سفر حجاز (ب)۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

03:48PM Wed 2 Jun, 2021

سفرنامہ حجازاز مولانا عبد الماجد دریابادی

قسط 02

غرض نیت قائم ہوچکی ہے۔حج کے مہینے تین ہیں۔شوال، ذیقعدہ، عشرہ اول ذی الحجہ (الحج اشھر معلومات) جس تاریخ کو ماہِ مبارک رمضان ختم ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی تاریخ سے موسمِ حج کی ابتدا ہوجاتی ہے۔ انشاءاللہ تعالیٰ یکم شوال کو گھر سے نکلنا ہوگا اور ۳ شوال کو ۱۰ بجے شب کی اکسپریس سے لکھنؤ کے لیے روانگی اور ۵/ شوال کو بمبئی پہونچ کر مغل کمپنی کے پہلے جہاز سے عزمِ سفر، پہلے زیارتِ دیار حبیب ﷺ و حاضری روضہ انور جتنے دنوں تک بھی قسمت یاوری کرے پھر آغاز ذی الحجہ میں فریضہ حج کے لئے مکہ معظمہ، بعد ادائے فریضہ قصد مراجعت اور اگر زندگی باقی ہے تو انشاءاللہ اول عشرہ محرم میں واپسی وطن۔ یہ سارے ارادے اپنے ہیں اور بندوں کو اپنے ارادوں کے نفاذ پر جیسی قدرت ہے، اس کا حال معلوم! ہوگا وہی جو کچھ بندہ کا چاہا نہیں بلکہ بندوں کے پروردگار مالک کا چاہا ہوگا۔ کیا ایک مشت خاک اور کیا اس کے ارادے! ارادہ کا حق تو اسی کو ہے جس کے ہاتھ میں موت و زندگی، عافیت و سلامتی کی کنجیاں ہیں۔ مولا کی شانِ کریمی دیکھئے کہ مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی (شیخ الحدیث جامعہ عثمانیہ دکن اور سچ کے مقالہ نگار خصوصی، ساکن موضع گیلانی صوبہ بہار) جیسے صاحبِ ذوق و صاحبِ علم بزرگ اور بعض اور عزیزوں اور مخلصوں کی معیت کی سعادت اور رفاقت کی دولت بھی نصیب میں آرہی ہے۔ انشاءاللہ العزیز

سچ اس مدت میں کیونکر جاری رہ سکے گا؟ افسوس ہے کہ اس کی کوئی قابلِ اطمینان صورت نہ نکل سکی۔مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اس کی اشاعت بارہ تیرہ ہفتوں کے لیے بند رہے، وسط جون تک اس خادم کی واپسی کی توقع ہے۔ ایک آدھ ہفتہ کے آرام کے بعد شروع جولائی سے پھر اسی خدمت کا اجراء ہوسکتا ہے۔ البتہ وسط مارچ سے آخر مارچ تک کے پرچوں کے مضامین فراہم کئے جاتا ہوں۔ میری عدم موجودگی میں مولوی ظفر الملک صاحب علوی کاکوروی (مہتمم سچ)، ان پرچوں کو شائع فرمائیں گے۔اس حساب سے ناظرین کو صرف تین مہینے کے لیے زحمتِ انتظار برداشت کرنی ہوگی۔ سچ سے محبت و حسنِ ظن رکھنے والے بھائیوں کے لیے یہ مدت بھی بہت ہے اور خوب جانتا ہوں کہ انھیں اس قدر انتظار بھی نہایت شاق گزرے گا لیکن سچ پوچھئے تو التواء کی مدت کون سی ایسی بڑی مدت ہے اور سچ کا نکلتے رہنا ہی کیوں اتنا اہم اور ضروری فرض کرلیا گیا ہے جو اس کے سہ ماہی التواء پر اس قدر رنج و غم کیا جائے! آخر: غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں

دورانِ سفر میں کچھ لکھنے کی نوبت ہی کیوں آنے لگی اور اگر کچھ آئی بھی تو اس کی اشاعت کے اولین حقدار روزنامہ ہمدرد (دہلی) کے صفحات ہیں۔ (مولانا محمد علیؒ اس وقت علیل و نزار بہ غرض علاج سفر یورپ پر گئے ہوئے تھے اور ان کے مشہور روزنامہ ہمدرد (دہلی) کی انگریزی خاکسار کے سپرد تھی۔)

آدابِ سفرِ حج سے ہے کہ اس سفر کو سفرِ آخرت کا نمونہ سمجھے، احرام کی چادروں کو کفن کی چادروں کا نمونہ تصور کرے اور چلتے وقت اپنے تمام ملنے والوں اور اپنے سے تمام تعلق رکھنے والوں سے اپنی خطاؤں کی معافی طلب کرے۔ ناظرینِ سچ تک فرداً فرداً پہنچنا ممکن نہیں، ان کے حقوق کی ادائی میں مدیر سچ کی جانب سے خدا معلوم کتنی غفلتیں اور کوتاہیاں اب تک ہوئی ہوں گی اور خدا معلوم کتنوں کی دل آزاریاں ان اوراق کے ذریعہ سے ہوچکی ہوں گی، سب کی خدمت میں بمنت و لجاجت گزارش ہے کہ اپنے خادم کی بڑی اور چھوٹی، دانستہ اور نادانستہ ساری خطاؤں کو اللہ کے واسطے صدقِ دل سے معاف فرمائیں، وہ جو حاکموں کا حاکم ہے، ان کی خطاؤں کو بھی معاف فرمائے گا، اس دربار کے سچے سفیر کی بشارتیں اور وعدے اس باب میں تصریحاً موجود ہیں۔

التماس سے عفو کے بعد دوسری گزارش سچ کی برادری سے یہ ہے کہ اس خادم کو دعائے خیر سے محروم نہ رکھا جائے اور زاہد و فاسق سب کی سننے والے کی بارگاہ میں بار بار عرض کیا جائے کہ اس گناہگار کو حجِ مبرور اور زیارتِ مقبول نصیب ہو، حکم ملا ہے کہ توشۂِ سفر کا سامان رکھو اور پھر خود ہی ارشاد ہوا ہے کہ بہترین توشۂِ سفر تقویٰ ہے۔ ( وتزودوا فان خیر الزاد التقویٰ) یہاں تقویٰ کیسا، تقویٰ کا سایہ بھی نہیں پڑنے پایا، سہارا جو کچھ ہے وہ کسی رؤف و رحیم کی رحمتِ بے حساب اور کرمِ بے انداز کا ہے اور اس کے بعد اگر کسی توشہ کی طلب و ہوس ہے تو وہ اہلِ دل کی دعائیں ہیں۔ زہے نصیب اس کے جس کے نصیب میں یہ تو توشہ آ جائے

شانِ کریمی کے حوصلے دیکھنا، کیسے نامہ سیاہ کو نوازا جارہا ہے، کس ننگِ خلائق کو سرفراز کیا جا رہا ہے، شاعر نے صدیوں پیشتر اپنے تخیل کی رو میں کہا تھا

بطواف کعبہ رفتم، بہ حرم راہم نہ دادند تو برونِ در چہ کردی کہ درونِ خانہ آئی

وہاں تو شاعری تھی، پر اپنی طرف دیکھ کر دل دھڑک رہا ہے اور ہمت جواب دے رہی ہے کہ کہیں اپنے حق میں یہ شاعری ماجرائے حقیقت نہ بن جائے! مولا ہر بیکس کی لاج تیرے ہاتھ میں ہے! ہر مفلس کا آسرا تیرا ہی دستِ کرم ہے، بلایا ہے تو اپنے در سے محروم نہ واپس کرنا، اپنے اس غضب سے پناہ میں رکھنا کہ اس آستانِ پاک تک پہونچ کر انوار صاحبِ خانہ کی نوازش سے یکسر محرومی رہے، نہ ہو کہ مکان پر حاضری کے بعد بھی لامکان والے مکین کی تجلیات قبول پذیرائی حجاب ہی میں رہیں! بیت کے ساتھ رب البیت کے انوارِ جمال کی بھی جھلک اپنے ظرف و بساط کے لائق نصیب ہو! مُردوں کو جلانے والے مالک! مایوسوں کو خوشخبری دینے والے مولیٰ! بیکسوں کی دست گیری کرنے والے آقا! دلوں کے زخم پر مرہم رکھنے والے پروردگار! تجھ سے بھاگا ہوا تیرا نافرمان غلام، تیرے اور تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانِ پاک پر سر رکھنے کو حاضر ہو رہا ہے، دعاؤں کا قبول کرنا تیرے ہی ہاتھ ہے اور دعاؤں کی توفیق دینا بھی تیرے ہی ہاتھ میں:

اے خدائے پاک بے انباز دیار دست گیر و جرم مارا اور گذار یاد دہ مارا سخنہائے رقیق کہ ترا رحم آور داں اے رفیق ہم دعا از تو اجابت ہم زتو ایمنی ازتو، مہابت ہم زتو گر خطا گفتیم اصلاحش توکن مصلحی تو از تو اصلاح سخن

سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ اللہ اکبر واللہ اکبر وللہ الحمد

ناقل: محمد بشارت نواز

https://telegram.me/ilmokitab/