آہ! دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا عبد الحق اعظمی ؒ دنیا میں نہ رہے

از:ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید، مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے قدیم ترین استاذ، میرے اور دنیا کے چپہ چپہ میں پھیلے ہزاروں علماء دین کے مشفق استاذ حضرت مولانا عبدالحق اعظمی رحمۃ اللہ علیہ مختصر علالت کے بعد ۳۰ دسمبر ۲۰۱۶ء بروز جمعہ نماز عشاء سے کچھ قبل ۸۸ سال کی عمر میں اپنے حقیقی مولا سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون (ہم سب اللہ ہی کے ہیں، اور ہم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے)۔ ہزاروں تلامذہ جسمانی دوری کے باوجود آپ کی شفقت اورمحبت کی وجہ سے اپنے شیخ ثانی سے خصوصی تعلق رکھتے ہیں، چنانچہ چند گھنٹوں میں بجلی کی طرح یہ خبر دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ خبر سن کر انتہائی افسوس ہوا، لیکن یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ موت کا مزہ ہر شخص کو چکھنا ہے اور کون ہے جس کو موت سے چھٹکارا اور مفر ہے۔ ابنیاء کرام، صحابۂ کرام اور عظیم محدثین ومفسرین کو بھی اس مرحلہ سے گزرنا پڑا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے حصوں پر حکومت کرنے والے بھی آج دو گز زمین میں مدفون ہیں۔ یہ تو خالق کائنات کا نظام ہے، جس نے موت اور زندگی اس لئے پیدا کی کہ وہ ہمیں آزمائے کہ ہم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنائے اور انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
دارالعلوم دیوبند کے میرے قیام (1994-1989) کے دوران حضرت سے میرا خصوصی تعلق تھا۔ فضیلت کے آخری سال میں دارالعلوم دیوبند کی جانب سے جب مجھے ترجمان (Monitor) کی حیثیت سے ذمہ داری دی گئی تھی تو میں عموماً چھتہ والی مسجد میں نماز عشا ء کی ادائیگی کے بعد حضرت کے گھر تشریف لے جاتا تھا، جو چھتہ والی مسجد سے بالکل ملا ہوا تھا۔ اور صحیح بخاری جلد ثانی پڑھنے کے لئے حضرت کے ہمراہ دورۂ حدیث کی کلاس میں آتا تھا۔ کچھ بیماری کی وجہ سے میں نے اپنی ترجمان کی ذمہ داری مولانا مزمل حسین مرادآبادی کو سپرد کروادی تھی، لیکن حضرت سے تقریباً روزانہ ملاقات کا شرف مجھے پورے سال حاصل رہا۔ اُس وقت مجھے بہت خوشی ہوئی تھی جب سنبھل میں واقع میرے آبائی مکان میں حضرت تشریف لائے تھے۔ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میں نے اپنے اکابرین سے ہمیشہ خصوصی تعلق رکھا ہے۔ اِن دنوں حضرت مفتی ابوا لقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند، استاذ محترم حضرت مولانا عبدالحالق سنبھلی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند اور دیگر اساتذہ کرام کی سرپرستی میں ہی میں دین اسلام کی خدمت کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔
حضرت مولانا عبد الحق اعظمی ؒ ۱۹۲۸ء بروز دوشنبہ اعظم گڑھ (جگ دیش پور) میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے ہی مقام پر حاصل کرنے کے بعد بیت العلوم سرائے میر میں فارسی اور عربی کی متعدد کتابیں پڑھیں، پھر دارالعلوم مؤ میں ہفتم عربی تک تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۴۸ء میں دنیا کی عظیم اسلامی یونیورسٹی ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ میں داخلہ لے کر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ ، علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ اور شیح الادب مولانا اعزاز علی ؒ وغیرہم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے بھی آپ نے استفادہ فرمایا۔
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد متعدد مقامات پر تدریسی خدمات انجام دیں۔ خاص کر مطلع العلوم (بنارس) میں آپ نے تقریباً سولہ سال تک علوم قرآن وسنت کی تعلیم دی۔ ۱۹۸۲ء میں آنجناب کو دارالعلوم دیوبند میں استاذ حدیث کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ نے متعین فرماکر صحیح بخاری جلد دوئم اور مشکاۃ المصابیح کی تعلیم آپ کے ذمہ رکھی۔ اس طرح آپ نے ۳۴ سال دارالعلوم دیوبند میں حدیث کی سب سے مستند کتاب ’’صحیح بخاری‘‘ کی تعلیم دی۔ کتنی خوش قسمتی کی بات ہے کہ آپ نے ۶۰ سال سے زیادہ عرصہ تک علوم قرآن حدیث کی تعلیم دی۔ ہزاروں علماء دین آنجناب سے حدیث کا سبق پڑھ کر دنیا کے طول وعرض میں دین اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی قربانیاں پیش کررہے ہیں جو یقیناًآپ کے لئے ایک صدقہ جاریہ ہے، جس کا ثواب ان شاء اللہ آپ کو ہمیشہ ملتا رہے گا۔ ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ ہمارے شیخ ثانی اب دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کے تلامذہ اور شاگردوں کے شاگرد ان شاء اللہ اُس روشنی کو ہمیشہ منور رکھیں گے جو انہوں نے اپنے مشفق استاذ حضرت مولانا عبد الحق اعظمی ؒ سے حاصل کی ہے۔
میں حضرت کی گھریلو زندگی سے بھی کافی حد تک واقف ہوں، آپ قناعت پسند اور انتہائی سادہ مزاج تھے۔ برصغیر کی اہم علمی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں صحیح بخاری کا درس دینے والے کی زندگی گزارنے کا سادہ طریقہ اگر کوئی عام شخص دیکھ لیتا تو وہ حیران ہوجاتا۔ آپ کی گھریلو زندگی میں بہت مسائل آئے، مگر آپ نے صبر کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ آپ انتہائی تواضع وانکساری کے حامل شخص تھے۔ تلامذہ کے ساتھ محبت سے پیش آنا آپ کا ایسا طرۂ امتیاز ز تھا کہ آپ کے طلبہ ہمیشہ آپ کے لئے دعا کرتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ موصوف کو کروٹ کروٹ چین وسکون عطا فرما اور کل قیامت کے دن حساب کتاب کے بغیر آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔ ۲۰۱۰ میں شیخ اول حضرت مولانا نصیر احمد خانؒ انتقال فرماگئے تھے، جن سے میں نے صحیح بخاری جلد اول پڑھی تھی اور ۲۰۱۶ کے آخری ایام میں حضرت مولانا عبد الحق اعظمی ؒ اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے ، اس طرح صحیح بخاری کے میرے دونوں استاذ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ دونوں کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیں بھی قرآن وحدیث کی عظیم خدمات کے لئے قبول فرمائے، آمین۔ ثم آمین۔
(www.najeebqasmi.com)