اے نئے سال بتا تجھ میں نیاپن کیاہے ؟! ۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

04:45PM Mon 2 Jan, 2017
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  اس بارمیرا ارادہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی اخلاقی بے راہ روی اور منشیات کے استعمال پر کچھ لکھنے کا تھا۔ اس موضوع پر مواد جمع کرہی رہاتھا کہ دو باتیں ایسی ہوئیں جس سے مجھے اس کے بجائے 'نئے سال'کے موضوع کو ترجیح دینی پڑی۔ پہلی بات یہ تھی کہ نئے سال کا جشن منانے کے لئے شہر سے باہر جانے والے ہمارے نوجوانوں کو 31؍دسمبر کی شام ہی سے روکنے کا ذمہ بھٹکل مسلم یوتھ فیڈریشن کے فعال لیڈروں اپنے سر لیا۔ مساجد میں علمائے کرام نے تذکیر کے ذریعے نوجوانوں کو اس طرح کے لہو و لعب سے باز رہنے کی ترغیب دی۔ اور ایک اندازے کے مطابق خاصی بڑی تعداد میں ہمارے نوجوان امسال جشن سالِ نو کے نام ہونے والی عیاشیوں اور بدمستیوں سے دور رہے۔ جو یقیناًایک مستحسن بات کہی جاسکتی ہے۔ اس کی ستائش لازمی تھی۔ کوئی خوش ہوتا ہے تو ہونے دیجئے: دوسری بات جس نے مجھے نئے سال کے اس موضوع پر اظہار خیال کے ابھاراوہ ایک وہاٹس ایپ مسیج تھا۔ جو ہمارے ملک کے ایک بہت ہی بلند پایہ مفگر اور مقرر نے پوسٹ کیا تھا۔ موصوف دعوت دین حق کے سلسلے میں جو موثر کردار ادا کررہے ہیں اور جس قسم کی مدلل معلومات کا ذخیرہ ان کے پاس ہے ، اس کا ایک میں کیا ، زمانہ معترف ہے۔مگر موصوف کے اس مسیج نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ان کی شخصیت جوکہ ملک بھر میں اور خاص کرکے دین پسند نوجوانوں کے لئے قابل تقلید بلکہ ایک رول ماڈل کی سی ہے ، ان کے لئے اس مسیج سے کیا سگنل جانے والا ہے۔ مسیج کا متن تھا:"میں بھی سال نو کے جشن منانے کا قائل نہیں ہوں۔ مگریہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ اس کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے۔ پہلی جنوری عیسائیوں کا کوئی تہوار نہیں ہے۔ کسی پادری سے پوچھ لیں۔ یہ دراصل 700قبل مسیح سے چلا آرہا ہے۔یہ Gregorian Calenderکا پہلا دن۔ ہم بھی زندگی کے کم و بیش سارے معاملات اسی کیلنڈر کے مطابق نبھاتے ہیں۔ہمار ا date of birthہو، ہماری تنخواہ ہو، بچوں کے اسکول کے مشاغل ہوںیا شادی بیاہ، اس طرح کے سینکڑوں امور اسی کیلنڈر کے مطابق ہی کرتے ہیں۔ اگر اس نئے دن کوئی خوش رہنا چاہے تو اس سے مذہب پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔" اس کا مطلب یہ ہواکہ نوجوانوں کو یا عام مسلمانوں کو جشن سالِ نو منانے سے روکنا ضروری نہیں ہے ۔ اگر کسی کامن چاہے تو منالینے کی آزادی رہے۔ روک ٹوک جیسی بے جا دخل اندازی نہ کی جائے۔مگر میراذہن ا ور دل اسے قبول نہیں کررہاتھا۔ ؂

چند دن سے تھے نہایت پس وپیش میں ہم چپ ہی رہ جائیں کہ اظہار خیالات کریں پھر یہ سوچا کہ پس و پیش کا اب وقت نہیں ہم نشیں آ، ذرا دل کھول کے بات کریں

یہ بات بڑی عجیب لگی: میری نظریں اس مسیج کے تین پہلو دیکھ رہی ہیں۔ ایک یہ کہ سال نو کے جشن کا عیسائی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم اپنی زندگی کے تمام معاملات اسی گریگورین کیلنڈر کے حساب سے انجام دیتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ اگر اس دن کوئی خوشی اور جشن منانا چاہے تو منائے ، اس سے مذہب اسلام پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ جہاں تک دوسرے پہلو کا تعلق ہے یعنی اپنے معمولات میں گریگورین کیلنڈر کا استعمال ،تو اس پر اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، مگر اس پر تبصرہ ہوسکتا ہے ۔ اور اس پیغام کا پہلا معاملہ یعنی عیسائیت سے اس کاتعلق سمجھنے کے لئے ہم گریگورین کیلنڈر کی حقیقت اور اس سے پیشتر رائج رہنے والے دیگر کیلنڈروں کے حساب سے نئے سال کے آغاز کاان شا ء اللہ تفصیلی جائزہ لیں گے۔ جہاں تک اس مسیج کا تیسرا پہلو ہے اصل میں مجھے وہی بڑا عجیب محسوس ہوا۔ تعجب اس بات پر تھا کہ یہ اس شخصیت کا ایک سرسری تجزیہ یا تبصرہ ہے جو ہم سب کی نظر میں اپنے دقیع مطالعے ، ماضی او ر حال پر اپنی گہری نظر اور پورے کے پورے دین کو اپنی زندگی میں رائج و نافذ کرنے کا پیغام دینے والے ایک داعی اور مدبر کی حیثیت سے بڑے معتبر اور معزز ہیں۔اور ان کی باتوں کو بڑی سنجیدگی سے لیا اور قابل تقلید سمجھاجاتا ہے۔ کیا واقعی مذہب پر آنچ نہیں آئے گی !: چلئے پہلے ہم اسی پہلو سے جشن سالِ نو کا جائزہ لیتے ہیں کہ " اگر اس نئے دن کوئی خوش رہنا چاہے تو اس سے مذہب پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔"اس لئے کہ اس طرح کہنا نوجوانوں کے لئے ایک بہت ہی اپیل کرنے والی بات ہوگی بلکہ ایک لحاظ سے نئے سال کی آمد کا جشن منانے والوں کے لئے ایک کلین چٹ ہوگی کہ جی چاہے تو منالو، اس میں مذہبی نقطۂ نظر سے کوئی برائی نہیں ہے۔ چاہے کہنے والے کا حقیقی منشاء یہ نہیں رہا ہو۔ ایسے میں سب سے پہلا سوال ذہن میں یہ ابھرتا ہے کہ موجودہ دور میں نئے سال کا جشن کیا واقعی ایسی سادگی اور تہذیب و شائستگی سے منایا جاتا ہے کہ اسے صرف "خوش رہنے "کا نام دینا کافی ہے اور اس سے ہمارے دین پر کوئی آنچ نہیں آسکتی؟ میرے خیال سے خاص کو تو چھوڑیئے ایک عام آدمی کے طور پربھی ہر کسی کا جواب نفی میں ہوگا۔ بہت غور کرنے پر بھی میں موصوف کی اس دلیل سے اتفاق نہیں کرسکاکہ رائج فیشن کے طور پر نئے سال کی آمد کا جشن منانے میں ایسا کوئی برا پہلو نہیں ہے جس سے مذہب پر آنچ سکتی ہو۔ اور میرے دل سے آواز آئی ؂

ستم ہے ، اہل حرم ابھی تک مغالطے میں پڑے ہوئے ہیں وہ شیخ اس دور میں کہاں ہے ، جو بندۂ برہمن نہیں ہے

جشن سالِ نو میں کیا نہیں ہوتا!: دنیا کے ہر گاوں اور ہر شہر میں نئے سال کو پرجوش انداز اور ہنگامہ خیز طرز پر منانے کی وبا سے کون واقف نہیں ہے۔ یوروپین ممالک کو چھوڑیئے عرب ممالک اور خاص کر عرب ممالک میں پچھلے کچھ برسوں سے اس جشن کا اہتمام جس پیمانے پر ہوتا ہے اس نے یوروپین ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ ان ممالک میں صرف اہم ترین عمارتوں کی لائٹنگ اور آتش بازی جس انداز میں کی جاتی ہے اور کروڑوں روپے چندمنٹوں میں ضائع کیے جاتے ہیں اس پر غور کریں تو خون کے آنسو رونا پڑتا ہے۔امارات میں شاندار لائٹنگ کے ڈیزائین اور منصوبے کی ساری ذمہ داری یو نائٹیڈکنگ ڈم اور دوسرے مغربی ممالک کے ماہرین سنبھالتے ہیں اور کروڑوں روپوں سے ان کی جیبیں بھر دی جاتی ہیں۔ایک موقع پر امارات کی فلک بوس عمارت کو سجانے اورجشنِ سال نومنانے کے لئے 70,000ہزار ایل ای ڈی بلب اور4.5ٹن آتش بازی کا سامان استعمال کیا گیاجس کے لئے 200ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ اور یہ ساراکام ورلڈ ریکارڈ بنانے کے لئے کیا گیا تھا۔ذرا سوچئے کتنا خطیر سرمایہ ضائع کیا گیا ہوگا۔اسی طرح دنیا کے دیگر بڑے ملکوں اورشہروں میں بڑے تزک واحتشام کے ساتھ جشن منانے کے علاوہ طوفانِ بدتمیزی و بد کرداری مچانے میں سنگاپور، انڈونیشیا، تھائی لینڈ،ہندوستان کے عروس البلاد وغیرہ شامل ہیں۔جہاں جشن کے نام پرجس اہتمام سے رقص و سرور کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔بے حیائی اورفحاشی کا جس طرح کھلے عام مظاہرہ ہوتا ہے ۔شراب اور نشہ آوراشیاء کا جس طرح بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اس کے بارے میں بھلا کسے معلوم نہیں ہے! چھوٹے گاوں اور قصبے بھی لپیٹ میں: اب جدید زمانے کی روشنی اتنی عام ہوگئی ہے کہ شہر قصبہ، چھوٹا بڑا، عام خاص اور امیر غریب کا کوئی فرق باقی نہیں رہا کہ جس کو نیو ایئر نائٹ منانے کا شوق نہیں چراتا ہو۔ اس بخار میں سب سے زیادہ نوجوان اور طلباء مبتلا ہوتے ہیں جن کے لئے نیو ایئر نائٹ کا مطلب موج مستی ،بے تحاشہ شراب نوشی،اعلیٰ پیمانے کی نشیلی دواؤں(ڈرگس) کا استعمال ، جوئے بازی ، جنسی سرگرمیاں اور اسی قبیل کی دیگر عیاشی کرنا ہوتا ہے۔اور تمام رات عیش و طرب اور آوارگی کی نذر کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے اپنے شہر میں ہم نے اس وباء کے بد اثرات کو نہ صرف دیکھا ہے ، بلکہ بھگتا بھی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ امسال ہمارے ذمہ داران کے روکنے سے کافی پہلے کئی نوجوان نیو ایئر منانے کے لئے گوا اور دوسرے شہروں کا رخ کرچکے تھے۔ جو لوگ شہر میں موجود تھے وہ قریبی علاقوں میں رات کے وقت نکلنے والے تھے ۔لیکن بھٹکل مسلم یوتھ فیڈریشن کے ذمہ داران فہمائش اور منت و سماجت کے ساتھ الحمدللہ انہیں روکنے میں کامیاب ہوئے۔اس طرح ان کی زندگی کے کچھ قیمتی لمحے نئی تہذیبی غلاظت میں گزرنے سے بچ گئے۔ جب میں ہر سال نئے سال کا جشن منانے کے دوران رونما ہونے والے ناخوشگوار واقعات، حادثات ، قتل و غارت گری اور ایسے ہی دیگر المناک واقعات کی روشنی میں غور کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ سالِ نو کا جشن کا تعلق اگر عیسائی مذہبی تہوار کے طور پر نہیں بھی ہے ، تب بھی اس دوران شادمانی اور خوش فعلیوں کے نام پر ہونے والی بد اعمالیوں کے چلتے اسے ایک سادہ سی "خوشی"کہہ کر نظر انداز کرنا صحیح بات نہیں ہوگی۔ بلکہ جہاں تک بس میں ہو اپنی نوجوان نسل کو اس سے دور رکھنے کے جتن کیے جانے چاہئیں جیسا کہ بھٹکل مسلم یوتھ فیڈریشن نے کیا، اگر چہ کہ محدود پیمانے پر ہی سہی ! اللہ ذمہ داران کی اس کوشش کو قبول کرے اور جزائے خیر سے نوازے۔ آمین

مری غزل کو مری جاں فقط غزل نہ سمجھ اک آئینہ ہے جو ہر دم ترے مقابل ہے

(گریگورین کیلنڈر اور نئے سال کی حقیقت ۔۔۔۔ اگلی قسط ۔۔۔۔ملاحظہ فرمائیں)

haneefshabab@gmail.com

ضروری وضاحت:اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔