہ اور ملک میں مسلمان متحد ہوجائیں اور ہر صوبہ میں وزیر کسی پارٹی کے غلام نہ ہوں اپنی ملت کے حکم کے پابند ہوں تو مجال نہیں ہے کہ پولیس یا اے ٹی ایس کسی لڑکے کو چھو بھی سکے۔ دیوبند میں مولانا توقیر رضا خاں صاحب نے مولانا ارشد مدنی کی اس کاوش کی بھی تعریف کی جو وہ بے گناہ مسلمانوں کو جیل سے رہا کرانے کے لئے کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جلسوں اور جلوسوں سے بہت زیادہ اہم یہ کام ہے۔ مولانا ارشد مدنی کسی سے یہ معلوم نہیں کرتے کہ تمہارا مسلک کیا ہے؟ اور نہ گرفتار کرنے والے یہ دیکھتے ہیں کہ اس کا مسلک کیا ہے؟ قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ ان ہی کالموں میں ہم کئی بار لکھ چکے ہیں کہ یہ انتہائی خشک کام ہے۔ لیکن اس وقت سب سے زیادہ ضروری بھی یہی ہے۔ اس لئے کہ مقدمہ بازی بہت مہنگی ہوگئی ہے ایسے میں ہم نے تو پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہہ رہے ہیں کہ رمضان شریف میں مسلمان عام طور پر زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ اس میں سے ہر کوئی ایک حصہ ان غریب مسلمانوں کی رہائی کے لئے بھی نکالے اور مولانا ارشد مدنی کی خدمت میں بھیج دے۔ ہماری جوانی کے زمانہ میں ایک بار والد ماجد نے فرمایا کہ کمانا بہت آسان ہے، خرچ کرنا بہت مشکل ہے۔ ہم نے دل میں کہا۔ اب اباّ جی ضعیف ہوگئے ہیں۔ پھر جب اپنے بال سفید ہوئے اور پروردگار نے کسی قابل بھی کردیا تو اندازہ ہوا کہ خرچ کرنا کتنا مشکل ہے؟ زکوٰۃ کے لئے حکم ہے کہ جسے سب سے زیادہ ضرورت ہے اسے تلاش کرکے دو۔ اور ظاہر ہے کہ جو بھی زکوٰۃ نکالتا ہے وہ خون پسینہ کی کمائی ہوئی دولت ہوتی ہے۔ قدرتی طور پر خواہش ہوتی ہے کہ ثواب بھی زیادہ ملے۔ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ پیشہ ور مانگنے والوں کے بجائے ان کو دو جن کا ہاتھ لیتے وقت کانپنے لگے۔ یا جن کے جگر کے ٹکڑے برسوں سے بے قصور جیل میں سڑ رہے ہیں اور ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور صورت سے اوباش یا بدکردار نہیں دیندار معلوم ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ اسلام دشمنی ہے۔ اور یہ اتنا اہم مسئلہ ہے کہ اس وقت بریلی مسلک کے سب سے نمایاں عالم مولانا توقیر رضا خاں صاحب اس دیوبند کے بزرگ علماء سے مل رہے ہیں جنہیں سو سال سے کافر کہا جارہا تھا۔ یہ قدم مولانا توقیر رضا خاں صاحب نے اٹھاکر وہ کیا ہے جو صرف ایمان کی طاقت کراسکتی تھی۔ اب سب سے ضروری بات یہ ہے کہ پرانی ہر بات کو بھلا دیا جائے اور ہم سفر کے قابل ہوتے تو مولانا کو مبارکباد دینے خود بریلی جاتے۔ چھوٹے بھائی سجاد میاں ممبئی میں ٹاٹا اسپتال کے ڈاکٹروں کے زیرعلاج ہیں۔ وہ اچھے ہوتے تو انہیں بھیجتے۔ پھر بھی تلافی کیلئے کچھ نہ کچھ انشاء اللہ ضرور کریں گے۔ ہم مولانا بریلی کو دل سے مبارکباد دیتے ہیں۔ انشاء اللہ یہ قلم ان کے ہر قدم پر ان کے ساتھ رہے گا۔ قادر و قدیر ان کی مدد فرمائے۔ آمین۔