شکور بستی کے اُجڑے جگرپاروں کے نام ا(ز:حفیظ نعمانی)

Bhatkallys

Published in - Other

01:32PM Fri 18 Dec, 2015
از حفیظ نعمانیhafeez-noumani-394x600 کل ہی عرض کیا تھا کہ طبیعت کچھ اچھی نہیں ہے۔ شاید دو تین دن نہ لکھ سکوں اور حالات بھی کچھ ایسے اور نئے نہیں تھے جن کے لئے اپنے کو ہلاک کرتا۔ اپنے محترم عمر انصاری صاحب کے بقول ؂ تھے حسن وفا کی بستی میں جتنے بھی دریچے بند ہوئے بے چین اشارو سو جاؤ بے تاب نظارو سو جاؤ لیکن جب ایسا دردناک منظر آنکھوں کے سامنے آجائے کہ پانچ سو جھگیوں کے بوڑھے جوان بچے اور بچیاں اس کڑکڑاتی سردی میں رات کے بارہ بجے کھلے آسمان کے نیچے پھینک دیئے جائیں تو یہ معلوم ہونے کے بعد بھی کہ ہمارے لکھنے سے کیا ہوجائے گا؟ نہ لکھنا جرم محسوس ہوا اور ایسا لگا کہ اگر آج ان کے دُکھ درد میں شرکت نہیں کی تو ضمیر معاف نہیں کرے گا۔ تمام ضروری باتیں سب کہہ رہے ہیں۔ ریلوے کے وزیر جو نہ صورت سے وزیر لگتے ہیں نہ لباس سے تو مزاج سے کیا لگیں گے؟ انہوں نے کل لوک سبھا میں اپنے وہ تین نوٹس دکھائے جو چسپاں کئے گئے تھے۔ بات اس کی نہیں ہے کہ شکور بستی کے لوگوں کو خبر تھی یا نہیں۔ بات یہ ہے کہ اس کام کے لئے کیلنڈر کے کس مہینہ کی کن تاریخوں کا انتخاب کیا گیا۔ ہر ٹی وی اور ہر اخبار خبر دے رہا ہے کہ سردی شباب پر آگئی اور اب ہر دن بہت بڑھے گی۔ ہوسکتا ہے کہ وزیر بننے کے بعد آدمی کا اتنا دماغ خراب ہوجاتا ہو کہ وہ اخبار پڑھنا بھی چھوڑ دیتا ہو لیکن دوسرے تو بتاتے ہوں گے کہ موسم کیسا ہے؟ انسان جب پارلیمنٹ کا ممبر بن جاتا ہے تو وہ راجہ بن جاتا ہے اور جب وزیر بن جائے تب تو مہاراجہ بن جاتا ہے۔ وہ دفتر میں ہو، گھر میں ہو یا پارلیمنٹ میں موسم اس کی انگلیوں میں ہوتا ہے۔ وہ انگوٹھے کی ایک ذراسی جنبش سے ریموٹ کے ذریعہ اگر چاہتا ہے تو فروری کا موسم بنا لیتا ہے اور چاہتا ہے تو مارچ کا۔ وہی اے. سی. جو گرمیوں بھر مئی جون کو اکتوبر اور نومبر بنانے کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ وہی 15 دسمبر کو گرم ہوا پھینک کر یکم مارچ کا موسم بنا دیتے ہیں۔ انہیں کیا خبر کہ بیابان علاقہ میں کھلے آسمان کے نیچے بغیر کوٹ اور کمبل کے ان انسانوں پر کیا بیت جاتی ہے جس میں جانوروں کے بھی بال کھڑے ہوجاتے ہیں؟ پربھو مودی صاحب کی پسند ہیں اس لئے ہم تو مودی صاحب سے کہیں گے کہ وہ جو تاج پوشی کے بعد دنیا کو دکھانے کے لئے پارلیمنٹ کے اندرداخل ہونے سے پہلے اس کی سیڑھی پر جو ماتھا ٹیکا تھا اور اندر جاکر ایک بار نہیں بار بار کہا تھا کہ یہ حکومت غریب کی ہے۔ یہ وہ حکومت ہے جو غریب کے لئے سوچے گی، غریب کے لئے کرے گی اور غریب کی سنے گی۔ کیا ایک چائے والے کا بیٹا ہوکر وزیر اعظم بننے پر فخر کرنے والے اور اپنے کو غریبوں کے کنبہ کا فرد ظاہر کرنے والے وزیر اعظم ایسے ہی ہوتے ہیں کہ ان کی سرکار میں ہزاروں بے سہارا اور مہاغریب ایسے بچے جن کی ٹانگیں بھی ننگی ہیں وہ کھلے آسمان کے نیچے پڑے رو رہے ہیں؟ کیا غریبوں کے وزیر اعظم کی سماعت اتنی کم ہوگئی ہے کہ انہیں کسی کی چیخ سنائی نہیں دیتی؟ ہمیں یہ لکھتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم صرف غلط بیانی کرتے ہیں۔ انہوں نے الیکشن جیتنے کے لئے جتنی غلط بیانیاں کیں جن کا انجام دہلی اور بہار میں دیکھ لیا اور اپنے سب سے مضبوط قلعہ گجرات کے دیہاتوں میں دیکھ لیا وہ اگر اب بھی اپنی روش پر قائم رہے تو پورے ملک میں دیکھیں گے اور اس کا نتیجہ صرف یہی نہیں ہوگا کہ بی جے پی نام کی پارٹی ہندو مہاسبھا ہوجائے گی بلکہ وہ آر ایس ایس جو زعفرانی ہندوؤں کی سب سے محترم تنظیم ہے اس کے پرچارک دوڑا دوڑا کر مارے جائیں گے اور ان سب کے ذمہ دار وزیر اعظم نریندر مودی ہوں گے۔ غضب خدا کا کہ دہلی کا ہائی کورٹ بھی اسے غیرانسانی حرکت قرار دے اور کابینہ کے سب سے بوڑھے وزیر نائیڈو کجریوال سے جواب طلب کریں اور آموختہ سنائیں کہ اسٹیشنوں کی گندگی دور کرنے کے لئے زمین کی ضرورت تھی جہاں ٹرمینل بنے گا اور یہ کہ یہ منصوبہ بی جے پی حکومت سے پہلے بنا تھا اور شیلا دکشت کو معلوم تھا۔ نائیڈو مودی سرکار کے وزیر ہیں اور یہ حکومت کانگریس مکت بھارت کے نعرے پر آئی ہے۔ اب اگر اس حکومت کو ان ہی منصوبوں کو پورا کرنا ہے تو انہیں کیا ضرورت تھی کہ وہ حکومت بدلتے۔ بات صرف کمل کے پھول اور ہاتھ کی نہیں تھی بات تو یہ تھی کہ ؂ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو اور ہر وزیر اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے ایک ہی بات کہتا ہے کہ جو ساٹھ سال میں نہیں ہوا وہ اب ہوگا۔ کل ہی الہ آباد کے ایک ایم پی نے الہ آباد یونیورسٹی کی بری حالت کی تفصیل بتائی تو جواب میں وزیر اسمرتی ایرانی نے بہت کچھ کہا مگر یہ کہنا نہیں بھولیں کہ 60 برس کی بگڑی ہوئی صورت کو سنوارنے میں وقت لگے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب کانگریس کا ہر کام غلط تھا تو شکور بستی کی زمین کو حاصل کرنے کے لئے کانگریسی منصوبہ کا حوالہ کیوں دیا جارہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انگریز ٹھیک کہتے تھے کہ تم سے حکومت کرنا نہیں آتی۔ اور ہم نے 70 برس میں ثابت کردیا کہ ہم سے واقعی حکومت کرنا نہیں آتی۔ آزادی کے بعد اسی انگریز گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کو ملک کا گورنر جنرل بنانا کیا ایسا جرم ہے جسے معاف کردیا جائے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اقتدار کی دستاویز پر دستخط کے بعد ماؤنٹ بیٹن کو اس کی ہی کار میں بٹھاکر ہوائی اڈے بھیجا جاتا اور اس کا نقشہ بنایا جاتا کہ حکومت کیسے کرنا ہے؟ آج سیکڑوں ایکڑ کے محل میں ایک نمائشی صدر پر کروڑوں روپئے کا خرچ اور وزیر اعظم کے لئے ایسی کوٹھی جس کی سرنگ ہوائی اڈے پر جاکر ختم ہوتی ہو اور نہ جانے کتنے کروڑ کا اس کا خرچ ہوہ کیا ایک ایسے غریب ملک کے وزیر اعظم کا ہونا چاہئے جس کی 70 فیصدی آبادی کھیتوں میں اور گاؤں کے تالابوں کے کنارے ننگے بیٹھے فطری تقاضے پورے کرتی ہے؟ ہم دعوے کے ساتھ کہتے ہیں کہ مودی صاحب نے جو 2022 ء ہر آدمی کے سر پر چھت اور ہر گھر میں بیت الخلاء کا شوشہ چھوڑا ہے وہ ایسا ہی ہوگا جیسا ہر ایک کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ کا شوشہ تھا جسے ان کے پالتو صدر نے انتخابی جملہ قرار دیا تھا۔ مودی صاحب کو یقین تھا کہ قوم وعدہ خلافی کی سزا دے گی اور 2019 ء میں ایسے ہی باہر کردے گی جیسے سونیا کو کردیا۔ اس کے بعد وہ کہہ سکیں گے کہ میں کیا کرتا حکومت ہوتی تو ہر سر پر چھت بن جاتی۔ شری مودی نے ثابت کیا ہے کہ وہ سیاسی نہیں ہیں۔ انہوں نے اگر عدم رواداری پر وہ رویہ اپنایا ہوتا جو ایک ماہر کھلاڑی کا ہوتا ہے یا شکور بستی کو اس قدر بے رحمی کے ساتھ اُجاڑنے کے جرم میں سریش پربھو کو باہر کا راستہ دکھایا ہوتا اور تمام افسروں کے گرم کپڑے اُترواکر صرف ایک رات اسی میدان میں اُکڑوں بٹھادیا ہوتا تو آسام میں چاہے مولانا بدرالدین اجمل صاحب ملک کے سارے سیکولر لیڈروں اور سونیا کے ساتھ دس معاہدے کرتے حکومت بی جے پی کی بنتی۔ پربھو کی مجرمانہ صفائی اور نائیڈو کا کجریوال سے پنجہ لڑانا یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اب صرف یہ کیا جائے کہ ہر اُجڑے کے سر پر سایہ کیا جائے۔ ہر خاندان کو پانچ پانچ ہزار روپئے دیئے جائیں کہ وہ کھانے پینے کا انتظام کریں اور پورے منصوبہ کو مارچ تک ملتوی کیا جائے اور سب سے اہم یہ ہے کہ ان کے لئے جیسے بھی ہوں وہ مکان دیئے جائیں جن میں وہ انسانوں کی طرح رہ سکیں۔ آنے والے ساڑھے تین سال مودی کا امتحان ہیں وہ اگر سچ کی ڈور پکڑکر اُٹھنا چاہیں تو اوپر اُٹھ جائیں نہیں تو اُترتے اُترتے پھر ناگ پور میں خاکی نیکر پہن لیں۔ اسی دنیا کے بنانے والے نے کہا ہے۔ ’اَنا اِنّ عِندی مُنکسرُ القلوب۔‘ ’’میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس ہوں۔‘‘ کیا شکور بستی کے باسیوں سے زیادہ کوئی شکستہ دل ہوگا؟ فون نمبر: 0522-2622300