برعظیم پاک و ہند میں 1857ء کے ناکام جہاد اور انگریزی تسلط کے قیام کے بعد احیائے دین اور آزادی کے لیے جو عظیم جدوجہد ہوئی ہے اس کا پہلا مرحلہ قدیم علمی و تحقیقی روایت کا اجرائے ثانیہ ہے۔ علی گڑھ، دیوبند اور ندوۃ العلماء اس جدوجہد کے سنگ ہائے میل ہیں۔ ان اساطین میں ایک اہم نام علامہ شبلی نعمانی کا ہے، جو 1857ء میں پیدا ہوئے اور 1914 میں رحلت فرما گئے۔ ان کے آخری منصوبوں میں ’’سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی اشاعت، علماء و مصنفین کی تربیت کے لیے ایک ادارے ’’دارالمصنفین‘‘ کا قیام اور علمی جریدے ’’معارف‘‘ کی اشاعت شامل تھے۔ علمی ادارے دارالمصنفین اور معارف کا نقشہ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ میں شائع کرایا۔ قبل اس کے کہ وہ اپنے خواب کو عملی صورت میں تشکیل ہوتا ہوا دیکھتے، اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیکن رحلت کے تین سال بعد21 نومبر1914ء کو شبلی کا خواب دارالمصنفین کی شکل میں شرمندۂ تعبیر ہوگیا۔ علامہ شبلی نعمانیؒ کے شاگردوں علامہ حمیدالدین فراہی ؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ نے اپنے دیگر ساتھیوں کی مدد سے اس بارِ گراں کو اپنے کندھوں پر اٹھایا۔ سیرت کی اشاعت ہوئی۔ جولائی 1916ء میں سید سلیمان ندویؒ کی ادارت میں ’’معارف‘‘ کا اجراء ہوا، جو آج تک تسلسل سے جاری ہے۔ معارف نے علمی جمود کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا، اس کے ذریعے مصنفین اور محققین کی ایک جماعت تیار ہوئی جس میں مولانا ابوالجلال ندویؒ کا اہم مقام ہے۔
شبلی کی رحلت، دارالمصنفین اور ’’ معارف‘‘ کے اجراء کے بعد 100برس گزر گئے ہیں۔ شبلی، دارالمصنفین اور معارف کی صدی تقریبات بھی منعقد ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں دارالمصنفین میں ’’معارف صدی تقریبات‘‘ کے سلسلے میں دارالمصنفین کے معماروں کے بارے میں بھی سیمینار منعقد ہوا، جس میں مولانا ابوالجلال ندویؒ کے بارے میں مولانا نعیم الدین اصلاحی نے مقالہ پیش کیا۔ مولانا نعیم الدین اصلاحی جامعۃ الفلاح بلیریا گنج اعظم گڑھ میں قرآنیات کے استاد اور شیخ التفسیر ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک بھارت میں مولانا مرحوم پر پڑھا جانے والا یہ پہلا مقالہ تاثراتی اور تعارفی نوعیت کا ہے۔ ہمیں یہ مقالہ لندن میں مقیم اسکالر اور مولانا صدر الدین اصلاحی کے صاحبزادے رضوان احمد فلاحی کے توسط سے موصول ہوا ہے، جس کے لیے ہم اُن کے شکر گزار ہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دارالمصنفین کے رفقاء اور اس کے علمی خدمت گزاروں میں ایک نہایت اہم نام مولانا ابوالجلال ندوی مرحوم و مغفور کا ہے۔ گو آپ کا قیام دارالمصنفین میں مختصر رہا۔ لیکن اس دوران ’معارف‘ میں آپ کے جو مقالات شائع ہوئے، وہ اتنے وقیع تھے کہ بڑے بڑے صاحبانِ علم و فضل کو حیرت میں ڈال دیا۔ ان کے بعض مضامین پڑھ کر ڈاکٹر حمیداللہ جیسا نامور محقق اور عالمی شہرت یافتہ دانشور، مدیر ’معارف‘ مولانا شاہ معین الدین ندوی کو پیرس سے خط لکھ کر ان کو اس طرح خراج تحسین پیش کرتا ہے: ’’دارالمصنفین کے علمی افق پر یہ کہاں سے درخشندہ ستارہ طلوع ہوا‘‘۔ (معارف نومبر 1984ئ)
موصوف دارالمصنفین میں اُس وقت تشریف لائے جب اس کی علمی قیادت و رہنمائی کی باگ ڈور علامہ شبلیؒ کے شاگردِ رشید مولانا سید سلیمان ندویؒ کے ہاتھوں میں تھی اور دارالمصنفین کی شہرت کا آفتاب نصف النہار پر تھا۔ مولانا سید صباح الدین صاحبؒ نے ان کی وفات پر تعزیتی تاثرات میں لکھا ہے: ’’ان کا آبائی وطن تو اعظم گڑھ ہی کا ایک گاؤں محی الدین پور تھا، تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء میں پائی۔ وہاں کے بڑے لائق اور ذی استعداد طلبہ میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی طرف حضرت استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندویؒ کی نظر اٹھی تو ان کو دارالمصنفین میں رفیق کی حیثیت سے بلایا اور یہاں وہ 1923ء سے 1928ء تک رہے‘‘۔ (معارف نومبر 1984ء صفحہ 391)
موصوف کی پیدائش اور ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا کلیم صفات اصلاحی نے لکھا ہے: ’’ان کی پیدائش 1891ء میں ان کے نانیہال چِرَیّا کوٹ میں ہوئی، ان کی بسم اللہ مولانا عنایت رسول چِرَیّاَکوٹی نے کرائی تھی‘‘۔ (دارالمصنفین کے سو سال۔ مطبوعہ شبلی اکیڈمی صفحہ 125)
مولانا موصوف دارالمصنفین میں دو مرتبہ آئے گئے۔ پہلی مرتبہ ان کا قیام 1923ء سے 1928ء تک رہا، دوسری مرتبہ غالباً دارالمصنفین میں مولانا کا قیام 1946ء سے 1951ء تک رہا، کیوں کہ ان کا آخری مقالہ 1951ء میں ’’ اصحاب الفیل کا واقعہ اور اس کی تاریخ‘‘ کے عنوان سے معارف (اکتوبر، نومبر 1951ئ) میں شائع ہوا۔
مولانا کو عربی، اردو، انگریزی، ہندی اور سنسکرت کے علاوہ عبرانی زبان میں کافی مہارت تھی۔ مخطوطہ شناسی ان کا خاص فن تھا۔ مولانا سید صباح الدین صاحب ان کے انتقال پر اپنی تعزیتی تحریر میں لکھتے ہیں:
’’ان کو کتبات پڑھنے میں غیر معمولی مہارت تھی، کتبہ کسی زبان کا اور کتنا ہی پیچیدہ اور گنجلک ہوتا اس کو ضرور پڑھ لیتے، اس سلسلے میں عبرانی اور دوسری زبانوں میں بھی دسترس حاصل کی، ان کے اس وصف پر لوگ متحیر رہتے اور اس وصف کی بناء پر وہ اس برصغیر میں کیا، پوری دنیا میں بڑا نام حاصل کرسکتے تھے، مگر نام و نمود کی فکر ان کو بالکل نہیں رہی۔ دنیا کے ہنگاموں سے دُور ایک گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر خود ہی اپنے علم و فضل سے لذت اٹھاتے رہے‘‘۔ (معارف نومبر 1984ء، وفیات)
مولانا کے دارالمصنفین میں قیام کی کُل مدت تقریباً گیارہ بارہ سال کی ہے، اس درمیان میں ’معارف‘ میں مختلف عنوانات کے تحت نہایت علمی اور تحقیقی مقالات شائع ہوئے جن میں مندرجہ ذیل عناوین کے تحت مقالات تو بہت ہی اہم ہیں:
-1 ذوالکفل، بکہ مبارکہ، الروم، حضرت ایوبؑ دو قسط، ہاروت ماروت اور عربی زبان کا فلسفہ لغت نہایت ہی اہم ہیں، بالخصوص آخری مقالہ تو نہایت ہی فلسفیانہ اور دقیق معلومات پر مشتمل ہے۔ اس فلسفیانہ لسانی مضمون کا خاتمہ اس طور پر کیا گیا ہے: ’’دنیا بھر کی زبانوں میں عربی ہی ایک زبان ہے جو اب تک تقاضائے فطرت کے مطابق ہے۔ عربی زبان کے الفاظ کا غائر مطالعہ کیا جائے تو انسان کی ادبی اور دماغی ترقیوں کی تدریجی رفتار کا غالباً بالکل صحیح نقشہ پیش کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (معارف ستمبر 1923ء، صفحہ 201)
قرآن عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔ ’’عربی مبین‘‘ کس کوکہتے ہیں؟ مولانا سے سنیے: ’’عربی، وہ عربی جس میں قرآن مجید اترا ہے، قدیم عربی نہیں، قرآن ’’عربی مبین‘‘ میں اترا ہے، عربی مبین قریش کی زبان کا نام ہے، یہ زبان قبائل مضر کی فصیح ترین زبانوں کے چیدہ الفاظ اور ترکیبوں کا مجموعہ ہے، چونکہ یہ زبان تمام قبائلِ عرب کی سمجھ میں وضاحت سے آجاتی تھی، اس لیے اس کا نام ’’مبین‘‘ تھا۔‘‘ (معارف ستمبر 1923ء، صفحہ 188)
زبانیں عالم وجود میں کس طرح آتی ہیں اور اس سلسلے میں علماء اسلام کی رائے کیا ہے؟ مولانا فرماتے ہیں:
’’پیدائش السنہ کی صورت میں اختلاف ہے، اشاعرہ کہتے ہیں کہ لفظ و معنی کا ربط انسان کو ابتداً وحی و توقیف کے ذریعے معلوم ہوا، معتزلہ کہتے ہیں کہ آوازیں پیدا کرنا انسان کو فطرۃً آیا اسی طرح، ادراک معانی کے قُویٰ ہم میں فطری طور پر موجود ہیں۔ معانی اور اصوات میں ربط انسان نے فرض و تسلیم اور وضع و اصطلاح کے طور قائم کیا۔
معتزلہ کا خیال تو بالکل ناقابلِ تسلیم ہے، کیوں کہ وضع و اصطلاح کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سے تخاطب اور تفاہم کے لیے کوئی زبان ہو، جس زمانہ میں کوئی زبان نہ تھی انسان نے تواضع کے لیے کس طرح ایک دوسرے کو مخاطب کیا؟ اشاعرہ کا مقدس خیال بھی خلافِ قیاس ہے، کیوں کہ زبان کو وحی والہام پر تقدم حاصل ہے، جیسا کہ ’’ وما ارسلنا من رسول الابلسان قومہ‘‘ (ابراہیم :4) میں اشارہ ہے‘‘۔
مولانا نے دیلمی کی ایک روایت کی بنیاد پر زبان کی اس گتھی کو اس طرح سلجھانے کی کوشش کی ہے، فرماتے ہیں: ’’دیلمی نے مسند فردوس میں روایت کیا ہے کہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میری امت مجھے آب و گل کی حالت میں دکھائی گئی اور آدم کی طرح اس کو بھی تمام اسماء کی تعلیم دی گئی، اس سے معلوم ہوا کہ خدا نے الہام طبعی کے ذریعہ انسان کو بولنا سکھایا، یعنی جبلی خصائص اور فطری قُویٰ میں سے بعض ایسے ہیں جن کے ماتحت ہم کو فطرۃً بولنا آیا اور جن نوامیس فطرت کے ماتحت ہم اپنی زبان سیکھتے ہیں انہیں کے ماتحت دنیا کی پہلی آبادی نے بولنا شروع کیا‘‘۔ (معارف ستمبر 1922ء، صفحہ 193)
لیکن مولانا کے صحیفہ فضل و کمال کانمایاں ترین باب ان کے قرآنی مقالات ہیں۔ ہاروت اور ماروت کے عنوان سے جو مقالہ انہوں نے لکھا ہے وہ ان کی قرآنی فکر کا آئینہ دار ہے۔ اس مقالہ کا آغاز ہی چونکا دینے والا ہے۔
-2 مقالہ کا پہلا جملہ ہے ’’ہاروت و ماروت فرشتے نہیں، لیکن چونکہ ان کی بابت خود قرآن میں ملکین کا لفظ وارد ہوا ہے اس لیے فرشتوں ہی کے ساتھ ان کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن مجید نے انہیں کیوں ملکین کے لفظ سے تعبیر کیا ہے؟
مولانا اس کا جواب اس طرح دیتے ہیں:
’’بعض وقت خود بولنے والے کسی لفظ کو اپنے عقیدہ اور تصور کے برخلاف مخاطب اور فریق بحث کے عقیدہ اور تصور کے مطابق بولتے ہیں، لغات میں ان کی نظیریں بہت ہیں، یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ مسیح مانتے تھے اور نہ رسول اللہ، مگر نزولِ قرآن کے ایام میں انہوں نے یہ کہہ کر ناز کیا تھا کہ ’’انا قتلنا المسیح عیسی بن مریم رسول اللّٰہ ‘‘ (النساء: 157) اسی طرح چونکہ یہود ہاروت اور ماروت کو الملکین کہتے تھے اس لیے قرآن میں بھی بطریق طنز ان کو الملکین کہا گیا ہے‘‘۔ (معارف اگست 1950ء صفحہ 111)
اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید میں ہاروت اور ماروت کو طنزاً فرشتے کہا گیا ہے لیکن مفسرین نے بہت سی ایسی روایتیں نقل کی ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ یہ دونوں واقعی فرشتے تھے۔ فرشتوں نے بنی آدم کی خطا کاریاں دیکھ کر خدا سے کہا کہ ہم ہوتے تو گناہ نہ ہوتے، خدا نے کہا اچھا اپنے درمیان سے دو کو امتحان کے لیے چنو، چنانچہ ہاروت اور ماروت چنے گئے اور یہ انسان بن کر زمین پر اترے اور ایک خوبصورت عورت پر ریجھ گئے، اس عورت کو انہوں نے اسم اعظم سکھانے کے بعد اس کے کہنے سے شراب پی، بت پوجا اور گناہ کیے، پھر اس نے ان کو تمتع کی اجازت دی، وہ عورت اس کے بعد اسم اعظم کے زور سے آسمان پر اڑ گئی، خدا نے اسے ستارہ زہرہ کی صورت میں مسخ کردیا۔ یہ قصہ نقل کرنے کے بعد مولانا ندویؒ لکھتے ہیں: ’’یہ ہے متعدد روایتوں کا مجموعی مفہوم، یہ تمام روایتیں سیوطی نے درمنثور میں نقل کی ہیں، ہم نے سب کا ملخص لے لیا ہے‘‘۔ اس کے بعد مولانا اس رائے پر اپنا تاثر اس طرح ظاہر فرماتے ہیں: ’’ قرآن کریم میں ہاروت اور ماروت پہ قصہ نہیں ہے اور نہ اسے بطور تفسیر ذکر کرنے کی آیت کا کوئی فقرہ اجازت دیتا ہے، البتہ چونکہ ہاروت اور ماروت کو طنزاً خدا نے دو فرشتے کہا ہے اس لیے طنز کو نہ سمجھنے والے روایت کے اس حصے کو قرآن کی تفسیر میں اس طرح شامل کردیتے ہیں کہ تھے تو وہ دونوں فرشتے ہی، مگر بعد میں کافر ہوگئے کیوں کہ انہوں نے ناز کیا کہ بنی آدم کی جگہ ہم ہوتے تو ہم سے یہ خطائیں نہ ہوتیں، اس لیے امتحان کی غرض سے خدا نے ان کو انسان بنا کر زمین میں اتارا اور وہ امتحان میں ناکام رہے‘‘۔ (معارف اگست1950ء، صفحات 115-114)
یہ افسانہ ہماری تفسیر کی کتابوں میںکیوں در آیا، اس کے سرچشمے کہاں ہیں؟ اس پر بڑی تفصیل سے مولانا نے روشنی ڈالی ہے جو تقریباً 4،5 صفحات پر مشتمل ہے جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
-1 ہاروت اور ماورت کا افسانہ مسلمانوں میں کعب احبار کے ذریعہ آیا۔
-2 کعب احبار یمنی اور مذہباً (اسلام لانے سے پہلے۔ نعیم) یہودی تھے، اور نصرانی لٹریچر سے بھی واقف تھے اور کسی حد تک متاثر تھے۔
-3 قدیم نصرانیوںکے خیال میں ایسے فرشتے بھی ہیں جنہوں نے گناہ کیا۔ اپنی اصل حالت پہ نہ رہے بلکہ اپنے مقام کو چھوڑ دیا۔
-4 اس افسانہ کے اندر ہاروت اور ماروت کے ایک عورت سے ملوث ہونے کا ذکر ہے۔
اس نہایت ہی اہم مقالے میں مولانا نے اپنے قلم کی خوب خوب جولانی دکھائی ہے اور آخر میں اپنی رائے اس طرح ظاہر فرمائی ہے:
’’ قرآن میں یقینا ہاروت اور ماروت کو طنزاً دو فرشتے کہا گیا ہے، لیکن یہ دونوں یہودی لٹریچر سے گھڑے ہوئے فرشتوں میں سے نہ تھے، کیوں کہ ان کے اسماء میں ان کے نام نہیں ملتے، یہ دونوں درحقیقت تاریخی اشخاص اور بابلی استادوں میں سے دو استاد تھے جن کو ان کے ماننے والے حسنِ اعتقاد کی بناء پر فرشتے کہتے تھے، قرآن نے طنزاً ان کو فرشتے کہا، ان کے معتقدین بھی ان کو حقیقی معنوں میں فرشتے نہیں کہتے تھے بلکہ اپنے گمان کے مطابق ان کے حسنِ سیرت اور تقدس کے سبب سے ان کو تشبیہاً اس طرح فرشتے کہتے تھے جس طرح زنانِ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کی بابت کہا تھا ’’ان ھذا الاملک کریم‘‘۔(یوسف: 31)
یہ مقالہ دو قسطوں پر مشتمل ہے، پہلی قسط کا عنوان ہے ’’تاریخ بابل‘‘۔ اس مقالہ کی اہمیت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ مولانا شاہ معین الدین ندویؒ نے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا ہے:
’’مولانا ابوالجلال ندوی اعلام القرآن کے نام سے جو کتاب لکھ رہے تھے افسوس ہے کہ وہ اس کی تکمیل نہ کرسکے۔ لیکن اس کے متفرق اجزاء لکھ گئے ہیں، ان میں سے بعض ’معارف‘ میں شائع بھی ہوچکے ہیں جن کو اہلِ علم نے بہت پسند کیا اور ان کو جاری رکھنے کی فرمائش کی، وقتاً فوقتاً اس کے مختلف ٹکڑے ہم شائع کرتے رہیں گے‘‘۔ (معارف جولائی 1950ء، صفحہ 36)
تاریخ بابل (سلسلہ اعلام القرآن) کے موضوع پر مقالہ میں ’’بابل کی وجۂ تسمیہ‘‘، ’’محلِ وقوع‘‘، ’’باشندگانِ بابل‘‘، ’’افسانوی تاریخ‘‘، ’’اثری تاریخ‘‘ کے ذیلی عناوین کے تحت تقریباً بارہ صفحات پر مشتمل نہایت محققانہ تحریر ہے۔ آخر میں لکھتے ہیں:
’’یہ ہے بابل کے اُس عہد تک کی مختصر تاریخ جس عہد کے بابل کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے۔ یہ نام بنو خدنصر، پھر بنو بخت نصر ہوکر عربی تاریخوں میں بخت نصر بن گیا ہے، اس بخت نصر کے زمانہ کی تاریخ بنی اسرائیل کی طرف خدا نے سورہ بنی اسرائیل کی پانچویں آیت میں اشارہ فرمایا ہے، بنو اسرائیل پر بخت نصر نے چڑھائی کی اور بہتوں کو گرفتار کرلیا اور لے جاکر بابل کی سرزمین میں ان کو قید کردیا، ایرانیوں کے زمانہ میں ان کو وطن آنے کی اجازت ملی، اسیری بابل کے زمانہ میں بنو اسرائیل نے وہ چیز سیکھی جس کی بابت قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے: یعلمون الناس السحر وما أنزل علی الملکین ببابل ہاروت و ماروت (سورہ بقرۃ: 102)
الروم: قرآنی مقالات میں ایک مقالہ الروم بھی ہے۔ سورہ کی ابتدائی آیات کے سلسلے میں مولانا ندوی نے عام مفسرین کی رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’قرآن کریم کی اس سورہ میں روم سے مراد بازنطینی فوج ہے جس کو 614ء میں ایرانیوں نے زبردست شکست دی تھی، امام زہری فرماتے ہیں کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ جب ایرانیوں کے مقابلے میں رومیوں کو شکست ہوئی تو مشرکوں نے مومنوں سے کہا:
’’تم لوگ خیال کرتے ہو کہ اس کتاب کی بدولت جو تمہارے نبی پر اتری ہے تم ہم پر غالب آجاؤ گے، روم کے لوگ بھی تمہاری طرح صاحبِ کتاب ہیں، اہلِ فارس نے ان پر فتح پالی، اسی طرح ہم بھی تم پر فتح پالیں گے۔ تب خدا نے وحی نازل فرمائی۔ (درمنثور بحوالہ بیہقی وغیرہ)
المo غلبت الروم o (روم: 2,1)
مولانا فرماتے ہیں ’’مفسرین کے نزدیک اس رنج و خوشی کا سبب یہ تھا کہ اہلِ روم چونکہ اہلِ کتاب تھے اس لیے مسلمان ان کے ہمدرد تھے، اور مشرکین اپنے جیسے باطل پرست مشرکوں کے ہم نوا تھے، ممکن ہے کہ رنج و خوشی کے متعدد اسباب میں اس واقعہ کو بھی دخل ہو، لیکن ان آیات کو دانیالی بشارت کی روشنی میں پڑھنے پر اس سورہ کا روئے سخن قریش سے زیادہ اہلِ کتاب کی طرف نظر آتا ہے جن کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کے لیے ایرانیوں پر رومیوں کی فتح کا انتظار تھا، یہی انتظار غلط ثابت ہورہا تھا اور اس پر مشرکین خوشیاں منا رہے تھے اور اہلِ کتاب جیسا کہ سورہ بقرہ میں ہے :
’’کانو من قبل یستفتحون علی الذین کفروا‘‘۔(بقرہ : 89)
کافروں پر فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے، لیکن ان کی دعائیں بظاہر ناکام ثابت ہورہی تھیں، اس لیے خدا نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور ان کو تسکین دی کہ خدا اپنے وعدہ کو ٹلنے نہیں دے گا ‘‘۔ (معارف جنوری 1949ئ)
حضرت دانیال کی بشارت کیا تھی؟ اس پر مولانا نے تقریباً تیرہ صفحات میں روشنی ڈالی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اہلِ کتاب کے مآخذ و مصادر پر مولانا ندوی پوری دستگاہ رکھتے تھے۔ مولانا بشارتوں کے مفصل تذکرے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:
’’ان بشارتوں کا سورہ روم سے تعلق سمجھنے سے پیشتر ایک بار تمام سنین کو پھر سے دماغ میں رکھ لینا چاہیے۔
1۔ 396ء قبل مسیح میں ہیکل سلیمانی 44کی دوبارہ تعمیر مکمل ہوئی۔
2۔ 34ء میں مسیح ۔ ۔ ۔ دنیا سے اٹھ گئے۔
3۔ 41ء میں مقررہ میعاد، توبہ و استغفار کی ختم ہوگئی۔
4۔ 70ء میں بیت المقدس دوبارہ مسمار ہوا۔
5۔ 190ء میں شاہ جنوب نے زور پکڑا۔
6۔ 550ء میں شاہ جنوب اور شاہ شمال کی جنگوں کا آخری سلسلہ شروع ہونا چاہیے تھا، مگر 540ء ہی سے شروع ہوگیا۔
7۔ 571ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے۔
8۔ 610ء میں ہرقل بادشاہِ روم ہوا، یہی وہ قیصر تھا جس کے حق میں بتایا گیا تھا کہ وہ شاہ جنوب کو شکست دے گا اور اس کے زمانے میں میکائل بڑا سردار ہوگا۔ 611ء میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا۔
9۔ 616ء۔ ۔ ۔ اس سال ہجرتِ حبشہ ثانیہ ہوئی، اس سال سے اہلِ کتاب قرآن کے مخاطب ہوئے، سورہ قصص میں چند اہلِ کتاب کے ایمان کا ذکر ہے، یہ تھی قدوشی قدوشیم کے انتظار کی آخری تاریخ۔
10۔ 628ء مطابق 6ھ و 7ھ آسمانی حکومت کے قائم ہونے کی تاریخ مقرر تھی۔ اسی سال صلح حدیبیہ ہوئی اور قیصر ہرقل نے ایران پر فتح کا جشن منایا۔
’’غلبہ روم‘‘ عنوان کے تحت مولانا لکھتے ہیں:
’’یہ آیت یوم بدر17رمضان 2ھ مطابق 14مارچ 624ء سے پورے سات برس پہلے 15مارچ 617ء میں نازل ہوئی۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ اس خبر سے کہ رومیوں کو ایرانیوں کے مقابلے میں شکست ہوئی، ساری دنیائے عیسائیت لرز اٹھی، کیوں کہ اہلِ ایران نہ صرف بطریقوں کو بلکہ صلیب مقدس کو بھی اٹھا لے گئے‘‘۔ (ہسٹورین ہسٹری آف دی ورلڈ، جلد 8، صفحہ 94)
اس غیر معمولی مقالے کا اختتام مولانا اس طرح کرتے ہیں:
’’حاصلِ کلام یہ ہے کہ سورہ روم کی ابتدائی آیتیں جن میں روم کا ذکر آیا ہے، حضرت دانیال کی بشارت سے جن لوگوں کا ایمان متزلزل ہوگیا تھا ان کی فہمائش کے لیے اور اہلِ ایمان کو تسکین دینے کے لیے اتریں، کہ دانیالی بشارت کا وہ جز بھی پورا ہوکے رہے گا جس کی بظاہر توقع نہیں معلوم ہوتی تھی، دانیالی بشارت کے پس منظر کو سامنے رکھ کر آیتوں کو پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے۔ مقصود تنزیلِ آیت کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و پیغمبری کا اور قرآنی آیت ’’یجدونہ مکتوبا عندھم فی التورۃ والانجیل‘‘ (الاعراف: 157) کے مضمون کا اثبات تھا لیکن آیتوں کو تدوین مصحف کے وقت ایسی آیتوں کے ساتھ ملا کر رکھا گیا کہ یہی آیت اثبات معاد کا ذریعہ بھی بن گئی۔ (معارف جنوری 1949ء صفحہ 26)
حضرت ایوب علیہ السلام
یہ مقالہ بھی ندوی صاحب کی تحقیق کا شاہکار ہے۔ اس عنوان کے تحت یہ مقالہ دو قسطوں میں شائع ہوا ہے اور ہر قسط ان کے فضل و کمال کا بیّن ثبوت ہے۔ قرآن کے انبیائی قصوں میں جو غیر معمولی اختصار نظر آتا ہے اس کو بالعموم مفسرین اسرائیلی روایات سے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مولانا کے نزدیک یہ رجحان مناسب نہیں ہے، لکھتے ہیں:
’’قرآنی قصوں میں جو خلائیں نظر آتی ہیں ان کو اسرائیلی روایات سے پُر کرنے میں بڑی خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس آیت میں حضرت ایوبؑ کا جو یہ قول مذکور ہے، ایک بار شیطان خدا کے دربار میں حاضر ہوا اور حضرت ایوبؑ کو آزمانے کی اجازت طلب کی، یہ قصہ بڑے بڑے صحابہ سے بھی مروی ہے، مگر اس کہانی کی بنیاد پر سفر ایوب ؑکے مقدمہ نویس کا خیال ہے کہ اس قصہ کو قرآن کی تفسیر قرار دے کر دہرانا ہرگز مناسب نہیں، کیوں کہ قرآن پاک میں خدا نے اس کو حذف ہی نہیں کیا ہے بلکہ اس کی مخالفت بھی کی ہے‘‘۔ (معارف ستمبر 1949ء صفحہ 189)
’’انی مسنی الشیطان بنصب وعذاب‘‘۔(ص:41)کی معروف توجیہ مسترد کرنے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ایوب ؑنے کیوں انی مسنی الشیطان کہا۔ مولانا فرماتے ہیں: ’’قرآن میں شیاطین صرف ابلیس اور اس کی ذریت ہی کا نام نہیں ہے۔ شیاطین الانس و الجن کے لفظ سے ظاہر ہے کہ شریر انسانوں کو بھی شیاطین کہا جاتا تھا ’’واذاخلو الی شیاطینھم‘‘میں لفظ شیاطین سے شریر الطبع افراد یہود کے مراد ہیں، عبرانی زبان میں شاطان کے معنی ہیں: دشمن۔ ہر دشمن اور مخالف کو شاطان کہا جاتا تھا، حضرت ایوب کے قول ’’انی مسنی الشیطان بِنُصب و عذاب‘‘ (ص: 41) میں الشیطان سے مراد ان کے زمانہ کا ایک شریر النفس انسان ہے جو ان کا دشمن تھا‘‘۔ (معارف ستمبر 1949ء، صفحہ 191)
سورہ ص میں حضرت ایوبؑ کی زبان میں مصیبت کے لیے دو لفظ استعمال ہوئے: نصب اور عذاب۔ ان کے معنی کیا ہیں؟ مولانا کہتے ہیں:
’’ نُصُبّ اور نَصَبّ مرادف ہم مادہ الفاظ ہیں، نصب کا لفظ سورہ فاطر میں لغوب کے ساتھ توبہ میں ظمأ و مخمصۃ کے درمیان وارد ہے۔ سورہ کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں سفر کی تکلیف کے معنی میں یہ لفظ آیا ہے۔ ان آیتوں سے ظاہر ہے کہ نصب نام ہے ایسی جسمانی تکلیف کا جو بھوک ہے، نہ پیاس ہے، نہ تکان ہے۔ سفر میں جو تکلیف بھوک، پیاس اور تکان کے علاوہ ہوتی ہے وہ بدن کا دُکھنا ہے۔ نصبکہہ کر حضرت ایوبؑ نے اپنی جسمانی اذیت کا ذکر کیا جس کا تذکرہ صاحب سفر ایوب نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ ’’مرض کی شدت سے میرا پیراہن اور طرح کا ہوگیا ہے‘‘۔
’’ عذاب‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عذاب کے معنی سب کو معلوم ہیں، عذاب کے لیے جسمانی ہونا ضروری نہیں ہے، روحانی صدمہ اور تکلیف کو بھی عذاب کہتے ہیں۔ حضرت ایوبؑ نے عذات کا ذکر کرکے اپنے اسی دکھ کا اظہار کیا ہے جس کا تذکرہ سفر ایوب کے ناظم نے یوں کیا ہے کہ حضرت ایوب نے کہا:
’’تُو نے میرا سارا خاندان برباد کردیا ہے، میرے رشتہ دار مجھ سے جدا ہوگئے ہیں‘‘۔
حضرت ایوبؑ کی اس فریاد کا جواب خدا نے زبانی نہیں دیا ہے فرمایا: ’’ووھبنا لہ اہلہ و مثلھم معھم رحمۃ منا وذکری لأ ولی الباب‘‘۔ (ص: 43)
’’ اُرْکُض بِرِجْلک‘‘ (ص: 43) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے حضرت ایوبؑ کو ایک مقام پر لے جاکر کہا: اس جگہ اپنے پاؤں سے ٹھوکر مارو۔ انہوں نے ٹھوکر ماری اور چشمہ نکل پڑا‘‘۔ (درمنثور بروایت ابن عساکر)
ظاہر ہے کہ یہ روایت اسرائیلی نہیں ہے، کیوں کہ صحت بخش چشمہ کا ذکر سفر ایوب کے بیان پر قرآن کا اصلاحی اضافہ ہے، یہ روایت دراصل ارکض برجلک کی قیاسی تفسیر ہے۔سورہ انبیاء میں ’’ اذاھم منھا یرکضون‘‘ کا فقرہ اسی معنی میں آیا ہے کہ نا گاہ بھاگنے لگے۔ ارکض برجلک کا صحیح ترجمہ یہ ہے: اپنے پاؤں سے دوڑ جاؤ۔ لیکن میں نے معروف ترجمہ اور تفسیر کو اپنے ذاتی خیال پر ترجیح دی ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ خدا نے ایک صحت بخش چشمہ تک سفر کرنے کا حکم دیا تھا‘‘۔(معارف ستمبر 1949ئ)
’’ وخذ بیدک ضغثا فاضرب بہ ولا تحنث‘‘ (ص: 44)
قدیم مفسرین کی رائے: مفسرین کی روایت کے مطابق اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی بی بی کو سو کوڑے مارنے کی قسم کھائی تھی، خدا نے اس قسم کو پورا کرنے کی ترکیب بتائی، سو تنکوں کی جھاڑو لے کر مارو۔ یہ روایت معقول نہیں ہے، یہ تو ایک حیلہ کی تعلیم ہوئی۔ صحیح بات یہ ہے کہ انہوں نے ایک خطا کی بنا پر اپنی عورت کو جھاڑو (ضغث) سے مارنے کی قسم کھائی تھی، خدا نے قسم پوری کرنے کا کوئی آسان حیلہ نہیں سکھایا بلکہ جو قسم انہوں نے کھائی تھی اسی کو پورا کرنے کی تاکید فرمائی‘‘۔ (معارف ستمبر1949ء صفحہ 196)
تفسیری مقالات میں ایک مقالہ اصحاب الفیل کا واقعہ بھی ہے۔ یہ مقالہ دو قسطوں میں شائع ہوا ہے۔ میرے سامنے اس کی صرف پہلی قسط ہے۔
یہ مقالہ سورۃ الفیل کی باقاعدہ تفسیر تو نہیں ہے البتہ اس کے تاریخی پہلو پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے۔ اس مقالے میں حسب ذیل نکات نہایت اہم ہیں: (1) سببِ نزول۔ (2) فیل کا معنی۔ (3) کید۔ (4) تضلیل وغیرہ۔ الفاظ کے معانی وہ بتاتے ہیں جو بالعموم مفسرین کے یہاں نہیں پائے جاتے۔ سب سے دلچسپ بات سبب نزول کے سلسلے میں لکھی ہے۔ اس سورہ کے سبب نزول پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا رقم طراز ہیں: ’’ ایک زمانہ تھا کہ بعض وہ لوگ بھی جو اسلام کو حق سمجھتے تھے اس کو قبول کرنے کو خطرہ خیال کرتے تھے۔ چنانچہ آغازِ اسلام کے دنوں میں ان کے چند افراد نے کہا : ’’ان نتبع الھدی معک نُتَخَطَّفْ من ارضنا‘‘ (سورہ قصص، آیت : 57) آپ کے ساتھ اگر ہم راہِ راست کا اتباع کریں گے تو ہم کو ہماری زمین سے اچک لیا جائے گا۔
ان لوگوں نے جب یہ بات عرض کی تو خدا نے ان میں جرأت ایمانی پیدا کرنے کی غرض سے ارشاد فرمایا: ’’الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل ۔ ۔ ۔ الی آخر السورۃ۔
لفظ ’’فیل‘‘ کے لسانی مآخذ پر اچھی روشنی ڈالی ہے، فرماتے ہیں: ’’فیل اور پیل ملتے جلتے اور ہم معنی الفاظ ہیں، عربی کا کوئی لفظ جب کبھی ایرانی سے ملتا جلتا ہے تو اکثر ائمہّ لغت جو زیادہ تر عجمی تھے، عربی لفظ کو فارسی لفظ کا معرب بنا دیتے ہیں، حالاں کہ معاملہ برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ فیل چونکہ عربوں کے لیے ایک بدیسی چیز ہے اس لیے اسے معرب بنانے والوں کے مابین مماثلت الفاظ کے علاوہ ایک بنائے استدلال موجود ہے۔ لیکن پیل ایرانیوں کے لیے بھی ممکن چیز نہیں ہے۔
ہاتھی کی اصل افریقہ یا ہندوستان ہے۔ پیل ہندوستانی یا آریائی لفظ نہیں ہے، غالباً حبشی لفظ ہے۔ حبشی زبان قحطانی، عربی اور قدیم افریقی زبانوں کا آمیزہ ہے۔ ہمارے خیال میں اشتقاق کی حیثیت سے فیل عربی الاصل لفظ ہے۔ اصحاب الفیل کے لقب سے خدا نے ایک حبشی فوج کا ذکر کیا ہے‘‘۔ (مقالہ اصحاب الفیل، اکتوبر 1951ء صفحات 247,246)
’’حملہ کی وجہ‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں:
’’عام روایتوں کے مطابق ابو یکسوم اور ابرہہ نے مکہ پر اس لیے چڑھائی کی تھی کہ ایک عرب نے یمن کے گرجے کو غلاظت سے گندہ کردیا تھا۔ یہ روایت ان اکاذیب میں سے ہے جس کو غالباً خود ابرہہ اور ابو یکسوم نے اس لیے شہرت دی تھی تاکہ نصرانیوں کی امداد حاصل ہوسکے، ورنہ اس کی توقع نہ تو عربوں کے اخلاق سے کی جاسکتی ہے اور نہ یہ تصورکیا جاسکتا ہے کہ یمن کا کلیسا ایسا ویرانہ تھا جس سے ایک عرب کو اسے گندہ کرنے کا موقع مل گیا‘‘۔ (مقالہ اصحاب الفیل، اکتوبر 1951ء، صفحہ 252)
لفظ ’’کید‘‘ کی لغوی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عربی میں ’’کید‘‘ زیادہ تر کسی کو مضرت اور نقصان پہنچانے کی خفیہ یا عسیر الفہم تدبیر کو کہتے ہیں، قرآن مجید میں بھی یہ لفظ زیادہ تر اسی معنی میں آیا ہے، لیکن ’’کید‘‘ کے معنی میں سے ایک مقابلہ اور مقاتلہ بھی ہے، چنانچہ قرآن میں ایک موقع پر ہے کہ قیامت کے دن مکذبین سے کہا جائے گا کہ:
’’فان کان لکم کید فکیدون‘‘(مراسلات:39) اگر تمہارے پاس قوتِ مقابلہ ہو تو میرا مقابلہ کرو۔ حضرت ہود علیہ السلام نے کہا ’’انی اشھد اللّہ و اشھدوا انی بریٔ ممّا تشرکونo من دونہ فکیدونی جمیعا ثم لا تنظرونo‘‘ (ہود:55) میں نے اللہ کو گواہ بنایا، تم بھی گواہ رہو، میں تمہارے شرک سے بری ہوں، تو تم سب میرے خلاف جو کچھ کرسکتے ہو کرو۔
عربی میں جنگ کو بھی کید کہتے ہیں: غزاولم یلق کیداً، جنگ کے لیے نکلا مگر مڈبھیڑ نہیں ہوئی۔ سورہ فیل میں کید کا لفظ جنگی تدبیروں کے لیے آیا ہے‘‘۔ (مقالہ اصحاب الفیل، اکتوبر 1951ء صفحات 255,254)
مولانا ندوی کے اس مقالے سے پتا چلتا ہے کہ مولانا نے علامہ فراہیؒ کی سورہ فیل کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اور کسی نہ کسی حد تک مولانا ندوی ان سے متاثر نظر آتے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ تو صاف لکھتے ہیں: ’’سورہ فیل میں ’’الم تر‘‘ فرما کر خدا نے کسی شخصِ معین سے نہیں بلکہ ہر اُس شخص سے خطاب کیا جس کو واقعہ فیل اچھی طرح معلوم تھا۔ علامہ فراہی ؒ نے سورہ فیل میں اس امر کو ناقابلِ تردید دلائل سے ثابت کیا ہے۔‘‘ (مقالہ اصحاب الفیل، اکتوبر1951ء، صفحہ 246)
چنانچہ اس موقع پر عبدالمطلب کی پُراثر دعا کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘۔ یہ حضرت عبدالمطلب کے دکھے ہوئے دل کی سچی پکار تھی اس لیے اس کو فوراً قبولیت حاصل ہوئی۔ اور خدائے قادر و توانا نے حضرت ابراہیمؑ کے معبد کا احترام قائم رکھنے کے لیے غیب سے سروسامان پیدا کردیا۔ عربوں نے اپنی ناتوانی اور حملہ آور کی مادی قوت کی بے پایانی کے احساس کے باوجود فیصلہ کیا کہ ابرہہ کی فوج پر پتھراؤ کیا جائے گا، نتیجہ کچھ برآمد ہو اپنا فرض تو ادا ہوجائے گا۔ (مقالہ اصحاب الفیل، اکتوبر 1951ء، صفحہ 262)
یہ ہے دارالمصنفین کے ایک مایہ ناز اسکالر کے قرآنی مقالات کا ہلکا سا تعارف۔ ان مقالات کے علاوہ مولانا کے دیگر قرآنی مقالات بھی نہایت اہم اور قرآنی علوم و معارف میں بیش بہا اضافہ ہیں۔
یہ معروضات کسی کی شخصیت کے جلال و جمال اور امتیاز و کمال کی تجلیات کا ایسا آئینہ دکھاتی ہیں کہ اس کے علم و آگہی کی فکری وسعتوں کے افق کی پہنائیاں اور بیکرانیاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں اور احساس و شعور کو ان علمی رفعتوں سے آشنائی ہوتی ہے جو دبستانِ شبلی کا خصوصی اور امتیازی وصف رہا ہے۔ یہاں یہ تکلیف دہ احساس دل کو نیشِ عقرب کی اذیتوں کی طرح بے تاب کردیتا ہے کہ ملت کے لیے افراد سازی کی کوششوں میں شبلی کے افکار و نظریات کو چنداں اہمیت نہیں دی گئی، ورنہ ملت کو مطلوبہ افراد کی کمی کا احساس ہرگز اذیتیں نہ پہنچاتا اور نہ جانے کتنے ابوالجلال ہمارے درمیان ہوتے۔ افسوس یہ ہے کہ ندوہ نے ان کے ثمرات و برکات سے مالامال ہونے کے باوجود ان سے اپنی آنکھیں پھیر لیں۔