انھیں بتاؤ کہ لہریں سمٹ نہیں سکتیں! یہ کون لوگ ہیں پانی پہ وار کرتے ہوئے؟

Bhatkallys

Published in - Other

12:41PM Sat 9 Jul, 2016
گزشتہ یکم جولائی کوڈھاکہ کے ایک ریسٹورینٹ میں رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعے کے مختلف پہلووں پرمیڈیا کے تبصروں اور تجزیوں کے بیچ ایک نئی بحث نے جنم لے لیا ہے۔ ابتدائی طورپرایک خبریہ آئی تھی کہ مذکورہ واقعے کوانجام دینے والے دہشت گردوں میں سے ایک نے2014میں بالی ووڈ کی معروف اداکارہ شردھاکپورسے ملاقات کی تھی اوراس نے اپنے فیس بک پیج پروہ فوٹوبھی شیئرکی تھی،جس میں وہ شردھاکپورکے ساتھ تھا۔ لیکن یہ خبر آئی گئی ہوگئی اور ظاہر سی بات ہے کہ اس کی وجہ سے کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ کسی بھی اعتبارسے ڈھاکہ سانحے سے شردھا کپورکاکوئی تعلق ہے۔ کیوں کہ وہ عالمی سطح پر ایک مشہورومعروف چہرہ ہیں اور ایسے لوگ جہاں جاتے ہیں،نوجوانوں کا ایک ہجوم ان کے گردجمع ہوجاتا ہے اور سب انھیں دیکھنے اوران سے ہاتھ ملانے یاایک آٹوگراف لینے کی جدوجہد کرتے ہیں،ایسے ہی لوگوں میں وہ دہشت گرد نوجوان بھی رہا ہوگا۔ٹھیک اسی طرح یہ خبربھی ہونی چاہیے تھی کہ ان پانچ شدت پسندوں میں سے ایک نے اپنے فیس بک پیج پرڈاکٹرذاکرنایک کا ایک بیان شیئرکیاتھا،جبکہ دوسراٹوئٹرپران کافالوورتھا؛کیوں کہ پوری دنیا میں کروڑوں لوگ ہیں، جو مختلف وجوہ سے ذاکر نایک کوپسند کرتے ہیں،ان کے بیانات سنتے اور دیکھتے ہیں۔ایک کروڑچالیس لاکھ سے زیادہ فیس بک اورایک کروڑسے زیادہ ٹوئٹرپر ان کے فالوور ز ہیں۔ اردو،بنگلہ،چینی اورانگریزی زبانوں میں چلنے والے ان کے ’پیس ٹی وی چینل‘کودنیا بھرمیں دوکروڑسے بھی زیادہ لوگ دیکھتے ہیں، لیکن ہمارے موجودہ ہندوستان میں،جبکہ جمہوریت کی کشتی تعصب کی پرہول لہروں کے بیچ ہچکولے کھارہی ہے،ایسی توقع نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ جوں ہی میڈیا کویہ پتہ چلاکہ ان پانچ مبینہ دہشت گردوں میں سے دوذاکرنایک کوجانتے تھے یا انھیں فالوکرتے تھے،تب سے میڈیا کے ذریعے سے ایک طوفانِ بدتمیزی برپاکردیا گیا ہے۔ ہر چہارجانب سے آوازیں آرہی ہیں کہ ذاکر نایک اور ان کے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن پر بین لگاناچاہیے ،ان کا پاسپورٹ ضبط کرنا چاہیے اوران کی ساری تبلیغی سرگرمیوں پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ ارنب گوسوامی جیسے زہریلے جرنلسٹ یہ بھرم پھیلانا چاہ رہے ہیں کہ ڈھاکہ ہی نہیں ،گزشتہ سالوں میں لندن، نیویارک، گلاسکواور ہندوستان کے ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے پسِ پشت بھی ذاکرنایک کی تقریروں اور ان کے بیانات کار فرما تھے،ہندوستان کی موجودہ حکومت جن عناصرسے مرکب ہے،وہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ سووہ بھلا کیوں پیچھے رہتی،سووزیر مملکت برائے امورِداخلہ کرن رجیجونے فوری طور پر بیان دیاکہ ہم ذاکر نایک کے خلاف ضرور ایکشن لیں گے۔ پھر یہ خبربھی آگئی کہ ذاکر نایک کی تقریروں کے ویڈیوزکی این آئی اے کے ذریعے تفتیش ہو رہی ہے۔ پورے ملک میں ایک ہنگامہ کھڑاکردیاگیا ہے۔ ذاکرنائک کوایک خطرناک وِلن کے روپ میں دیکھنے اور دکھانے کی جی توڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔ کہاجارہا ہے کہ ان کے شدت پسندانہ بیانات کی وجہ سے پانچ مغربی ممالک میں ان کے داخلے پربین ہے اورآئی ایس آئی ایس سمیت متعدد شدت پسند اداروں اور تنظیموں کے افراد ان کی تقریروں سے انسپائرڈ ہوکرتخریبی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ بی جے پی ،سنگھ اور انتہا پسند ہندوتنظیموں نے سینئرکانگریسی لیڈردگوجے سنگھ کوبھی گھیرنے کی کوشش کی کہ انھوں نے2012میں ذاکر نایک کے ذریعے منعقد کی گئی ایک کانفرنس میں ان کے ساتھ اسٹیج شیئرکیا تھا،اس پرردِعمل ظاہرکرتے ہوئے دگوجے سنگھ نے بھی الزامی جواب دیا،جوبالکل درست تھا کہ اگر ذاکرنایک کے ساتھ اسٹیج شیئرکرنے کی وجہ سے ان پر تنقید کی جانی چاہیے ،توپھرمالیگاؤں بم بلاسٹ کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سے ملنے کی وجہ سے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ پر کیوں نہیں سوال کھڑا کیاجائے؟اسی طرح آسارام جیسے خطرناک مجرم کے تئیں ہمدردی جتانے اوران سے ملنے کی وجہ سے مودی اور راجناتھ کوکیوں نہ موردِ عتاب بنایاجائے؟انھوں نے اپنے ٹوئٹراور فیس بک پیجزپرلکھا کہ سادھوی پرگیہ کا مالیگاؤں بم بلاسٹ میں ملوث ہونا توجگ ظاہر ہے،جبکہ ڈاکٹر ذاکرنایک کے خلاف اب تک کوئی ایسا کیس نہیں ہے۔ معروف صحافی راجدیپ سردیسائی نے بھی اس مسئلے کواٹھایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کا سنجیدہ ،باشعور اور عقل و فہم رکھنے والا طبقہ میڈیا کے ذریعے سے پھیلائے جانے والے اس غیراخلاقی و غیر انسانی بھرم کی وجہ سے محوِ حیرت ہے۔ سب سکتے میں ہیں کہ ایک ایسا شخص کسی دہشت گردگروپ یافرد کوکیسے برانگیختہ کر سکتا ہے،جوایک دونہیں ہزاروں باریہ کہتارہا ہے کہ اس کا مقصد ملک میں اور دنیامیں امن و سکون اور سلامتی کو فروغ دینا ہے اور اسی وجہ سے اس نے اپنے ٹی وی چینل کانام بھی’پیس ٹی وی‘رکھا ہے۔ اس کی تقریریں جولوگ سنتے ہیں،وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ذاکرنایک کی باتیں بالکل موجودہ عہد کے مطابق معقول اور معروضی ہوتی ہیں اوریہی وجہ ہے کہ اس کی تقریروں سے لوگ بہت جلد متاثرہوجاتے ہیں،وہ اپنی تبلیغی سرگرمیاں گزشتہ چھبیس سالوں سے انجام دے رہے ہیں اور ان کی کوئی بات،کوئی تحریر ،کوئی تقریریابیان ڈھکاچھپاہوا نہیں ہے،سب کے سامنے ہے۔ ان کی تقریباً ہر تقریرکی ویڈیوانٹرنیٹ،یوٹیوب پر موجود ہے اور اسے کوئی بھی بآسانی سن اور دیکھ سکتا ہے،ان کاہرپروگرام نہایت ہی منظم ہوتاہے اوراس میں ہر مسلم مسلک کے علاوہ دوسرے مذاہب کے بڑے بڑے مبلغ اور معروف مذہبی اشخاص شرکت کرتے رہے ہیں۔ شری شری روی شنکرسمیت متعدد شنکراچاریہ اور ہندودھرم کے گروان کے اجتماعات کا حصہ رہے ہیں،مغرب کے جن ملکوں نے ان کے داخلے پر پابندی لگائی،اس کی حقیقی وجہ یہ نہیں کہ وہ اپنی تقریروں میں کسی کودوسرے کے خلاف بھڑکاتے اور برانگیختہ کرتے تھے؛بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ سرکاری سطح پران ملکوں کواسلام کے غلبہ کا اندیشہ ہونے لگاتھا اور وہاں کے نوجوانوں کاایک بڑاطبقہ ذاکرنایک کی معقول گفتگوکا قائل ہونے لگا تھا۔ اگرمخالفین کویہ نظرآتاہے کہ پانچ ملکوں نے ان پر بین لگایا ہوا ہے،توانھیں یہ کیوں نظرنہیں آتا کہ دنیاکے دیگربیسیوں ملکوں نے،جن میں غیر مسلم ممالک بھی شامل ہیں،ان کا خیرمقدم کیا اور انھیں سرکاری اعزازواکرام سے نوازا ہے۔ انھیں بتاؤ کہ لہریں سمٹ نہیں سکتیں!۔ یہ کون لوگ ہیں پانی پہ وارکرتے ہوئے؟ اس قسم کی خبروں کوپھیلانے میں میڈیاکا رول نہایت ہی اہم ہوتاہے۔ آج دنیا پوری طرح سمٹ چکی ہے اورچند لمحوں میں ایک خبر کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ ایسے میں میڈیا اہلکاروں،تجزیہ کاروں اور نیوزچینلوں پر اینکرنگ کرنے والوں کی صحافتی ذمے داری ہے کہ کسی بھی خبر کومکمل غیر جانب داری اور حقیقت پسندی کے ساتھ چلائیں،اس کے سیاق وسباق کامکمل مطالعہ اور ریویوکرنے کے بعد اس کوعوام تک پہنچائیں۔ لیکن آج کے دورمیں میڈیا لوگوں تک خبریں کم پہنچاتا ہے،جبکہ لوگوں کے ذہن و فکرکوآلودہ کرنے کی مذموم کوشش زیادہ کرتا ہے۔ ہر میڈیاہاؤس،اخبار،نیوزچینل اور اس پر خبرپیش کرنے والے لوگ نظریاتی طورپرکسی نہ کسی ادارے،فکر اور نظریے سے وابستگی رکھتے ہیں اور یہ ایک فطری بات ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے ذریعے سے پیش کی جانے والی خبروں میں بھی راست یا بالواسطہ طورپراپنے نظریے کوہی فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں،ایسے میں حقیقت دورکہیں تاریکی میں جا پڑتی ہے اور عوام تک محض ایک افواہ حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہے۔ پھراسی خبرکے ذریعے سے لوگوں میں کسی انسان،ادارہ یا فکر ومذہب کے خلاف غم و غصہ کی لہر پیداہوتی ہے،جوبتدریج ایک عوامی شکل اختیار کرلیتی ہے۔حالیہ واقعے میں ڈاکٹرذاکرنایک کے خلاف سوچے سمجھے طریقے سے،سنگھی ادارے کے احکام و اشاروں کے مطابق ایک منظم سازش پلان کی جارہی ہے۔ خبرہے کہ آرایس ایس نے کم و بیش 200؍صحافتی اداروں کوذاکرنایک کے خلاف مہم جوئی میں لگادیا ہے اور یہ سب مل کر پوری قوت کے ساتھ یہ کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح ذاکر نایک کوبے دست و پا کردیاجائے،ان کی تبلیغی سرگرمیوں کوبند کردیا جائے اور سرکارذاکرنایک کوپابندِ سلال کردے۔اسی مقصدسے اسامہ بن لادن یا دہشت گردی کے تعلق سے ،باندی کے مسئلے پراورمسلم ممالک میں دوسرے مذاہب کی تبلیغ اور مذہبی عبادت گاہوں کی تعمیر کے تعلق سے ان کی متعددتقریروں کوسیاق و سباق سے ہٹاکراورکاٹ چھانٹ کرپیش کرنے کاایک مذموم لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ ہندوستان کے اکثریتی طبقے کاایک بڑاحصہ ایسی خبروں سے متاثرہورہا ہے اورسوشل میڈیاپرذاکرنایک اور مسلمانوں کے خلاف زہرناک ماحول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؛حالاں کہ یہی صحافتی ادارے اورافراد اس وقت اتنی دلچسپی اور سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کرتے جب یوگی آدتیہ ناتھ مسلم عورتوں کی آبروریزی کی بات کرتاہے،جب توگڑیا مسلمانوں کونیست ونابود کردینے کا عزم دہراتاہے،جب سادھوی پراچی،ساکشی مہراج ، سادھوی نرنجن جیوتی جیسے لوگ ہر روزکہیں نہ کہیں کھلے عام ہندوستانی مسلمانوں کوچیلنج کرتے رہتے ہیں،تب تو ان لوگوں کے خلاف میڈیا میں کوئی آوازنہیں اٹھائی جاتی،نہ سرکاران کی بے لگام زبانوں کو بند کرتی ہے ،کیایہی جمہوری ہندوستان ہے؟ مقامِ صدافسوس یہ ہے کہ جہاں مسلمانوں کے بیشترنمایندہ ادارے اور اشخاص اس تعلق سے اب تک پراسرارخاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں،وہیں مسلمانوں ہی کاایک طبقہ،جواپنے آپ کو’اہلِ سنت والجماعت‘کہتے نہیں تھکتا،وہ کھل کر ذاکرنایک کے خلاف موجودہ سرکاراور سنگھ کی ریشہ دوانیوں کی مہم کا حصہ بن رہاہے۔ ممبئی کے ایک بہت بڑے سنی ادارے سمیت کولکاتہ کی ٹیپوسلطان مسجد کے امام نورالرحمن برکتی،کلب جواد،عرفان میاں اور فرنگی محلی جیسے لوگوں کا یہ کہناکہ ذاکرنایک کے بیانات دہشت گردتیارکرتے ہیں اوراسے جیل میں ڈال دیناچاہیے،آخرکیا ظاہرکرتاہے؟ایک طرف ہر مسلک کے نمایندہ افراد اور ادارے یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کی ایک وجہ مسلکی انتشار و اختلاف ہے اور دوسری طرف جب بھی کوئی ایسا موقع آتاہے کہ کسی دوسرے مسلک کی کسی بڑی اور نمایاں شخصیت پر سرکاریا تفتیشی ادارے ہاتھ ڈالتے ہیں اور ناجائز طریقے سے انھیں پھنساناچاہتے ہیں تومحض مسلکی عناداوربغض کی وجہ سے دوسرے مسلک والے بغلیں بجانے لگتے ہیں اور انھیں خوشی ہوتی ہے۔ خدارا یہ رویہ ترک کیجیے!ورنہ کوئی بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں آپ کے مفکرینِ اسلام،حجۃ الاسلام، علّاموں اورپیرانِ طریقت بھی حکومت کے جبروظلم اورمیڈیاکے منفی پروپیگنڈوں کا شکارہوجائیں اور پھر اس وقت دوسرے مسلک و مکتبِ فکروالے تالیاں پیٹیں۔ کسی مخصوص ادارۂ فکر سے نظریاتی وابستگی ایک الگ بات ہے،فروعی مسائل کے باب میں ہمارے درمیان اختلاف ہوسکتاہے(ذاتی طورپرمجھے بھی ڈاکٹرذاکرنایک کے ہربیان اورنظریے سے قطعی اتفاق نہیں)؛لیکن کیا اس کی وجہ سے ہم حق اور انصاف کا دامن چھوڑدیں اورمتعصب سرکاراورسنگھیوں کی سازشوں کے جال میں پھنس کرخوداپنے کلمہ گوبھائیوں کے خلاف محاذآرائی کاحصہ بن جائیں؟ ابھی توموقع یہ ہے کہ پورے ملک کے پچیس کروڑمسلمان تمام تر مسالک و مکاتبِ فکراوران کے تمام بڑے چھوٹے نمایندوں سمیت ڈاکٹرذاکرنایک کے ساتھ کھڑے ہوں،سرکار،تفتیشی ایجنسیاں اور متعصب میڈیا کے بھدے چہرے کوبے نقاب کریں اور ملی وحدت و یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے حق اور انصاف کے لیے دوش بدوش ہوکرجدوجہد کریں ۔ نایاب حسن کی تحریر نوٹ: مضمون نگار ایک سینئر صحافی اورسیاسی وسماجی تجزیہ کار ہیں۔