اب دوسروں کی ضرورت بن جائیے ۔۔۔ تحریر : ندیم صدیقی

Bhatkallys

Published in - Other

03:12PM Sat 23 Sep, 2017

سفر وسیلۂ ظفر، یہ کلمۂ احسن بڑابا معنی ہے کہ اور اس کی تعبیر بھی اتنی ہی بلیغ ہے۔ گزشتہ ہفتے ہم دہلی اور رُڑکی گئے پورا ہفتہ، سفر میں گزرا سفر کےلئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں زحمتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے مگر وہ فتح ہی کیا جس میں مشقت ا ور زحمت نہ ہو۔ اِنسان کی آنکھ اور دماغ رَوشن ہوں اور فضل ربی ساتھ ہو تو ہر جا اور ہر لمحہ اُس کیلئے ایک نوید ِمسرت و بصیرت بن سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں اسی کالم میں ہم نے تواتر سے زبان و ادب کے تعلق سے کچھ باتیں کی تھیں۔ سِکھوں کے ایک مرشد گزرے ہیں سنت درشن سنگھ جی، ان کی یاد میں دہلی کے کرپال باغ میں ہفتے بھر کا ہمہ جہت جشن منعقد ہوتا ہے۔ احقر پہلے بھی اس تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل کر چکا ہے مگر حالیہ سفر کے مشاہدات و تجربات میں ہم اپنے قارئین کو بھی شریک کرنا چاہیں گے۔ اس ہفت روزہ جشن کا آغاز طرحی مشاعرے سے ہوتا ہے۔ گروسنت درشن سنگھ جی خود ایک صاحبِ کتاب شاعر گزرے ہیں اور انہی کے دو مصرعے ،طرح بن جاتے ہیں۔ مشاعرے سے قبل آنجہانی گرو کی تقریر کے ٹیپ سے تمام حاضرین اپنے قلب و ذہن کو مجلا کر رہے تھے۔ اُنہوں نے دُنیا اور اسکی بے ثباتی پر نہایت منکسرانہ انداز کے ساتھ اپنے مریدوں سے خطاب کیا۔ اس دوران اُن کی زبان اور اُنکے لہجے، تلفظ اور مخرج نے ہمیں متوجہ ہی نہیں کیا بلکہ ان کے افکار ِ عالیہ پر غور و خوض پر بھی مجبور کیا۔ گروسنت درشن سنگھ جی موقع محل کی مناسبت سے جگر مرادآبادی اور لبھو رام جوشؔ کے اشعار اپنی تقریر میں پڑھ رہے تھے تو محسوس ہوا کہ جیسے ان کے خطاب میں اُردوئے معلیٰ روشن ہو رہی ہو۔ جس میں اُردو کے وہ الفاظ تھے جنہیں ہماری نئی نسل ہی نہیں ہمارے ہم عمر لوگ بھی مشکل گردانتے ہیں مگر ہمارا خیال ہے کہ یہ مشکل الفاظ صرف وہی ہیں جنہیں یا تو تغیر ِزمانہ کے ساتھ ہم فراموش کر چکے ہیں یا پھر ہم ان سے بے علم ہیں مگر جب یہی لفظ ہمیں یاد آتے ہیں یا ہماری سمجھ میں آجاتے ہیں تو وہ ہمارے لئے آسان بن جاتے ہیں۔ آنجہانی سنت درشن سنگھ جی نے کم از کم اس طرح کے نصف درجن الفاظ اپنی تقریر میں استعمال کیے۔ مثلاً کوتاہ نظری، بد گوئی، دریدہ دہنی، مزاجِ معلیٰ اور عوام الناس جیسے الفاظ اب شاذو نادر ہی سننے کو ملتے ہیں جبکہ یہ اور اس قبیل کی اصطلاحیں اُردو کی جان وشان ہیں۔ اُردو کی تاریخ اور اس کی عمر پر نگا ہ کیجیے تو ایک شکر اور رشک کی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ اتنی کم عمر زبان اور اس کے باوجود اس نےکیسے کیسےشہ پارے اور فنکار پیدا کر دِیے!! یہ اس زبان کی معجز صفتی دلیلِ روشن ہے۔سنت درشن سنگھ جی کی زبان اور انکے افکار صرف ان کے ہم مسلک افراد ہی کیلئے استفادے کی چیز نہیں تھے بلکہ وہ تو تمام انسانیت کیلئے ہمیں مفید محسوس ہوئے۔ ہم تو اس قول ِبلیغ کے قائل اور اسی پر مائل ہیں کہ علم ہی نہیں روشنی بھی جہاں سے ملے اس کے اخذو جذب میں چوکنا نہیں ورنہ یہ ایسا نقصان ہوگا کہ اس کے بعد صرف پچھتاوا ہی نصیب ہو گا مگر اس اخذ و جذب میں بھی اللہ کے فضل کے بغیر روشنی تو مل سکتی ہے مگر جسے عرفانِ تجلی کہتے ہیں وہ نصیب نہیں ہوتا۔ رُڑکی بھی ایک تاریخی ٹاؤن ہے حضرت علاؤ الدین المعروف مخدوم ِصابرؒ کی آخری آرام گاہ اسی رُڑکی سے چند کلو میٹرکے فاصلے پر کلئیر میں مرجعِ خلائق ہے۔ انگریزوں کی جاری کردہ وہ نہر بھی اسی رُڑکی سے گزرتی ہے جو کان پور تک کے عوام کو سیراب کرتی تھی اور اب دہلی کے شہریوں تک کی آبی ضروریات پوری کر رہی ہے۔ نہر میں برف کا پانی اور رُڑکی کی قدرتی فضا ایسی ہے کہ قدرت چاہے توبیمار سے بیمار شخص بھی چند ہفتے یہاں گزار لے تو صحتِ کلی کے ساتھ لوٹے۔ رُڑکی اپنی فوجی چھاؤنی اور تاریخی انجینئر ینگ کالج کے سبب بھی دُنیا بھر میں مشہور ہے، اب یہ کالج اپنے شعبے کا مثالی جامعہ بن چکا ہے۔ ہم ا س سے پہلے بھی ایک بار اِس منبعٔ فن و حکمت کی سیر کر چکے ہیں مگر اس بار جو لطف و روشنی ہمیں یہاں نصیب ہوئی وہ مثالی ہے کہ کئی باتیں سمجھ میں آئیں اور کتنے ہی دعووں کی دلیل ِروشن بھی نصیب ہوئی۔ کئی کلو میٹر کے احاطے میں پھیلی ہوئی یہ انجینئر ینگ یونی ورسٹی علم وحکمت کا بہتا ہوا ایک دریا نظر آئی ۔ وہ کہاوت بیساختہ لبوں پر آگئی: ’’ ہم تو بہتی گنگا ہیں جو چاہے ہم سے سیراب ہو جائے۔‘‘ بس ایک طلب اور جستجو شرط ہے۔ ہمارے لئے یہ درس گاہ یوں بھی دلچسپی کی باعث تھی کہ یہیں سے اُردو کے ایک شاعرو ادیب نے انجینئر ینگ کا درس لیا اور اپنے دیگر ادبی کارناموں کی طرح اس نے انجینئر ینگ کا بھی ایک ایسا کارنامہ انجام دِیا کہ جس پرتاریخ نے پھر اپنا دَر وا کر دِیا۔ بلوچستان کےایک دُشوار گزار پہاڑی علاقے میں ریلوے لائن کی تنصیب اُردو کے اسی شاعر و ادیب مرزا ہادی رُسواؔ کی مر ہونِ منت ہے۔ دُنیا اُسے امراؤ جان جیسے ایک ناول نگارہی کی حیثیت سے جانتی ہے مگراس کی طلب و جستجو کی روشنی ہم نے رُڑکی کی اس جامعہ میں ہر طرف اور ہرطرح محسوس کی اس وقت دُنیا بھر کے طلبہ یہاں مستفیض ہو رہے ہیں۔ انگریزوں کےزمانے میں وجودپانے والی اس درس گاہ میں چرچ اور مندر ہی نہیں باقاعدہ ایک مسجد بھی ہم نے دیکھی۔ کوئی بھی مرجعِ علم و حکمت مسلمانوں سے خالی نہیں ہو سکتا، ہم نے اپنے میزبان جو اِسی شہر سے نکلے اورایک دُنیا میں معروف و ممتاز شاعرہیں یعنی افضل منگلوری سے پوچھا کہ میاں ! یہ تو بتائیے کہ یہاں کے اساتذہ میں مسلمان بھی ہیں ؟ تواُنہوں نے جواب دینے کے بجائے یہیں اُستادوں کی ایک رہائش گاہ کے سامنے اپنا اسکوٹر روکا اور بنگلے کی گھنٹی بجائی۔ مختصر یہ کہ اس انجینئرینگ یونی ورسٹی کے ایک اُستاد ابصار احمد سے ہماری ملاقات کروائی۔ ابصار احمد مدتِ مدید سے یہاں درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں، ہم نے انہیں کسی طور شاکی نہیں پایا تو پوچھا کہ اس درس گاہ میں کیا آپ کے علاوہ بھی مسلم اساتذہ ہیں؟ تو اُن کا جواب تھا: ’’ ایک نہیں۔۔ کئی۔۔۔ ‘‘ ہم نے کہا کہ ہمارے لوگ تو سرکاری شعبوں میں تعصب کے شاکی رہتے ہیں۔ ابصار صاحب تبسم کے ساتھ گویا ہوئے: ’’ جناب! شکایت کرنے والے تو مسلم ممالک میں بھی ملتے ہیں معاملہ یوں ہے کہ آپ دوسروں کی ضرورت بن جا ئیے تو لو گ سَر آنکھوں پر آپ کو بٹھا نے پر مجبور ہوں گے۔!!‘‘ اسی رُڑکی کی وسیع و عریض جامع مسجد جو یہاں کے (محلّے) سوت میں واقع ہے اس کی از سرنو تعمیر نے بھی ہمارے قلب و نظر کو متوجہ کیا، اس مسجد سے مدرسہ ٔرحمانیہ بھی ملحق ہے اس کی بھی تعمیر و تجدید میں مولوی محمد ارشد کی خدمات قابلِ ذکر ہی نہیں بلکہ ستائش کا حق رکھتی ہیں۔ ہم نے جانا کہ اللہ اگر توفیق دے تو ۔۔۔ بیشک سفر وسیلۂ ظفر ہوتا ہے۔ ندیم صدیقی