لیجیے !بھٹکل میں بھگوا سیاست کا جنگی بگل بجادیاگیا ۔۔!!از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
میں نے اپنے سابقہ مضمون میں ریاست کرناٹکا کے بدلتے سیاسی منظر نامے اورچند مہینوں میں درپیش اسمبلی انتخابی ڈرامے کی امکانی عکاسی کی تھی اور یہ اشارہ کیا تھا کہ اس بار بھگوا بریگیڈ کی رن بھومی کے طور پر فسطائی سیاست کے لئے پسندیدہ مقام ساحلی کرناٹکا ہوگاجس میں جنوبی کینرا کے کچھ شہروں اور شمالی کینرا کے شہر بھٹکل کو خاص اہمیت حاصل رہے گی۔اور لیجیے !دیکھتے ہی دیکھتے اس ہفتے بلدیہ کی جانب سے دکانیں تحویل میں لیے جانے کے خلاف ایک دکاندار رامچندرا نائک کی خود سوزی اور ہلاکت کے پس منظر میں بھٹکل میں زعفرانی سیاست کا بگل بجادیا گیا۔
ٹی ایم سی کی دکانوں کی نیلامی اور سیاست: آج سے تقریباً ایک سال قبل ٹی ایم سی کی دکانوں کی نیلامی کے تعلق سے جو تنازعہ گرم ہوا تھا اس وقت میں نے بھٹکلیز ڈاٹ کام کے اسی کالم میں اس کا مسئلہ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس مسئلے کو حل کرنے میں ہمارے مرکزی سماجی ادارے کو ایک اہم کردار ادا کرنا چاہیے تھا اور اس کا موقع خود غیرمسلم دکانداروں کی طرف سے ہمیں اس طرح فراہم کیاگیاتھا کہ سنگھ پریوار کے لیڈروں کو دور رکھتے ہوئے انہوں نے ہمارے قائدین سے ملاقاتیں کی تھیں۔جواب میں ہمارے قائدین کی طرف سے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں امیدیں بھی دلائی گئی تھیں کہ دکانوں کے مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کروایا جائے گا۔لیکن ہماری یہ خیر سگالی محض زبانی رہی اور عملی طور پر ہمارا رویہ اس سمت میں وہ نہیں رہا جو کہ ہونا چاہیے تھا ۔ میراوہ چارقسطوں پر مشتمل مضمون اب بھی بھٹکلیز کے سائٹ پر ٹی ایم سی دکانوں کا مسئلہ ......بھول کہاں ہوئی ؟!کے عنوان سے میرے کالم میں موجود ہے ، جس کسی کوبھی اس مسئلے کو سمجھنے میں دلچسپی ہو ، وہ ملاحظہ کرسکتا ہے۔
ہم نے سنہرا موقع گنوادیا تھا: میں نے اپنے اس مضمون کے اختتام میں یہ بات کہی تھی : "۔۔۔آپسی بھائی چارگی کو فروغ دینے کے لئے اس موقع کا استعمال کیا جاتا تو یقیناًآنے والے دنوں میں بھٹکل میں امن و امان بحال رکھنے کے لئے بڑی فائدہ مند بات ہوتی۔ پورے بازار میں اگر سو سے زائد دکاندار ہمار ے اخلاق و کردار اور مروت و رواداری کے مرہونِ منت ہو جاتے تو کوئی شک نہیں کہ یہ ہمارے لئے مستقبل کی بہت بڑی طاقت ہوتی۔۔۔مگر افسوس ہے کہ ہم نے یہ موقع ضائع کردیا۔عام غیر مسلم برادران وطن کو ہم یہ پیغام دینے میں ناکام رہ گئے کہ انسانی بنیادوں پر ان کے ساتھ برادرانہ اور خیر سگالی کے جذبات میں ہم واقعتا مخلص ہیں۔۔۔۔ ہم نے سنہرے موقع کو جانے انجانے میں گنوا دیا ہے۔ اورخدا نہ کرے کہ اس پس منظر میں مستقبل میں قیام امن کے لئے کی جانے والی جد وجہد کے دوران ہمیں اس بھول کا حساب چکانا پڑ جائے۔ میرا اپنا احساس بقول شاعر یہ ہے کہ:۔ "
کتنے موسم سر گرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں میں نے شاید دیر لگا دی ، خود سے باہر آنے میں
اور سنگھ پریوار نے یہ موقع اچک لیا!: آج بھٹکل کو درپیش تازہ حالات کو دیکھیں تو صاف ظاہرہورہا ہے کہ سنگھ پریوار نے یہ موقع اُچک لیا ہے۔ بھٹکل میں پورے جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی عید اور روایتی شان و شوکت کے ساتھ اداکی گئی رسمِ قربانی سے سنگھ پریوار کے ہنومانوں کے پیٹ میں مروڑ ہونا، سینے پر سانپ لوٹنا اور پونچھ میں آگ لگنا فطری بات تھی۔لیکن انتظامیہ اور پولیس نے جس طرح سے حالات کو سنبھالا تھااس کی وجہ سے انہیں زیادہ کھُل کرکھیلنے کا موقع نہیں مل رہا تھا ۔اس دوران بدقسمتی سے بلدیہ کی دکانوں کا وہی پرانا ایشو پھر تازہ ہوگیا۔ بلدیہ کی کارروائی حالانکہ قانونی تقاضے کے مطابق تھی، لیکن عملی نفاذ کی حکمت عملی میں کوتاہی ہوگئی اور ٹائمنگ بھی بھگوابریگیڈکے لئے مناسب ترین ثابت ہوئی۔جس کے نتیجے میں فسطائی لیڈران نے ہجوم کی قیادت سنبھالی اور زعفرانی جھنڈا لہراتے ہوئے اپنی سیاسی جنگ کا بگل بجادیا۔ فسطائی لیڈران کے شرانگیز بیانات: گزشتہ دو چار دن کے حالات پر نظر دوڑائیں تو دکھائی دیتاہے کہ سنگھ پریوار نے اس مسئلے کو ایسا موڑ دے دیا ہے کہ اب یہ بلدیہ کا ایک انتظامی اور قانونی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اسے براہ راست بھٹکلی مسلمان ، مدرسے، دہشت گردی اور تنظیم سے جوڑ دیا گیاہے۔ بجرنگ دل کے ایک لیڈر پی ایس پائی نے پریس کانفرنس میں مدرسوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ" یہ مدرسے بم بنانے کی فیکٹریاں ہیں۔ بھٹکل میونسپالٹی تنظیم کی کٹھ پتلی بن گئی ہے۔ ہندوؤں کو یہاں سے بھگانے کی سازش رچی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے بڑے بڑے دہشت گرد بھٹکل سے تعلق رکھتے ہیں اور ساری دنیا میں یہیں سے دہشت گردی پھیلائی جارہی ہے۔" ایک بات توصاف ہے کہ یہ کوئی نیا الزام اور نیا انکشاف نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو سنگھ پریوار کے ایجنڈے کے مطابق تیار کردہ اسکرپٹ کا حصہ ہے۔ مگر اس پریس کانفرنس کی خاص اور قابل ذکر بات یہ رہی کہ جب بجرنگی اور سنگھی لیڈران بھٹکل کے مسلمانوں اور تنظیم کے خلاف زہر اگل رہے تھے تو کا نگریس کا ہاتھ چھوڑ کر بی جے پی کا کنول پانے کے لئے دلدل میں اترنے والے سابق رکن اسمبلی جے ڈی نائک ان کی حمایت میں سر ہلارہے تھے۔اسے تو کسی کی احسان فراموشی کی انتہا ہی کہا جا سکتا ہے۔کیونکہ جے ڈی نائک وہی شخص ہے جسے تنظیم کی آوازپر پورے اسمبلی حلقے کے مسلمانوں نے مکمل حمایت دی تھی اور وہ ایوان اقتدار میں پہنچنے کے قابل ہوئے تھے۔یعنی یہ تو وہی بات ہوگئی کہ:ہمارے دوست عجب دوستی نبھا کے چلے جو گھر سنوارنے آتے تھے وہ گھر جلا کے چلے
شوبھا بھی پہنچ گئیں آگ لگانے کے لئے: اسی دوران نیا ڈیولپمنٹ یہ دیکھنے کو ملا کہ جنوبی کینرا میں پچھلے دو مہینوں تک فرقہ وارانہ آگ سلگائے رکھنے والے بھگوا بریگیڈ کی ایک خاص اورسرگرم رکن شوبھا کرندلاجے(سابق وزیر اور موجودہ ایم پی) بھٹکل پہنچ گئیں۔ اوراخباری کانفرنس کے دوران ہندوؤں کے خلاف مسلمانوں کی سازش کا مفروضہ بڑے زور وشور کے ساتھ پیش کرتے ہوئے ٹی ایم سی کی دکانوں کے مسئلے کوحسب توقع فرقہ وارانہ رنگ دیا۔ پولیس کو صاف الفاظ میں وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ وہ بی جے پی کارکنوں کو گرفتار تو کیا ہاتھ بھی لگانے کی کوشش نہ کریں۔سدارامیا کی کانگریسی حکومت پر مسلمانوں کو خوش کرنے اور ہندوؤں کو نقصان پہنچانے والی سیاست کا الزام لگایا۔ اور نوٹ کرنے والی بات یہ کہی کہ اب بی جے پی کے کارکنوں کی پشت پناہی کرنے اور ان کی ہمت بندھانے کے لئے وہ خود بھٹکل میں قیام کیا کریں گی۔ اور پولیس اگر بلدیہ عمارت پرسنگباری اور توڑ پھوڑ کے سلسلے میں داخل کیے گئے کیس کی بنیاد پر بی جے پی کے رضاکاروں کو گرفتار کرنے کی کوشش کرتی ہے تو وہ خوداس کے خلاف مورچہ سنبھالیں گی۔ ہمیں کم ازکم یہ تو کرناچاہیے تھا: جنوبی کینرا کے عوام جانتے ہیں کہ شوبھا نے سابق ریاستی وزیر کی حیثیت سے ہویا پھر اب رکن پارلیمان کے طور پر فسادی بیانات دینے اورلوگوں کے جذبات بھڑکانے کے سوا کوئی ایسا کام کبھی نہیں کیا ہے جو اس کے منصب کے مطابق اسے شوبھا دیتا ہو۔بھٹکل میں سنگھی لیڈروں کے مسلم مخالف، اشتعال انگیز بیانات اور تنظیم کی تصویر بگاڑنے والے بیانات کے تعلق سے عوام میں بہت ہی اضطراب ہے۔ان لوگوں پر قانونی مقدمات داخل کرنے کا مطالبہ مسلم عوام کے ہرطبقے کی طرف سے ہورہا ہے اور ہمارے مرکزی ادارے پر دباؤ بنایا جارہا ہے۔ شاید وہ اس سلسلے میں اقدام کر یں گے۔ مگر اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہمارے اپنے نمائندہ مرکزی ادارے کی طرف سے پریس میں اسی انداز کے جوابی بیانات شائع کیے جائیں۔ یہ میڈیا کی جنگ ہے اور اسی محاذ پر اسی لہجے اور دلیل کے ساتھ ہمارا کھل کر میدان میں آنا ضروری ہے۔ قانونی لڑائی برسہا برس تک چلتی رہتی ہے اور اس کے نتائج کی پروا ہ ان بھگوا لیڈروں کو نہیں ہے۔ کم ازکم اب تومیڈیا میں سینہ تان کر جوابی بیانات دینے اور الفاظ ا ور دلائل کو سنگھ پریوار کے ہی سکّوں میں لوٹانے کا سلسلہ ہمارے قائدین شروع کریں گے تو عوام کے ذہنوں سےسنگھیوں کا پھیلایا ہوا زہر کم کرنے میں مدد ضرورمل سکتی ہے۔ پولیس کا رویہ محتاط۔۔ مگر قابل ستائش !: بھٹکل کی موجودہ صورتحال میں پولیس کا رویہ محتاط رہا ہے اور اس کے لئے پولیس افسران کی ستائش کی جانی چاہیے۔ دیکھا گیا تھا کہ جس دن پولیس فورس کی موجودگی میں بلدیہ کی عمارت پر سنگ باری کرتے ہوئے ماحول کو کشیدہ کیا گیا تھا اس وقت شرپسندی پر آمادہ ہجوم کے خلاف پولیس کے محتاط رویے کو ہمارے نوجوانوں اور کچھ لیڈروں نے جانبداری اور نااہلی سے جوڑاتھا۔ لیکن اگر حقیقت پسندانہ نظروں سے دیکھیں تو ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ اس وقت پولیس کا احتیاط سے کام لینا عوام اور خاص کر مسلم طبقے کے حق میں ہی سود مند تھا۔ ورنہ پولیس کے لاٹھی چارج کرنے یا موقع پر بھگوا لیڈروں کو گرفتار کرنے پر شرپسندی پر آمادہ بھیڑ کوفرقہ وارانہ فساد پھیلانے کا موقع مل جاتا۔ اور اس کا انجام بہت خطرناک ہوجاتا کیونکہ ذراسی دوری پر مسلم نوجوان بھی حالات کا مشاہدہ کرنے کے لئے بڑی تعداد جمع ہوگئے تھے، اور بھگوابریگیڈ کے نوجوانوں کے ساتھ ان کا تصادم ہونا یقینی تھا!کہاجاسکتا ہے کہ پولیس کی دور اندیشی سے ایک خطرناک موڑ ٹل گیا۔ شوبھا میڈم کی وارننگ اور پولیس کی جرأت !: پولیس کے رویے سے متعلق میرے اس خیال کی تائید اس کارروائی سے ہوجاتی ہے جو دو دن بعد پولیس محکمہ نے شروع کی ہے۔ تقریبا70کے قریب افراد پر شرانگیزی کے لئے ایف آئی آر درج کرنے کے بعد چھاپے، تلاشی اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کردیاگیا ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ بی جے پی رضاکاروں کی گرفتاری روکنے اورگرفتاری جاری رکھنے پر برے نتائج کے لئے تیار رہنے کے لئے شوبھا کرندلاجے کی طرف سے براہ راست ڈی وائی ایس کو وارننگ دینے کے باوجود پولیس نے مزید تازہ گرفتاریاں کی گئی ہیں اور اس میں ہندوتوا بریگیڈ کے اس لیڈر کو بھی گرفتار کر لیاگیا ہے جس کانا م شوبھا نے خاص طور پرلیا اور کہا تھاکہ پولیس اسے ہاتھ لگانے کی بھی کوشش نہ کرے!لہٰذا اس موقع پر پولیس کی جرأت کو سلام کرنے کا حق تو بنتا ہی ہے! سیاسی جنگ میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکنے کے اشارے: بھٹکل کے حالات کا یہ موڑ حیران کن اس لئے ہے کہ یہ اننت کمار ہیگڈے کا حلقہ ہے ۔ یہاں بھگوابریگیڈ میں زیادہ تر اسی کے چیلے ہیں۔ ایسے میں اننت کمار کی بجائے شوبھا کا مورچہ سنبھالنا اپنے اندر بڑا اہم پیغام رکھتا ہے ۔یعنی مطلع صاف ہورہا ہے اور یہ آثار پوری طرح ظاہر ہورہے ہیں کہ اس بار کے اسمبلی الیکشن میں فسطائی ٹولہ پوری جارحیت کے ساتھ جیت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ آگ سلگانے اور پھر جلتی پر تیل کا کام کرنے کے لئے منصوبے ترتیب دئے جاچکے ہیں۔ہمارے اپنے علاقے اور شہر بھٹکل کے لئے اننت کمار جیساشمالی کینراکا ایک ایم پی اور وزیر ہی کیا کم تھا کہ اب جنوبی کینرا سے بھی آتش بیانی اور شرانگیزی کے ماہرین کو یہاں مدعو اور متعین کیا جارہا ہے۔ اس سے ہمیں سنگھی اور فسطائی عزائم کا اندازہ لگانا ہوگا۔اور ایسی حکمت عملی اپنانی ہوگی کہ شہر کا امن و امان بھی بحال رہے ، سیاسی طور پر غیر سنگھی امیدوار وں کو کامیابی بھی ملے اور فسطائی سازشیں ناکام بھی ہوجائیں۔ خوش گمانی اور مفروضے سے باہر نکلیں: اس کے لئے ہمارے سماجی و ملی قائدین کو روایتی سوچ اور خوش گمانی والے مفروضوں سے نکل کر زمینی حقائق کے پس منظر میں سیاسی اور سماجی لائحۂ عمل ترتیب دینا ہوگا۔اس میں سب سے پہلا قدم نوجوانوں کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے ان کے جذبات کو قابو میں رکھناہے اور کسی بھی حالت میں سنگھ پریوار کی اشتعال انگیزی سے متاثر ہونے سے اور کسی بھی نامناسب رد عمل کے اظہار سے باز رکھنا ہوگا۔کیونکہ سنگھ پریوار نے بارود اور چنگاریاں یکجا کرنے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ اس لئے ذراسی بھی بے احتیاطی اور لغزش شہر کے لئے بڑے نقصان او رخسارے کا سبب ہوسکتی ہے۔ اللہ کرے کہ آئندہ الیکشن تک کا زمانہ سکون و اطمینان سے گزر جائے اور پوری ریاست اور بالخصوص ہمارے اپنے شہرپراللہ کے فضل وکرم کا سایہ بنا رہے۔ اس لئے کہ :اب ایسا کوئی دن آتا نہیں جس دن کوئی قاتل بھنویں کھینچے نہیں آتا ، چھری تانے نہیں آتا نکل جاؤں گا میں ، تو شہر میں کہتے پھرو گے تم مری زلفِ پریشاں کوئی سلجھانے نہیں آتا
haneefshabab@gmail.com
********
(اس مضمون میں درج مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اس سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ)