حج کا سفر۔۔۔ حرم کعبہ میں(۲)۔۔۔ مفتی رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

09:15PM Sat 10 Jun, 2023

یہاں بہت سے حضرات و احباب مل گئے جو ہوائی جہاز سے آگئے تھے ‏، شیخ ظہیر حسین (ركاب گنج) سید اكرام الحق (لاٹوش روڈ) سعید الظفر ‏، چودھری عظیم الدین اشرف (پیار ‏، بارہ بنكی ) مولانا مفتی محمد عتیق فرنگی محلی ‏، مولانا محمد میاں فاروقی الہ آبادی ‏، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی‏، مولانا محمد منظور نعمانی اور بہت سے حضرات ‏، ہمیں مولانا علی میاں كے پاس فوراً جانا تھا كہ ان سے شیخ التبلیغ مولانا محمد یوسف مرحوم كی تعزیت كریں ‏، معلوم ہوا وہ بہت ہی قریب فندق عرفات میں مقیم ہیں ‏، یہ ہمارے ایك دوست مولانا عبداللہ العباس ندوی كی قیام گاہ تھی ‏، انہیں كے مہمان علی میاں اور منظور صاحب تھے ‏، یہ دس منزلہ عمارت تھی ‏، پانچویں منزل میں ایك فلیٹ عباس صاحب كے پاس تھا ‏، وہ یہاں رابطہٴ عالم اسلامی میں ملازم ہیں اور مع اہل وعیال مقیم ہیں ۔

علی میاں سے ملاقات كے بعد ہمیں اپنی قیام گاہ كی اہمیت كا اندازہ ہوا ‏، علی میاں كی قیام گاہ والی عمارت دس منزلہ تھی جس میں چار لفٹ آنے جانے كے لیے لگے ہوئے تھے ‏، دس منزلوں میں ملاكر كئی سو حاجی ٹھہرے ہوئے تھے ‏، ان میں لكھنوٴ كے حاجی فقیر محمد صاحب بھی تھے ‏، سعید الظفر اور ان كے چھوٹے بھائی رشید الظفر بھی ‏۔

ان سب كی مصیبت یہ تھی كہ نماز كے اوقات میں جب سب حاجی حرم جانے كے لیے نكلتے تھے ‏، تو لفٹ پر ایك لمبی قطار بن جاتی تھی ‏، كم و بیش آدھ گھنٹہ ہرایك كو نیچے اترنے میں لگتا تھا ‏، اس كا مطلب یہ كہ نماز كے لیے ان كی تیاریاں كم از كم ایك گھنٹہ پہلے شروع ہوجاتی تھیں ‏، پھر بھی اندیشہ رہتا تھا كہ اگر قطار میں ایسی جگہ ملی كہ سب سے آخر میں اترے اور حرم شریف تك جاتے جاتے نماز ہوگئی تو ؟

پھر یہاں كے فلیٹ ایك ایك ہزار ریال اور بارہ ‏، بارہ سوریال پر ایك مہینے كے لیے حاجی صاحب  اور سعید الظفر وغیرہ نے لیے تھے ‏، اتناں گراں كرایہ پھر جماعت رہ جانے كا اندیشہ مزید ۔

ہماری قیام گا ہ بوہرہ رباط بہترین ثابت ہوئی ‏، دو منزلہ ہوسٹل نما عمارت اذان كی آواز سنی ‏، وضو كیا ‏، جانماز گردن سے لپیٹی ‏، یا كندھے پر ڈالی  اور تین منٹ میں حرم شریف كے اندر پہونچ گئے ۔

اور احباب كرائے كے قدیم مكانات میں تھے ‏، حرم شریف سے قریب مكانوں كاكرایہ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے ‏، پھر بھی قدیم مكانوں كا كرایہ تین چار سو ریال سے زیادہ شاید كسی نے نہیں دیا ‏، مگر بارہ ‏، بارہ سو ریال كے فلیٹ سے زیادہ آسانی حرم میں پہونچنے كی انہیں حاصل رہی ۔

مولانا محمدمنظور نعمانی جن كا شاید یہ تیسرا ‏، چوتھا حج تھا كہنے لگے جس تیزی سے پرانے مكانات كھدرہے ہیں اور ان كی جگہ نئی كئی كئی منزلہ عمارتیں بن رہی ہیں اس سے اندازہ كیاجاسكتا ہے كہ آئندہ چند برسوں میں غریب حاجیوں كے لیے قیام كی كتنی مشكل ہوجائے گی ۔ ظاہر ہے جب نئی اور جدید ضروریات پوری كرنے والی عمارتیں ہوں گی ‏، تو ان كے كرائے بھی لمبے ہوں گے ‏، عام حاجی كی حیثیت سے باہر ۔

مرزا غالب نے نہ معلوم كس كیفیت اور كس نفسیاتی كش مكش سے مجبور ہوكر كہا تھا ‏:۔

ایماں مجھے روكے ہے ‏، جوكھینچے ہے مجھے كفر

كعبہ مرے پیچھے ہے ‏، كلیسا مرے آگے

حدودِ حرم میں پہنچ كر اور مغربی ملكوں كے تمام كلیسائی انداز كو اپنے چاروں طرف دیكھ كر یہ شعر ایك طرح سے واقعاتی كش مكش كا آئینہ دار بن گیا ۔

ایك رات قبل مكہ معظمہ پہنچ كر فوراً ہی عمرے كے لیے جب خانہ كعبہ كی زیارت كی تھی ‏، تو اس زیارت كی حیثیت بلاشبہ صرف رونمائی كی تھی اس حالت میں كہ دیدار كا حق آنكھوں سے ادا نہ ہو پایا :۔

اللہ ‏، اللہ ترے آتے ہی اشكوں كا ہجوم

حسرت دید بھی مشكل سے نكل پائی ہے

رونمائی كعبہ كے بعد واپس ہوئے ‏، تو آٹھ دس‏، دن كے بعد پہلی رات آرام سے سونے كو ملی تھی ‏، تھكے تھكائے تھےہی ‏، رات گئے جو سوئے تو دن چڑھے اٹھنا نصیب ہوا ‏، صاف لفظوں میں یہ كہ پانچوں وقت جو یہ كہ كر نماز كی نیت باندھا كرے كہ منہ میرا طرف كعبہ شریف كے ‏، وہ آج مجسم ہوكر كعبہ شریف كا سامنا كرنے كی سعادت سےبہرہ ور ہے مگر پہلی ہی نماز فجر نہ صرف یہ كہ حضوری كعبہ میں جماعت سے ادا نہ ہوپائی بلكہ سرے سے قضا ہی ہوگئی۔

دیر ہی سے اٹھے تھے ‏، مگر كھانے پینے كے انتظامات كی طرف توجہ كرنا تو بہر حال لازمی تھا ‏، بوہرہ رباط میں جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے دونوں وقت ضیافت بھی رباط كے منتظمین كی طرف سے ہوتی ہے ‏، ہم نے اور ہماری طرح كے دوسرے غیربوہرہ ‘‘مقیمانِ رباط’’ نے اس حد تك اپنا بار ڈالنا گوارا نہ كیا اور ہمارے ایسوں  نےبہ لطائف الحیل منتظمین كی اس پیش كش كو كہ دونوں وقت كتنے آدمیوں كا كھانا بھیجا جائے قبول كرنے سے معذرت چاہ لی ‏، اتفاق سے معذرت كی مجال كا فی وسیع تھی ‏، بوہرہ فرقے كے جو ایك ہزار سے زیادہ حاجی وہاِں ٹھہرے ہوئے تھے وہ سب گجرات كے تھے ‏، ان كا ذوق ہمارے مذاق سے یكسر مختلف ‏، پھر ان كے یہاں دووقت كھانا 9 بجے صبح اور 5 ‏، 6 بجے شام كو (ہماری گھڑی كے اعتبارسے ) ہوتا تھا ‏، جو ہمارے معمول اور عادت كے بالكل برعكس تھا ۔

راشن ہم اپنے ملك سے لائے تھے ‏، دالیں ‏، گیہوں ‏، چاول اور شكر فی كس معتد بہ مقدار میں ‏، اندازہ ہوا كہ جہاں تك ہمارا تعلق ہے یہ بے جازحمت  ہم نے برداشت كی ‏، گیہوں كو آٹا كرانا یہاں جوئے شیر لانے سے كم نہ تھا ‏، پھر یہ چپاتیاں كھانے كے لیے پورا باورچی خانہ كون چالو كرسكتا تھا۔

پہلامرحلہ صبح كی چائے ناشتے كا تھا ‏، ہم گویا بیچ بازار میں ٹھہرے ہوئے تھے ‏، متین میاں لپك كر بازار گئے ‏، چائے كا بنڈل منجمد دودھ كے ڈبے ‏، انڈے ‏، نان پاؤ قسم كی روٹی وغیرہ خرید لائے ‏، اسٹووا ‏، مٹی كے تیل كا چولہا بھی خریدا جاچكا تھا ‏، اپنی قیام گاہ كے كمرے میں جو دو حصوں اور غسل خانے پر مشتمل تھا ‏، ناشتہ ہماری ممانی ے ان برتنوں میں تیار كرلیا  جنہیں وہ اپنے ساتھ بڑے اہتمام سے لائی تھیں ‏، طے پایا كہ اسی وقت دوپہر كے كھانے كا انتظام بھی ہوجائے ‏، كچھ تركاری (ہری قسم كی تركاری وہاں بہ آسانی مل رہی تھی ) چاول اور دال پك جائے ‏، روٹیاں بازار سے آجائیں گی ‏، پھر یہی معمول مكہ معظمہ كے قیام كے دوران رہا ‏برابر ‏، كوئی چاہے تو پكا پكایا ہندوستانی كھانا بھی دو ریال فی كس دیكر ہندوستانی ‏، پاكستانی ہوٹلوں سے منگا سكتا ہے ‏، روٹی (چپاتی ) دال ‏، سالن ‏، چاول وغیرہ ؛ لیكن ہمیں خاص كر عربی گوشت سے كچھ احتیاط مد نظر تھی ‏، پرانی پیچش كے مریض كے لیے یہ پرہیز ناگزیر ہے ‏، اونٹ كا گوشت شاید پیچش زدہ آنتیں گراں سمجھیں گی اور بكری وغیرہ كا گوشت یہاں عام طور پر مسہل سمجھاجاتا ہے یعنی پتلی اجابتیں ہونے لگتی ہیں ‏، وجہ یہ بتائی جاتی ہے كہ دست آور یونانی دواسنا كی پتیاں یہاں كی بكریاں كھاتی رہتی ہیں ہمارے یہاں شدید قبض میں برگِ سنا دی جاتی ہے ‏، اگر ایسے گوشت كو ہم استعمال كرتے ‏، تو اندیشہ تھا كہ اسہال میں مبتلا نہ ہوجائیں ۔

كھانے كے انتظامات سے یكسو ہوكر اب زیارت خانہ ٴ كعبہ كے لیے جانا تھا ‏، احرام میں نہیں اپنے عام لباس میں تیار ہوكر اس طرف چلے جس طرف پانچ وقت منہ كرنے كا حكم ہے ‏، ہماری گھڑی سے نو بجے دن كا وقت ہوگا ‏، یہ كسی نماز كا وقت نہ تھا ؛ اس لیے حرم میں كوئی خاص ہجوم بھي نہ تھا ‏، دھوپ تیز ہوچكی تھی ‏، پھر بھی طوافِ كعبہ كا سلسلہ اسی دھوپ میں جاری تھا۔

یہ عجیب بات سننے میں آئی كہ دن رات كے 24 گھنٹے میں ایك منٹ بھی ایسا نہیں گزرتا جب خانہٴ كعبہ طواف كرنے والوں سے خالی ہو اور پورے سال بھر كے لیے یہ دعویٰ ہے ‏، ہمیں سال بھرنے رہنے كی توفیق كہاں نصیب كہ اس دعویٰ كو مشاہدے سے ہم آہنگ بنالیتے ‏، جتنے دن جوارِ كعبہ میں رہے ایك وقت بھی (اور ہروقت جاكر دیكھ لیا) طواف كرنے والوں سے كعبہ كو خالی نہ پایا ‏، بہتوں كو تو لگاتار طواف كرتے دیكھا ہے ‏، دنیا و مافیہا سے بے خبر بس دیوانہ وار گھوم رہے ہیں :۔

احرام حریم آں نہ بندد

جز درد كشاں لاابالی

یہ لاابالی پن طواف كرنے میں ایسا طاری ہوتا ہے كہ اپنی رو میں پھر شاہ و گدا كسی كو نہیں سمجھتے خاص كروہ معذور اور ضعیف طواف كرنے والے جو اپنے پیروں سے نہیں بلكہ كھٹولے پر  بیٹھ كر كرایہ كے مزدوروں كے ذریعہ طواف كرتے ہیں ‏،  یہ طواف كرانے والے بدو شی شی كہتے (یعنی ہٹو ‏، بچو ) كہتے ‏، كھٹولہ سر پر لیے اس زور سے گزرتے ہیں كہ مضبوط سے مضبوط مجمع كی دیوار  كا ئی كی طرح پھٹ جاتی ہے ۔

بڑی مشكل اس وقت ہوتی ہے جب ایك مطوف كے ساتھ پورا ایك گروہ فریضہٴ طواف اداكرنے كے لیے حاضر ہوتا ہے ‏، مطوف زور زور سے دعا پڑھتا ہے اور اس كو پورا گروہ دہراتا ہے ‏، اب اگر كھٹولے بازوں كی دخل اندازی سے گررہ تتر بتر ہوگیا ‏، تو پھر اس كا یك جا ہونا كارے دارد ۔

ہم پانچ نفر : امی ‏، پھوپھو جان‏، ممانی ‏، متین میاں اور میں ہربار یہ تہیہ كركے طواف شروع كرتے تھے كہ ہم دو مرد تینوں خواتین كو الگ نہ ہونے دیں مگر قسم لے لیجئے جو ایك بار بھی تہیہ پورا كر پائے ہوں ‏، اتنا ضرور ہوا كہ امی كا ہاتھ ہم نے اور پھوپھو جان كا برقعہ انہوں نے اكثر وبیشتر نہیں چھوڑا پھر بھی ‘‘اكثر وبیشتر’’ ہم كامیاب نہ ہو پائے ۔

نو بجے دن كو تیز دھوپ میں بھی طواف ہورہا تھا ‏، ہم نے بھی ایك آدھ دفعہ ریگستانی تمازت جھیل لی ‏، پھر طواف كا وقت سہ پہر كے بعد سے رات گئے تك مقرر كرلیا ‏، باقی وقت حاضری حرم میں قرآن شریف پڑھنا جو ہزاروں كی تعداد میں وہاں موجود رہتے ہیں ‏، سب سے سہل عبادت ہے ‏، یا پھر سائے میں بیٹھ كر ٹكٹكی لگائے جمال كعبہ كو دیكھتا ؛ اس لیے كہ یہ بھی منجملہ عبادات ہے ۔

لیكن یہ باقی وقت كی خوب رہی ‏، نماز پنجگانہ كے اوقات ہی میں پابندی كے ساتھ حرم میں حاضری نصیب ہوجائے ‏، تو غنیمت ہے !! ورنہ كشش اور دل آویزی سای كی ساری تو مكہ ولائتی مال سے بھرے ہوئے بازاروں میں دھری تھی ‏، دن كو بازار میں گھومنے كے لیے ایك چھتری ہاتھ میں اور حسبِ حیثیت ریال جیب میں ہونا كافی ہے ‏، پھر دھوپ بھی نہیں ستائے گی ‏، كیا آپ خریدنا چاہتے ہیں جو آپ كو یہاں نہیں مل سكتا ؟؟

اعلیٰ سے اعلٰی كپڑے ‏، سستی سے سستی اور قیمتی سے قیمتی گھڑیاں ہرقسم كے ٹرانسسٹر كیمرے ‏، ریڈی میڈ كپڑے ‏، ٹائیاں ‏، الیكٹرك شیورسٹ ‏، ٹرارین كی قمیص اور بش شرٹ ‏، عمدہ ‏، عمدہ كمانیاں عینك كی ‏، سگریٹ كیس ‏، لائٹر ‏، ڈاٹنا بندوق ‏، فاؤن ٹن پن ‏، كمبل جدھر رخ كیجئے بس یہی محسوس ہوتا تھا ۔

كرشمہ دامنِ دل می كشد كہ جاء ایں جا ست

دو ہی چار اللہ كے بندے ایسے نكلیں تو نكلیں جو دعوے كے ساتھ كہ سكتے ہوں كہ :

بغل میں لے كے یوسف كو اكیلے واں سے گزرا میں

قدم ركھتے ہوئے جس راستہ میں كارواں كھٹكا

جیبوں پر وہ ٹوٹ پڑتی دكھائی دیتی تھی كہ اللہ كی پناہ !۔

ہماری حكومت نے حاجیوں كو ایك وہ رعایت دی ہے جو كسی بھی غیر ملك كے ہندوستانی مسافر كو نہیں حاصل ہے ‏، یعنی غیرملكوں كی سیاحت سے واپس آنے والا ہندوستانی كوئی بدیشی مال اپنے ساتھ نہیں لاسكتا جب تك كہ اس غیرملك میں كافی عرصہ قیام پذیر نہ رہ چكا ہو اور اس كا ثبوت نہ پیش كرے كہ یہ چیزیں اس نے اپنے استعمال كے لیے وہاں دورانِ قیام میں خریدی ہیں ؛ لیكن حاجیوں كے ساتھ رعایت ہے كہ وہ مجموعی طور پر پانچسو روپیہ كی سوغات اپنے ساتھ حجاز سے لاسكتے ہیں بشرطیكہ كوئی ایك سوغات پچھتر روپیہ سے زیادہ كی نہ ہو ‏، زیادہ كی ہوئی ‏، تو كسٹم ڈیوٹی ادا كرنا پڑے گی ‏، وہاں كی خریدی ہوئی چیزیں كسٹم ڈیوٹی ادا كرنے كے بعد بھی یہاں سستی پڑتی ہیں ‏، ان حالات میں بڑا مشكل ہے اپنے كو قابو میں ركھنا :۔

گرہے یہی بہار كی شورش تو ناصحا!۔

مجھ سے نہ ہوسكے گی گریباں كی احتیاط

واقعہ یہ ہے كہ ہم میں سے شاید ہی كوئی ایك اپنے گریباں كی احتیاط كی كوشش میں پورا ‏، پورا كامیاب ہوا ہو ۔

پھر محتاط طبیعتوں كو ‘‘ ليشهدوا منافع لهم ’’ كی آیت مین منافع حاصل كرنے كا جواز بھی تو مل جاتا ہے ۔

كیاكچھ بہت زیادہ بے جا ہے یہ استدلال كہ دینی فائدوں كو حج كا اصل مدعا ہیں ضررپہنچائے بغیر اگر دنیاوی فائدوں سے بھی جائز طور پر منافع حاصل كرلیاجائے ؟ لیكن یہ بڑے لوگوں كی باتیں ہیں جو اپنے دل پر پورا ‏، پورا قابو ركھتے ہیں

تم لوگ بھی غضب ہو كہ دل پر یہ اختیار

شب موم كرلیا سحر آہن بنالیا

عام آدمیوں كے لیے ایك ساتھ دو طرح كا منافع حاصل كرنا اسی وقت ممكن ہے جب دو طرح كے دل بھی ان كے ساتھ ہوں اور ‘‘ماجعل الله لرجل من قلبين في جوفه’’ (خدا نے كسی آدمی كے پہلو میں دو دل نہیں بنائے )

دنیا بھر پر جو یہ ذوقِ آرایش سر ودستار كا بھوت سوار ہے ‏، یہ كمبخت حدودِحرم میں بھی پیچھا نہیں چھو‏ڑتا ۔

خیر اپنی رسوائیوں كی تشہیر كہاں تك كی جائے مختصر یہ كہ ہمیں مكہ معظمہ میں حج كے انتظار میں ابھی چار دن : منگل ‏، بدھ ‏، جمعرات ‏، جمعہ ( 4‏/5/6/7/ ذی الحجہ ‏، مطابق 6/ 7/8/9/ اپریل ) ٹھہرنا تھا اور اپنے معلم صاحب كے ذریعہ منیٰ اور عرفات میں قیام كا بندوبست  كرنا تھا ‏، یہ چار ‏، پانچ دن مكہ معظمہ میں ہجوم اور ازدحام كے عروج كے ہوتے ہیں ‏، دنیا بھر سے آئے ہوئے حاجی جو ابھی تك مكہٴ معظمہ اور مدینہ منورہ میں بٹے ہوئے تھے ‏، ان ہی چند دنوں میں مكہٴ معظمہ اور مدینہ منورہ میں بٹے ہوئے تھے ‏، ان ہی چند دنوں میں مكہٴ معظمہ میں یك جا ہوگئے ہیں ‏، وہ چہل ‏، پہل اللہ كے گھر میں نظر آتی ہے كہ دل باغ ‏، باغ ہوجاتے ہیں ‏، نہ معلوم كہاں ‏، كہاں كے لوگ اور ان ہی كے درمیان اپنے بہت سے ملاقاتی بھی نظر آجاتے ہیں ۔

دنیا بھر كے علاوہ اندرونِ مملكت حجاز سے بھی جوق در جوق لوگ ان دنوں حج كے لیے مكّے مین اكٹھا ہوتے ہیں ‏، حكومتِ حجاز حج كے لیے عام تعطیل كردیتی ہے جس سے سركاری ملازمین كو بھی آسانی ہوجاتی ہے ۔

پھر آس پاس كی دیہی آبادی بھی حج كے لیے امنڈ پڑتی ہے ‏، اس دفعہ جوسركاری امداد وشمار حكومت حجاز كی طرف سے شائع ہوئے ان كے مطابق تقریباً 14 لاكھ افراد نے اس حج میں شركت كی ‏، یہ تمام سابقہ ریكارڈوں سے زیادہ ہے ‏، اس میں 18 ہزار سے بھی زیادہ ہمارے ہندوستانی حجاج تھے ‏، ہندوستان كی تقریباً چھ كرور مسلم آبادی میں سے 18 ہزار چھ سو چھیاسٹھ مسلمان اس سال حج كے لیے گئے تھے ‏، پاكستان كی تقریباً دس كرور مسلم آبادی میں سے 16 ہزار  53 حاجی آئے تھے ۔

سب سے زیادہ حاجی تركی سے آئے تھے جن كی تعداد 21ہزار چھ سو تین تھی ‏،دوسرے نمبر پر شام كے حاجی تھے جن كی تعداد بیس ہزار 9سو 18 تھی ‏، اس كے بعد ایران كے حاجیوں كی تعداد 19 ہزار 73 تھی ۔

اگر یہ كہا جائے كہ ‘‘باہر’’ سے آنے والے حاجیوں میں سب سےزیادہ تعداد ہندوستانی حاجیوں كی تھی ‏، تو بیجا نہ ہوگا ‏، شام تو عرب ملك ہی ہے اورتركی اور ایران بھی بلكل پڑوسی ملك ہیں ‏، ان تینوں ملكوں كے حجاج براہِ خشكی اپنی آرام دہ بسوں كے ذریعہ آئے تھے ‘‘باہر’’ سے یعنی سمندر پار كركے آنے والے حجاج میں سب سے بڑی تعداد ہندوستانی حاجیوں كی تھی ۔

سوویت روس كے بھی 19 حاجی تھے ‏، جنوبی ویٹ نام كے 11 ‏، جاپان كا ایك ‏، اٹلی كا ایك ‏، قوم پرور چین كے 20 ‏، كمیونسٹ چین سے جہاں كہا جاتا ہے كہ سات كرور كے قریب مسلمان آباد ہیں ‏، ایك مسلمان كو بھی اس سال توفیق حج نصیب نہیں ہوئی ‏، گزشتہ سال 7 چینی تھے ‏، انگلستان سے 354 ‏، اسپین سے ایك ‏، امریكا سے 12 ‏، آئر لینڈ سے 67 ‏، پرتگال سے 19۔

پاسپورٹ كے ذریعہ حج كے لیے سعودی مملكت میں داخل ہونے والوں كی مجموعی تعداد اس سال دولاكھ 83 ہزار 3سو 19 تھی اور تقریباً گیارہ لاكھ حاجی سعودی عرب كے اور ان ملكوں كے تھے جن كے اور سعودی عرب كے درمیان پاسپورٹ كا رواج نہیں ہے ۔

علامہ اقبال نے كہا تھا :۔

ایك ہوں مسلم حرم كی پاسبانی كے لیے

نیل كے ساحل سے لےكر تابہ خاك كاشغر

ظاہری الفاظ سے ہم میں سے بہتوں نے اگر دھوكا كھاكر یہ سمجھ لیا كہ شاعر كا مقصد ہے كہ تمام دنیا كے مسلمان خانہ كعبہ كی نگہبانی كرنے كے لیے پہونچ جائیں ‏، تو انہوں نے نہ شاعر كے ساتھ انصاف سے كام لیا اورنہ اپنی سمجھ كے ساتھ ‏، عملاً ایسا ممكن كہاں كہ تمام دنیا كے مسلمان ہروقت ‏، یاوقتِ ضرورت كسی ایك مقام پر بے روك ‏، ٹوك جمع ہوجائیں ۔

اس صاحبِ فكر شاعر كا مقصد یہی رہا ہوگا كہ حرم (خانہ كعبہ) سے تعلق كا دعوا ركھنے والوں كو اس تعلق كے مقصد كے ساتھ پورا پورا وفادار ہونا لازم ہے اور سخت ترین نگہبانی كرنا چاہیئے كہ اس مقصد میں ذرا بھی خلل نہ آنے پائے ‏، چاہے مقصد ركھنے والا كا شغر میں رہتا ہو ‏، یا نیل كے آخری ساحل پر قطب شمالی كا باشندہ ہو ‏، یا قطب جنوبی كا‏، اگر اسلام كو اپنا اخروی مقصد قرار دیا ہے اور خانہ كعبہ كو اپنا قبلہ مانا ہے ‏، تو یہ كیسے ہوگا كہ خطہٴ اقامت كے اختلاف سے مقصد میں بھی اختلاف كی كیفیت پیدا ہوجائے ‏، یارنگ ونسل كے فرق سےنیت میں فرق كی گنجائش پید ا ہوجائے ۔

دیكھئے تو كہاں ‏، كہاں سے اللہ كے ماننے والے اور محمد رسول اللہ ﷺ كی پیروی كرنے والے دوڑے چلے آرہے ہیں ‏، اندازہ ہوا كہ كرہٴ ارض كا كوئی حصہ ایسا نہیں جہاں كی نمایندگی یہاں نہ ہوئی ہو ‏، اگر كوئی شخص حكمِ قرآنی ‘‘ یشہدوا منافع لہم ’’(تاكہ وہ حج كے موقع پر اپنے فائدے اور منافع كی باتیں دیكھیں ) سے مستفید ہونا چاہے ‏، تو كیسی آسانی سے مستفید ہوسكتا ہے ۔

لیكن برا ہو سیاست كی حكمرانی اور عالمگیری كا ‏، نوعِ انسان كی فلاح وبہبود كے پہلو سے اس موقعہ سے فادہ اٹھانے ہی نہیں دیاجاتا ‏، صرف سیاسی پہلو سے ساری دنیا سے آئے ہوئے نمایندے اپنے آپ كو پاسبانِ حرم ثابت كرنے كی كوشش كرتے نظر آتے ہیں ۔

حج كا خالص مذہبی اور دینی موقع سیاسی بازی گری اور شعبدہ بازی ہی كی نذر ہوجاتا ہے ‏، مثلاً یہ دكھانے كی كوشش ضرورت سے زیادہ كی جاتی ہے كہ فلاں ملك كے سفارت خانے نے حاجیوں كی دیكھ بھال كے لیے بہترین شفاخانے اور امدادی دستے بھیجے ہیں ‏، ہرملك كا نمایندہ خصوصاً ‘‘اسلامی ’’ملكوں كے نمایندے اس اظہار پر بڑےحریص نظرآئے ‏، كہ ہمارے یہاں اسلام كاسب سے زیادہ بول بالاہے ‏، خود مملكتِ سعودیہ عربیہ تك كسی موقع پر نہیں چوكتی یہ ظاہر كرنے میں كہ دنیا بھر كے مسلمانوِں كی سب سے زیادہ ہمدرد حكومت رہی ہے ؛ لیكن صاف دیكھا جاسكتا ہے كہ كتنا دل سے ہے اور اور پری دل سے !۔

پروپیگنڈا اس زمانے كا سب سے كارگر حربہ ہے اور اس سے خوب خوب كام لیا جارتا ہے ؛لیكن كتنی سچائی ہوتی ہے اس پروپیگنڈے كے پیچھے یہ اندازہ كرنے میں كچھ زیادہ دیر نہیں لگتی ۔

عربی زبان كومسلمانوں كی زبان بےشك نہیں كہ سكتے ؛لیكن دینِ اسلام كی زبان تو كہا ہی جاسكتاہے ‏، مگر كس قدر تعجب كی بات ہے كہ اتنے بڑے دینی فریضے كی ادائیگی كے موقعہ پر دینی منافع حاصل كرنے ‏، یاپاسبانی حرم كے مقصد متحدہ  سے باز ركھنے والی سب سے بڑی چیز یہی زبان كی اجنبیت ہوتی ہے ‏، دنیا بھر كے مسلمانوں سے آپ بات چیت كرنا چاہیں ‏، تو نہیں كرسكتے ‏، تو مل بیٹھنے كا فائدہ كیا ہوا ‏، خالی صورتیں دیكھنے سے تو كچھ حاصل ہونے كا نہیں !۔

اگر دینی زبان سمجھ كر عربی سے كچھ نہ كچھ واقفیت حاصل كرنا تمام دنیا كے مسلمانوں كے لیے لازم ہوتا ‏، تو پھر منافع حج كیا كچھ حاصل كیے جاسكتے تھےاس كی تفصیل بتانے كی حاجت نہیں اور ‘‘پاسبانی حرم’’ كامقصد كس خوبی سے حاصل ہوسكتا اس كی توضیح چنداں ضروری نہیں ۔

ترك حاجی بھی تھے ‏، جاپانی حاجی بھی ‏، انگلستانی بھی ‏، روسی بھی ‏، فرانسیسی بھی ‏، انڈونیزی بھی ‏، كہاں كے حاجی نہیں تھے اس دفعہ؟ مگر ہوا كیا جو عربی جانتا تھا وہ عرب ملكوں كے حاجیوں كو جو انگریزی جانتا تھا وہ انگریزی داں حاجیوں كو اور جو فرانسیسی سے واقف تھا وہ یورپ كے بعض ملكوں كے حاجیوں كو اپنا منشاسمجھا لیتا ہوگا‏، كوئی ایسی زبان نہ تھی جو سب كو افہام وتفہیم كی ایك لڑی میں پروسكتی ‏، حكومتِ سعودیہ كی سركاری اور قومی زبان عربی ہے ‏، اس كا سارا كاروبار اسی زبان میں ہوتا ہے ‏، البتہ مكہ معظمہ میں جہاں دنیا جہان كی زبانیں جاننے والے پہونچ جاتے ہیں پبلك كی ضرورت كے لیے سڑكوں اور شاہراہوں كی علامتیں عربی كے علاوہ ‏، انگریزی اور اردو میں بھی لكھی نظرآتی ہیں ؛ لیكن تسلیم شدہ زبانیں وہاں تیں ہی سمجھی گئی ہیں : عربی (سركاری زبان ) انگریزی اور فرانسیسی ‏، رابطہ عالمِ اسلامی كی دوسری موتمرمیں بھی یہی تین زبانیں معتبر مانی گئی ہیں ‏، ان میں كارروائی سنی جاسكتی تھی ہیڈ فون لگاكر ۔

 https://www.bhatkallys.com/ur/author/muftiraza/