والی ’آسی‘۔ ایک صوفی مزاج شاعر۔۔۔۔۔از: فرزانہ اعجاز

اخبار ’اودھنامہ ‘ میں ، خلاف معمول متواتر تین قسطوں میں جناب حفیظ نعمانی صاحب کا ایک مضمون شائع ہورہا ہے ، جس میں بار بار لکھنؤ کی نگینہ جڑی شاعری کے نمایندہ شاعر اور حفیظ نعمانی صاحب کےعزیز دوست والی آسی مرحوم کا ذکر ہورہا ہے ،بیشک، والی آسی مرحوم نے اپنی محنت اور خدا داد صلاحیت سے ایک منفرد مقام حاصل کیا تھا ، اور لمبے عرصے تک مشاعروں میں لکھنؤ کی سچی نمائیندگی کرتے رہے اور آج بھی باذوق سامعین کی نظریں عالمی مشاعروں کے اسٹیج پر انکی کمی محسوس کرتی ہیں ،وہ اپنے والد بزرگوار استاد شاعرجناب مولانا عبدالباری ’آسی ‘کے سچے جانشین اور قلندر صفت بیٹے ثابت ہوۓ، اپنی شاعرانہ خصوصیات کے علاوہ بھی انکا ایک اونچا مقام تھا جو فی زمانہ شاعروں میں خال خال نظر آتا ہوتو کہہ نہیں سکتے ،حفیظ چچا محترم کا مضمون پڑھتے ہوۓ ، ہمیں بہت سی باتیں یاد آنے لگیں ،یادوں کےبہت سے دریچے دل کے آنگن کی طرف وا ہوتے جا رہے ہیں اور دور بہت دور سے والی آسی مرحوم کی آواز آرہی ہےاور دل چاہ رہاہے کہ ’ اس قلندر صفت’آسی‘اور تہجد گزار ’ولی ‘ سے قاریئن کو ضرور متعارف کرایئں ،
لکھنؤ کی قیصر باغ بارہ دری میں ’حضرت جگر مرادآباری ‘کی برسی کے موقع پر ایک شاندار مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا ، لکھنؤ شہر اور اطراف کے تمام شائقین مشاعرہ اور ’عاشقان جگر مرادآبادی موجود تھے ، بارہ دری کا ہال اور آنگن کھچا کھچ بھرا تھا ، سید احتشام حسین صاحب ،صدیق حسن صاحب ،اشتیاق احمد عباسی صاحب اور بہت سے حضرات آنگن میں ہمارے ابو کے ساتھ کھڑے تھے ،زرا دیر پہلے ، دفتر قومی آواز سے ابو نے فون کر کے کہا تھا کہ ’اگر مشاعرہ سننا چاہتی ہو تو اپنے بھائ بہن کے ساتھ بارہ دری آجاؤ۔‘ہم اپنی کاپی اور قلم میں روشنائ بھر کر بھاگم بھاگ وہاں پہنچے ، اس وقت کسی کسی گھر میں ریڈیو ہوا کرتا تھا ، اور اس پر جب جب مشاعرہ آتا تھا ، ہم پورا پورا مشاعرہ لکھ لیتے تھے ، یہ شوق ہم کو اپنی امی سے ’ورثہ‘ میں ملا تھا ، آج بھی ہمارے پاس ، امی کی اور اپنی بہت سی ایسی کاپیاں موجود ہیں ، اس مشاعرے میں اسٹیج پر موجود معزز شعرأ کے کچھ نام آج بھی یاد ہیں ، نشور واحدی، حیرت بدایونی ، اور لکھنؤ کا اس وقت کا ہر بڑا اور اچھا شاعر ، شعرأ پورے ادب و احترام کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے تھے ، سامعین میں بھی عجیب سی اداسی اورنم کیفیت طاری تھی ، دوسری یا تیسری لایئن میں ہم بھی اپنی کاپی سنبھالے موجود تھے ، جگر صاحب سے ابو کی عقیدت اور ہمارا گونڈے میں جگر صاحب کے گھر جانا اور انکا ہم کو چاندی کے کچھ روپۓ دینا ، ہماری سالگرہ کے دن جگر صاحب کا انتقال ہونا اور سالگرہ کا ’بلاوا‘ منسوخ ہونا ، ابو کا گونڈے جانا ، سب کچھ نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا ،مشاعرہ شروع ہوا تو مایئک گڑبڑ کی وجہ سے پیچھے کی صفوں میں بیٹھے سامعین احتجاج کرنے لگے ، یہ ’ہلڑ‘ دیکھ کر ’حیرت بدایونی صاحب نے غصے سے فی البدیہ ایک قطعہ کہا ،،’ لکھنؤ تیری تہذیب کیا ہوئ؟‘اسی مشاعرے میں پتلون اور ملگجی سی قمیض پہنے گھونگھر والے بالوں کا ایک نوجوان شاعر بلایا گیا ، جسکا نام تھا ’والی آسی ‘،غزل تھی ،
’مل بھی جاتے ہیں تو کترا کے نکل جاتے ہیں ، ہاۓ موسم کی طرح دوست بدل جاتے ہیں ،
عمر بھر جنکی وفاؤں پہ بھروسہ کیجۓ ۔۔۔ وقت پڑنے پہ وہی لوگ بدل جاتے ہیں ‘
اور بھی غزلیں سنی گیئں ، استاد شاعر مولانا عبد الباری آسی ‘کے اس فرزند والی آسی نے اپنا مقام بنانا شروع کر دیا تھا ، ’استاد شعرأ کے سامنے تو ویسے بھی بڑے بڑے ہکلانے لگتے ہیں ، مولانا آسی صاحب ،استاد شاعر تھے ، میرٹھ سے انکا تعلق تھا ، لکھنؤ میں ’منشی نول کشور‘کے پریس میں تمام ادبی اور مذہبی کام کی ذمہداری انہیں کے سپرد تھی ،انکی دیکھ ریکھ میں اس پریس سے بہت سی بڑی اہم تصانیف شائع ہوتی اور مقبول ہوتی رہیں ، وہ اپنے مدبرانہ خیالات اور شاعرانہ سوچ کے ساتھ منجھے ہوۓ استاد شاعر تھے ، جن کے بہت سے شاگرد بھی تھے ، مولانا عبد الباری آسی صاحب ،ہمارے حقیقی نانا اور ’مجاہد آزادی ، استاد شاعر ، شاگردرشید حضرت امیر مینائ ٗ مولانا مولوی ،فقیر صفت برکت اللہ ’رضا‘ِفرنگی محلی کہ جن کو انگریزوں کے خلاف مضامیں اور ہینڈ بل چھاپنے کی پاداش میں معہ خاندان کے بہرائچ میں نظر بند رکھا گیا ، سب سے بڑی سزا یہ تھی کہ ’کاغذ قلم ‘ چھین لیا گیا تھا ، اور نماز کے لۓ مسجد بھی جانے کی اجازت نہیں تھی ، مسجد جانے کی اجازت بعد میں اس شرط پر ملی کہ ’ کسی سے بھی بات نہیں کریں گے ، مولانا آسی انکے عزیز دوست تھے، ، آزادی سے زرا قبل کا زمانہ لکھنؤ کی ادبی اور تہذیبی عروج کا زمانہ تھا ، مولانا برکت اللہ ’رضا ‘ فرنگی محلی ، مولانا عبدالباری ’ آسی‘ نواب بڈھن صاحب ’ فرہاد ‘ لکھنوی ،صفی لکھنویِ ،’آرزو لکھنوی اور بھی کئ استاد شعرأ موجود تھے کہ جن کے کلام بلاغت نظام سے شہر کی محفلیں جگمگایا کرتی تھیں ،اس وقت کے فرنگی محل کے دروبام تک اعلا ادبی ذوق رکھتے تھے ، ’حسرت موہانی ، مولانا محمد علی جوہر اور ’مجذوب صاحب ‘ اقبال صفی پوری اور بہت سے نوجون شعرأ یہاں کی محفلوں میں بزرگوں کو اپنا کلامبے تکلفی سے سناتے تھے ، ایسے ہی ایک مشاعرے کی محفل کا ذکر ’جوش ملیح آبادی نے یادوں کی بارات میں کیا ہے ، کہ جس میں جوش کی غزل کی تعریف ، انکے والد کی غزل سے زیادہ ہوئ تھی تو انکے والد نے ’حکم ‘ دیا تھا کہ ـ جہاں میں غزل پڑھوں گا ، آئندہ ’آپ‘ یعنی جوش نہیں پڑھیں گے ،ـمولانا برکت اللہ ’ رضا‘ فرنگی محلی ، اور مولانا آسی کے یہی مراسم تھے کہ ہماری امی اور ابو ، والی آسی اور عائشہ باجی کا خاص خیال رکھتے تھے اور آج بھی عائشہ باجی ہم سے خلوص سے پیش آتی ہیں ،
لکھنؤ ہی کی ایک معزز خاندان کی محترم شاعرہ محترمہ عزیز بانو داراب ’ وفا ‘ صاحبہ جو کہ ہماری انگریزی کی ٹیچر بھی تھیں اور کچھ گھریلو مراسم بھی تھے ، اکثر کہا کرتی تھیں ۔۔۔۔ ’بی بی ۔۔۔ بیرونی مشاعروں میں جانے کے لۓ ہم جہاز یا ریل میں ’ والی ‘ کے پاس بیٹھنا پسند کرتے ہیں ، دوسروں کی طرح وہ شراب نہیں پیتا ہے ‘۔۔۔۔ مسقط عمان میں ہونے والے مشاعروں میں شروع شروع میں شاعروں کو منتظمین اپنے یاجاننے والوں کے کے گھروں میں ٹھہرایا کرتے تھے ، اسی سلسلے میں ہم نے اپنے ابو مفتی محمد رضا انصاری صاحب سے کچھ لوگوں کے بارے میں پوچھا ، تو ابو نے فرمایا ۔۔۔۔’والی بالکل نہیں پیتا ہے ، میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں ‘ ، ہماری امی ایک پردہ دار بی بی تھیں اور بہت سخت بیمار تھیں ، اسی زمانے میں ہماری دادی کا انتقال کراچی میں ہوا تھا تو والی بھائ ، ہمارے ابو کے پاس دادی کی تعزیت میں آۓ اور مردانے کمرے میں ابو پاس بیٹھے تھے ، ابو نے ان سے کہا ۔۔۔’والی ۔۔۔ زرا اپنی چچی پر پھونک ڈال دو انکی طبیعت اچھی نہیں ہے ۔‘ والی بھائ انکار کر رہے تھے ،کہنے لگے ۔۔۔ ’مفتی صاحب ۔ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ، آپکے سامنے میں چچی پر پھونک ڈالوں ؟۔‘ابو نے کہا ، ’نہیں ، میں جانتا ہوں تم تہجد گزار ہو اور مجھسے بہتر ہو ۔‘والی بھائ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ، ‘ کاش، اب پھر ہمارے ’شاعروں ‘ میں کوئ ایسا صوفی منش پیدا ہوجاۓ ، والی بھائ اکثر ہمارے ابو کے پاس آیا کرتے تھے ، ایک روز مغرب کی نماز کے وقت آۓ، ابو محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے گۓ تھے ، والی بھائ بھی مسجد چلے گۓ ،زرا دیر بعد جب ابو واپس آۓ تو ہم نے انہیں والی بھائ کی آمد اور مسجد جانے کا بتایا ، ابو نے ہنکارا بھرا اور کہا ،،،، ’ بیٹی، زرا دیر میں چاۓ بنوانا ، والی نماز کے بعد دیر تک دعاؤں مین مصروف رہتے ہیں ، میں نے ابھی سلام پھیرا تو دیکھا کوئ رو رو کر دعا مانگ رہا تھا ، یقینن وہ والی ہی ہوں گے ،
ہمارے اڑتیس سال کے قیام مسقط میں ہم نے بہت عظیم اور منظم’انڈوپاک مشاعرے‘ دیکھے اور سنے ، علی گڑھ اولڈ بوایئز کے کئ مشاعروں میں ’منتظٰمین کے ساتھ ساتھ ہم لوگ بھی شامل ہوتے تھے ، والی بھائ بھی کئ مشاعروں میں مسقط عمان آۓ اور ہمارے گھر بھی دعوتوں میں ’میزبان ‘ کی طرح شریک رہے ، انکے منفرد انداز اور اجلی شاعری کو لوگوں نے بہت پسند کیا ، ایسے ہی ایک بار کچھ منتظمین میں اختلاف ہوا اور علاحدہ سے ایک عظیم الشان مشاعرہ ہوا ، ہندوستان کا ہر بڑا شاعر اسٹیج پر مسلسل دو دن موجود رہا ، آل احمد ’سرور ‘غلام ربانی ’ تاباں ‘ معین احسن ’جذبی‘مجروح سلطان پوری ِ سردار جعفریِ ،وسیم بریلوی ، بیکل اتساہی ، راحت اندوری ِ ،والی آسی، بشیر بدر سب ہی موجود تھے ، جمعرات کی شام مشاعرہ تھا ، دوسرے دن جمعہ تھا ، منتظمین نے کسی بہت ہی ’خفیہ جگہ ‘ شعرا کو ٹھہرایا تھا ، اتفاق سے ہم، اعجاز صاحب کے ساتھ مجروح چچا کے پاس اسٹیج کے پیچھے پہنچ گۓ ، دوسرے دن شایقین ان میں سے اکثر شعرا ٔ کو دیکنھے اور ملنے کے منتظر رہے ، مگر کوئ شاعر نظر نہیں آیا ، نماز کے بعد ہم اور اعجاز صاحب اسی ’خفیہ بنگلے ‘ میں پہنچے تو دیکھا ، بیکل صاحب ، والی بھائ اور کئ لوگ بالکونی میں پریشان کھڑےتھے ، انکو غصہ بھی تھا اورجمعے کی نماز رہ جانے کا دکھ بھی ، والی بھائ بہت ہی افسردہ تھے ، اور بیکل صٓاحب ، چونکہ ’ایم پی ‘ تھے ، انکا ڈپلومیٹک اسٹیٹس اور ڈپلومیٹک پاسپورٹ تھا ، جو ایک منتظم نے اپنے قبضے میں کر لیا تھا ، وہ بہت ناراض تھے ،
والی بھائ کئٔ بار مسقط بلاۓ گۓ اور بہت کامیاب رہے ، ایسے ہی ایک مشاعرے کے بعد والی بھای اور ’شمیم ‘ جےپوری صاحب نے ’عمرے ‘ پر جانے کی خواہش ظاہر کی ، خدا کا کرم انتظام ہوگیا ، اور والی بھٗائ ، شمیم صاحب جدے روانہ ہو گۓ ، شمیم صاحب بہت رقیق القلب انسان تھے ، اوربہت عبادت گزار بھی ، پہلی بار ’ حاضری ‘ دینے والے اللہ والے ویسے ہی ’اپنے مالک کے دربار اور روضۂ اقدس کی قدم بوسی سے ہراساں ہوتے ہیں ، ہم نے انہیں تسلی دی کہ ُپریشان نہ ہوں ، آپ ہمارے ابو اور جگر صاحب کے ساتھ رہے ہیں ، ہمارا بھائ شائق رضا انصاری ، جدے میں آپکو رسیو کر کے تمام ارکان ادا کروا دیگا ، شمیم صاحب کی ’ وہ ممنون آنکھیں ‘ اوربھرے مشاعرے میں قبلہ رخ کھڑے ہوکر ’ ہم کو اور ہمارے بھیا کو دعایئں دینا ، آج تک نہیں بھولتا ہے ، بھیا بتاتے تھے کہ یہ دونوں حضرات رات رات بھر عبادت کرتے تھے ، ایک صبح بھیا کو دونوں غائب ملے ،اس زمانے میں موبایل فون کا نام ونشان تک نہ تھا ، شام تک دیکھا دونوں خوشی خوشی چلے آرہے ہیں ،جب بھیا پریشانی میں اپنے ایک لکھنوی دوست کے ساتھ پولیس اسٹیشن جانے کو باہر نکل رہے تھے ، پتہ چلا رات کے کسی پہر کسی کو بتاۓ بغیر مکے شریف چلے گۓ ، اگرچہ یہ بہت خطرناک کام تھا ، اجنبی ، لوگ اجنبی زبان ، کچھ نقصان بھی ہو سکتا تھا ، شمیم صاحب نے اپنی کل جمع پونجی ، ہماری بھابھی کے سپرد کر دی تھی ، شمیم صاحب کا ایک نعتیہ شعر یاد آرہا ہے ، کیا جذب کا عالم ہوگا جب مدینے کا مسافر بے اختیار یہ شعر کہہ رہا ہوگا ۔
’لے تو چلا ہے ، سوۓ مدینہ جنون شوق
اللہ، تو، تو قادر مطلق ہے ، پر لگا ‘
والی آسی کا ’ مکتبۂ دین وادب ‘ لاٹوش روڈ کے بالا خانے سے اتر کر امین آباد کے پارک کے سامنے حیدر حسین کی عالیشان کوٹھی کے بازو کی ایک چھوٹی سی دوکان میں سما گیا ، جہاں سیکڑوں کتابوں کے درمیان والی بھائ ـاپنے مداحوں اور شاعروں ادبی لوگوں کے درمیان مسکراتے ، سب کی خاطریں کرتے اکثر نظر آتے تھے ، انکی دوکان ایک ’ چھوٹا ساکافی ہاؤس ‘ لگتی تھی ،
پھر اچانک وہ یہ جہان چھوڑ گۓ،دوکان ختم ہوگئ اور انکے شاگرد بے سہارا ہوگۓ ، ایک ایسا مشفق استاد جو شاگردوں کا دوست بھی تھا اور رہبر بھی
فرزانہ اعجاز
farzanaejaz@hotmail.com