تبصرہ کتب : پاکستانی معاشرے میں مطلقہ خواتین و دیگر کتابیں ۔۔۔ تبصرہ نگار : ملک نواز احمد اعوان

پاکستانی معاشرے میں مطلقہ خواتین کے سماجی و قانونی مسائل (شرعی تناظر میں تجزیاتی مطالعہ) مصنفہ: ڈاکٹر سیّدہ سعدیہ صفحات:437 قیمت: 600 روپے ناشر:ڈاکٹر سیّدہ سعدیہ فون: 0333-4492062
زیر نظر کتاب ’’پاکستانی معاشرے میں مطلقہ خواتین کے سماجی و قانونی مسائل‘‘ (شرعی تناظر میں تجزیاتی مطالعہ) اصل میں محترمہ سیّدہ سعدیہ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو نہایت اہم موضوع پر لکھا گیا، جس پر ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے دی گئی۔ یہ مقالہ بڑی محنت اور دقتِ نظر سے لکھا گیا ہے اور اردو کے دینی لٹریچر میں وقیع اضافہ ہے۔ یہ کتاب چھے ابواب پر مشتمل ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:زیر نظر کتاب ’’پاکستانی معاشرے میں مطلقہ خواتین کے سماجی و قانونی مسائل‘‘ (شرعی تناظر میں تجزیاتی مطالعہ) اصل میں محترمہ سیّدہ سعدیہ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو نہایت اہم موضوع پر لکھا گیا، جس پر ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے دی گئی۔ یہ مقالہ بڑی محنت اور دقتِ نظر سے لکھا گیا ہے اور اردو کے دینی لٹریچر میں وقیع اضافہ ہے۔ یہ کتاب چھے ابواب پر مشتمل ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے: باب اول: پاکستان کا خاندانی نظام و معاشرے میں خواتین کی حیثیت خاندان کی اہمیت، پاکستان کے خاندانی نظام کا پس منظر، پاکستان کا خاندانی نظام، پاکستانی معاشرے میں خواتین کی سماجی و قانونی حیثیت، پاکستانی معاشرے میں خواتین کی سماجی حیثیت، منفی رسوم و رواج اور تہذیبی و ثقافتی اختلاط کے نتائج، پاکستان میں عورتوں کی قانونی حیثیت و حقوق، پاکستان میں خواتین کی سماجی و قانونی حیثیت۔ ۔ ۔ تجزیاتی مطالعہ، سفارشات، باب دوم: پاکستانی معاشرے میں طلاق کے اسباب پاکستانی معاشرے میں شرحِ طلاق، پاکستانی معاشرے میں طلاق کے اسباب، سماجی و قانونی ماہرین کے نزدیک طلاق کی شرح میں اضافے کے اسباب باب سوم: پاکستانی مطلقہ خواتین کے سماجی و قانونی مسائل پاکستانی مطلقہ خواتین کو درپیش سماجی مسائل، پاکستانی مطلقہ خواتین کے قانونی مسائل باب چہارم: اسلام کا قانونِ طلاق۔ ۔ ۔ تجزیاتی مطالعہ اسلام کا قانونِ طلاق (مختصر جائزہ)، خلع، آدابِ طلاق، ایک مجلس کی تین طلاقیں۔ ۔ ۔ تجزیاتی مطالعہ، تجاویز و سفارشات باب پنجم: پاکستان کے عائلی قوانین کا شرعی قوانین کی روشنی میں تجزیاتی مطالعہ پاکستان کے عائلی قوانین کا پس منظر، پاکستان میں عائلی قوانین کا نفاذ، پاکستانی معاشرے میں تعدد ازواج حقیقی صورت حال، تنسیخِ نکاح کی وجوہات، پاکستان کی عدالتی صورت حال اور مقدماتِ خلع و تنسیخِ نکاح، یک طرفہ عدالتی خلع کی شرعی حیثیت باب ششم: مطلقہ خواتین کے مسائل کے حل کے لیے مجوزہ اقدامات خاندانی سطح پر اصلاحِ احوال، دینی و مذہبی پہلوؤں سے اصلاح کی کوشش، مختلف سماجی اداروں کی جانب سے اصلاحی تدابیر، قانونی و حکومتی سطح پر صورتِ حال کی بہتری کے لیے حکمت عملی نتائجِ تحقیق انفرادی سطح پر زوجین کا ذاتی کردار، سماجی سطح پر مسائل کے ذمہ داران تجاویز و سفارشات سماجی مسائل کے حل کے لیے تجاویز و سفارشات، دینی طبقات کے حوالے سے تجاویز وسفارشات، قانونی مسائل کے حل کے لیے تجاویز و سفارشات کتاب پر جن فاضل اساتذہ کی آراء درج کی گئی ہیں وہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ بشارت ڈین فیکلٹی علوم اسلامیہ جامعہ پنجاب لاہور تحریر فرماتی ہیں: ’’خاندان انسان کی دینی، حیاتیاتی، اخلاقی ضرورت اور معاشرے کی اساس ہے۔ کسی بھی معاشرے کا استحکام اور تعمیر و ارتقاء بھی اسی ابتدائی سماجی اکائی کا رہینِ منت ہے۔ رشتۂ زوجیت کی صورت میں قائم ہونے والے اس ادارے کو اللہ رب کائنات نے باہمی سکون و مؤدت، امن و خیر خواہی، حسنِ تعلق، احسان و ایثار اور انسان کی اوّلین تربیت گاہ کا باعث بنایا ہے۔ خاندان کی یہی برکات و وظائف اسے دیگر معاشرتی اداروں سے ممیز کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہی ادارہ اپنے ان وظائف سے عاری ہوجائے تو پھر سماج کی ہر سطح پر انتشار و فساد، اخلاقی تنزلی اور شکست و ریخت نظر آئے گی۔ عصرِ حاضر جہاں اپنی روزافزوں ترقی کے باعث ہر لمحہ انسان کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کیے دیتا ہے وہیں معاشرتی انتشار اور طلاق و خلع کے خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے رجحانات انسان کو قعرِ مذلت کی جانب دھکیلنے پر آمادہ ہیں۔ طلاق و خلع کے اثرات تنہا زوجین تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ اس کا دائرۂ کار واثرات وبائی امراض کی مانند تمام معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ تصنیف: ’’پاکستانی معاشرے میں مطلقہ خواتین کے سماجی و قانونی مسائل (شرعی تناظر میں تجزیاتی مطالعہ)‘‘ میں خاندانی نظام کے بگاڑ کی بدترین شکل طلاق و علیحدگی سے متاثر ہوتی ہوئی خواتین کے سماجی و قانونی مسائل کو احتیاط کے ساتھ محققانہ اسلوب میں بڑے نفیس انداز میں موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ محققہ کی معلومات تازہ اور تحقیقات نادر ہیں۔ مصنفہ نے انتہائی حساس موضوع پر پاکستانی معاشرے کا تجزیہ کرکے خاندانی نظام کی شکست وریخت کے حقیقی اسباب متعین کیے ہیں، نیز اس کے عملی اثرات کا جائزہ بنظر عمیق لیا ہے۔ کتاب میں پیش کی گئی عملی تجاویز اسباب و مسائل کے تدارک اور قانون ساز اداروں کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔ مصنفہ کی یہ تحقیقی کاوش میرے لیے باعثِ فخر و انبساط ہے کہ انہوں نے انتہائی حساس موضوع کو اپنی تحقیق کا محور بنایا اور ایک علمی دستاویز مرتب کی۔ دعاگو ہوں کہ اللہ عزوجل اس علمی کام کو دارین کی منفعت و برکات کا باعث بنائے۔ آمین‘‘ پروفیسر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی ڈائریکٹر ادارۂ علوم اسلامیہ جامعہ پنجاب لاہور کی رائے ہے: ’’علوم اسلامیہ کی تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر دور میں اُس دور کے اساتذہ کو کچھ شاگرد ایسے بھی ملتے ہیں جن کے تلمذ پر ان اساتذہ کو فخر ہوتا ہے۔ عزیزہ سیدہ سعدیہ ایسی باصلاحیت تلمیذہ ہیں کہ مجھے ذاتی طور پر ان کا استاد ہونے پر فخر ہے۔ میرے لیے محترمہ سیدہ سعدیہ کی تصنیف ’’پاکستانی معاشرے میں مطلقہ خواتین کے سماجی و قانونی مسائل (شرعی تناظر میں تجزیاتی مطالعہ)‘‘ جو کہ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، کے لیے حرفِ چند لکھنا خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔ موضوع کا محققانہ اسلوب اور علمی سنجیدگی اپنی جگہ اہم ہے، لیکن اس میں خواتین کے سماجی و قانونی مسائل کو جس دقتِ نظری سے جانچا گیا ہے اور اس کے بعد شرعی تناظر میں ان سے عہدہ برا ہونے کے لیے جو تجاویز دی گئی ہیں وہ قابلِ قدر بھی ہیں اور قابلِ عمل بھی۔ ان تجاویز کی روشنی میں اگر پاکستانی قوانین کو ترمیم و تبدیل کے مراحل سے گزارا جائے تو پاکستانی مطلقہ خواتین کے لیے بہتر زندگی کے مواقع فراہم ہوسکتے ہیں۔ اس کتاب کی ترتیب میں معنوی حسن پایا جاتا ہے اور جدید تحقیق کے اصولوں کے ساتھ ساتھ اس چیز کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے کہ معنویت کے اعتبار سے جس موضوع کو اوّلیت حاصل ہے وہ ترتیب میں بھی مقدم رہے۔ علمی دنیا خصوصاً وہ علمی دنیا جہاں اپنی رائے دلائل کی قوت کے ساتھ ظاہر کرنے کی آزادی بھی قرآن و سنت کی فراہم کردہ حدود کے لحاظ سے ہے، وہاں فقہی و اجتہادی اختلافات کا رونما ہونا اس ماحول کا فطری تقاضا ہے۔ مؤلفہ کا موضوع خالصتاً فقہی ہے، لہٰذا فقہی اختلافات کو واضح کرنا اور محققہ کی حیثیت سے دلائل کی بنیاد پر ان میں سے کسی رائے کو راجع قرار دینا بھی ذمہ داری بنتی ہے۔ محققہ نے ادب و احترام کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے مقالے میں اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی ادا کیا ہے۔ میں مؤلفہ کو کتاب کی اشاعت پر تہِ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ رب العزت سے دعاگو ہوں کہ وہ اس علمی کاوش کو تشنگانِ علم کی سیرابی کا باعث بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔‘‘ پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت تحریر فرماتی ہیں: ’’آج پوری دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرچکی ہے جس کا انکار خطرے کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں موندنے کے مترادف ہے۔ آج دنیا کے تمام معاشروں کو عائلی زندگی کی تخریب اور توڑپھوڑ کا سامنا ہے، لیکن اگر یہی صورتِ حال مملکتِ پاکستان جو شریعتِ مطہرہ کے نفاذ کے لیے وجود میں آئی، پر منطبق ہوتی ہو تو لمحۂ فکریہ ہے۔ طلاق و خلع یعنی خاندانی نظام کو درہم برہم کرنے والے شیطانی ہتھیار کے روز افزوں اعداد و شمار کے گراف پر ایک سرسری نظر خطرے کی گھنٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔ عزیزہ سیدہ سعدیہ نے اپنی کتاب ’’پاکستانی معاشرے میں مطلقہ خواتین کے مسائل (شرعی تناظر میں تجزیاتی مطالعہ)‘‘ میں مدلل اور جامع مواد پیش کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اس تصنیف میں پاکستان کی سماجی/معاشرتی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے طلاق و خلع کے اسباب و نتائج کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ ان کی یہ بات حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ مرد تو طلاق کے الفاظ بول کر اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق ہر قسم کے اقدام کے لیے آزاد ہوجاتا ہے، جبکہ مطلقہ یعنی عورت کو اَن گنت معاشرتی، معاشی، نفسیاتی و حیاتیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اسے زندہ درگور کردینے کے مترادف ہوتے ہیں۔ گویا عورت کی زندگی تو ایک بندگلی میں چلی جاتی ہے جہاں اس دلدل سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر سیدہ سعدیہ کا یہ تحقیقی کام ایک ایسا آئینہ ہے جو معاشرے کی موجودہ صورتِ حال کا بہترین عکاس ہے۔ یہ منظر اس المناک کہانی کے مختلف کرداروں پر گزرنے والے ان لمحات کو بھی سمیٹ لیتا ہے جن میں مطلقہ کی آہیں اور نہ ختم ہونے والے مصائب کے ساتھ ساتھ مستقبل کے معمار معصوم بچوں کی حالتِ زار بھی دیکھی جا سکتی ہے جو باپ کی شفقت و تربیت سے محرومی کا شکار ہوکر مختلف ذہنی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ تحقیقی کام درحقیقت اس بے حس معاشرے کے منہ پر ایک طمانچے سے کم نہیں۔ عزیزہ نے اپنے تحقیقی کام کے دوران اسلام میں خاندانی نظام کی اہمیت، پاکستان میں خواتین کی سماجی و قانونی حیثیت اور طلاق میں اضافے کے اسباب پر مدلل روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کے آخر میں ڈاکٹر سیّدہ سعدیہ نے اصلاحِ معاشرہ کے لیے گراں قدر تجاویز پیش کی ہیں۔ وہ اصلاِح معاشرہ کے لیے خاندان کی اصلاح کو کلیدی حیثیت دیتی ہیں اور اس اصلاح کو جہاد قرار دینے میں حق بجانب نظر آتی ہیں۔ انہوں نے معاشرے کو اس جہاد میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے اور باور کرایا ہے کہ مطلوب اصلاح کے لیے ہر دو یعنی زوجین (مرد و عورت) کو اپنے غلط رویوں کو شعوری طور پر تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مخلص بندۂ رب بن کر ان کی اصلاح کے لیے بھرپور مساعی کرنا ہوگی۔ یہ بھی ذہن میں رہے کر اگر معاشرے کا یہی مزاج رہا اور عائلی قوانین سے روگردانی برتی گئی تو شاید یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے۔ اللہ رحیم و کریم عزیزہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور دارین کی لازوال نعمتیں ودیعت فرمائے۔ آمین‘‘ کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے اور رنگین سرورق سے مزین ہے۔
نام کتاب: اسلام، پاکستان اور مغرب علمی و ادبی تناظر میں مصنفہ: ڈاکٹر نجیبہ عارف صفحات: 296 قیمت 600 روپے ناشر: ادارہ تحقیقاتِ اسلامی۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد
’’اسلام، پاکستان اور مغرب۔ علمی و ادبی تناظر‘‘ کے نام سے یہ گراں قدر کتاب ڈاکٹر نجیبہ عارف کے تحقیقاتی مقالات کا مجموعہ ہے جس کو ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اسلام آباد نے اپنے روایتی اسلوب میں طبع کیا ہے سلسلۂ مطبوعات میں اس کا شمار (169) ہے۔ مصنفہ کا تعارف ضروری ہے۔‘‘ نجیبہ عارف بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد میں شعبۂ اردو کی سربراہ اور ادبی محقق، نقاد، مترجم اور شاعرہ ہیں۔ ان کی متعدد علمی و تحقیقی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ تحقیق میں ان کا خاص موضوع جنوبی ایشیا کی فکری و تہذیبی تاریخ اور ادب کا بین العلومی مطالعہ ہے۔ انہوں نے 2010ء میں معاصر اردو ادب، خصوصاً فکشن اور شاعری پر گیارہ ستمبر کے اثرات کا پہلا تنقیدی مطالعہ وسکانسن یونی ورسٹی، میڈیسن میں پیش کیا جو بعدازاں Annual of Urdu Studies میں شائع ہوا۔ 2013ء میں لندن یونی ورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلوشپ کے دوران انہوں نے 1757ء سے 1857ء تک کے عرصے میں جنوب ایشیائی مسلمانوں کے مغربی ممالک کے سفرناموں پر تحقیق کی اور ان کے تصورِ مغرب کا جائزہ پیش کیا۔ اس دوران میں انہوں نے متذکرہ موضوع پر یونی ورسٹی آف لندن، ہائیڈل برگ یونی ورسٹی، یونی ورسٹی آف روم اور ایڈنبرایونی ورسٹی میں کئی لیکچر اور سیمینار دیے نیز ان کا تحقیقی مقالہ ہائیڈل برگ کے معروف تحقیقی مجلے جرنل آف انڈولوجی اینڈ ساؤتھ ایشین اسٹڈیز (Journal of Indology and South Asian Studies) میں شائع ہوا۔ ان کا اگلا تحقیقی منصوبہ، اسی حوالے سے نو آبادیاتی عہد کے سفرناموں کے مطالعے پر مبنی ہے۔ انہوں نے برطانوی کتب خانوں سے، اٹھارویں اور انیسویں صدی کے کئی نادر مخطوطات بھی دریافت کیے جن میں سے تین سفرنامے تدوین کے بعد شائع ہو چکے ہیں اور باقی مخطوطات کی تدوین و تحقیق کا کام جاری ہے۔ علاوہ ازیں تصوف، اسلام اور جدید سائنسی نظریات پر بنیاد رکھنے والی عکسی مفتی کی کتاب Allah Measuring the Intangible کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ اور ادبی تنقیدی مباحث پر مشتمل کئی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ وہ 2012ء سے لاہور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے اردو تحقیقی مجلے ’’بنیاد‘‘ کی مہمان مدیر کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے اعردو مجلات کی اشاریہ سازی کے لیے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی میں پہلا مرکز اشاریہ سازی بھی قائم کیا ہے جس کے تحت اردو مجلات کے اشاریے کی پہلی جلد شائع ہو چکی ہے۔ وہ اندرون و بیرونِ ملک متعدد عالمی کانفرنسوں میں مقالات پیش کر چکی ہیں اور علمی و ادبی حلقوں میں واضح شناخت رکھتی ہیں۔‘‘ کتاب تین حصوں میں منقسم ہے ہر حصے میں تین تین مقالات ہیں جو درج ذیل ہیں۔ اسلام اور عصررواں 1۔اکیسویں صدی کے ماحولیاتی مسائل: اسلامی تناظر ۔ اسلام اور مغرب: 9/11 کے بعد امریکہ میں مطالعۂ اسلام کی ایک نئی جہت 3۔ اردو میں پیغبر اسلام کی سیرت نویسی: نو آبادیاتی اثرات پاکستان: ماضی، حال، مستقبل 4۔ تاریخ کا جبر اور ولیم ڈیلرمپل کا آئینہ 5۔ پاکستانی قومیت کی تشکیل اور اردو زبان 6۔ پاکستان کا مستقبل: استدلال، اکتشافات، اختلافات مرکز سے حاشیے تک: معاصر عالمی تحریکیں اور ان کا ردعمل 7۔ اردو زبان و ادب کی تاریخ نویسی: مستشرقین کی خدمات 8۔ تانیثیت کے بنیادی مباحث: اقبال نقطۂ نظر 9۔ عالمگیریت اور اردو ادب ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد تحریر فرماتے ہیں۔ محترمہ نجیبہ عارف نے اس کتاب میں تجزیہ کرتے ہوئے تلخ حقائق کی نشاندہی کی اور حقیقت پسندانہ تجزیے پر مشتمل قلیل تعداد میں دستیاب معاصر اسلامی ادب میں خوبصورت اضافہ کیا ہے۔ یہ کتاب ایک طرف مصنفہ کی اسلام، پاکستان اور اردو زبان سے محبت کی عکاس ہے تو دوسری طرف تلخ حقائق پر ان کی تجزیاتی نظر کی شہادت مہیا کرتی ہے۔ مصنفہ نے اظہار خیال کے لیے اردو الفاظ پر اکتفا کرتے ہوئے اردو میں انگریزی الفاظ کے بے جا استعمال کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ کتاب کے مباحث فکری ارتقا، الفاظ کے نئے معانی میں ڈھل جانے کی استعداد، ادب سے گہرے شغف اور تنقیدی نظر کے ترجمان ہیں۔ کتاب کے پہلے حصے ’’اسلام اور عصررواں‘‘ میں مصنفہ نے معاصر مسائل کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کی وضاحت کی ہے۔ اکیسویں صدی کے ماحولیاتی مسائل میں مصنفہ نے ماحول کو درپیش خطرات کا ذکر کرتے ہوئے کرۂ ارض کے لیے تحفظ ماحول کا جائزہ لیا ہے جبکہ ماحولیاتی توازن قائم کرنے کے لیے اسلامی اصولوں کی سریت رسولؐ کے اطلاقی مطالعہ کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے نظافت پسندی اور جمال آفرینی کی اسلامی اقدار کو پھر سے اختیار کرنے کی ضرورت واضح کی ہے۔ ’’اسلام اور مغرب: 9/11 کے بعد امریکہ میں مطالعۂ اسلام کی ایک نئی جہت‘‘ میں مصنفہ نے نہ صرف پہلے سے میں خود امریکیوں نے اسلام مخالف شدید جذبات پر مبنی اسلام کی متعصبانہ اور بنیاد پرستانہ تفہیم کی بجائے اسلامی مذہبی روایت کو تجریاتی اور استدلالی مطالعے کے ذریعے جاننے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ’’اردو میں پیغبر اسلامؐ کی سیرت نویسی: نوآبادیاتی اثرات‘‘، میں مصنفہ نے سیرت نویسی کے روایتی اسلوب پر نو آبادیاتی اثرات کا جائزہ لیا ہے اور اس دور کے سیرت نگاری کے اسالیب پر معاصر معاشرتی اور تہذیبی اثرات کی بھی نساندہی کی ہے۔ ’’تاریخ کا جبر اور ولیم ڈیلرمپل کا آئینہ‘‘ آگر ایک طرف ولیم ڈارلمپل کی کتاب دی لاسٹ مغل پر تبصرہ ہے تو دوسری طرف برصغیر پاک و ہند میں اسلامی تہذیب و تمدن کے زوال کے اسباب کا تجزیہ بھیہ ہے۔ ’’پاکستانی قومیت کی تشکیل اور اردو زبان‘‘ میں مصنفہ نے معاصر نظریات کی روشنی میں قومیت کے عناصر سے بحث کی ہے اور پاکستان میں قومیت کے اجزاء کا تجزیہ کرتے ہوئے اردو زبان کے کردار اور اہمیت کا جائزہ پیش کیا ہے۔ ’’پاکستان کا مستقبل‘‘ میں نجیبہ عارف نے حب وطن کی بڑھتی ہوئی آنچ اور بحیثیت مجموعی پاکستانی عوام کے معتدل رویوں کی نشاندہی کرتے ہوئے جمہوری پاکستان کے تابناک مستقبل کی پیشن گوئی کی ہے۔ مستشرقین نے اردوزبان میں پہلی بار جدید سائنسی انداز میں تاریخِ ادب مرتب کرنے کی جو طرح ڈالی ہے مصنفہ نے اس کا جائزہ ’’اردو زبان و ادب کی تاریخ نویسی: مستشرقین کی خدمات‘‘ میں کیا ہے اور مستشرقین نے ایک عہد کی مکمل ادبی فضا کی جو تصویر کشی کی، اس کو سراہا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے بارے میں ’’تانیثیت کے بنیادی مباحث: اقبال کا نقطۂ نظر‘‘ میں مصنفہ نے حقوق نسواں سے متعلق علامہ اقبال کے فکری ارتقا کی نشاندہی کی ہے۔ اس کتاب کے آخری مبحث ’’عالم گیریت اور اردو ادب‘‘ میں مصنفہ نے عالمگیریت کے مضمرات اور ترقی پذیر اقوام کی تہذیب و معاشرت خصوصاً زبان و ادب پر اس کے اثرات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ بلاشبہ یہ کتاب ادارہ تحقیقات اسلامی کی مطبوعات میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔‘‘ یہ ایک معلومات افزا تحقیقی کتاب ہے ہمارے ہاں جگہ ہوتی تو ہم مقالات کے اہم اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ڈاکٹر معین الدین عقیل سابق ڈین کلیڈ زبان وا دب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد تہریر فرماتے ہیں ’’ڈاکٹر نجیبہ عارف ایک ہمہ صفت اور تحقیقی و فکری جہات کی حامل مصنفہ ہیں، جو بیک وقت شعری ذوق و اپچ بھی رکھتی ہیں، تنقیدی و تخلیقی مباحث میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرتی ہیں اور تحقیق و جستجو بھی ان کی جولان گاہ کا ایک نمایاں امتیاز ہے۔ اب تک ان کی جو مطبوعات کی وسعت و گہرائی، اسلوب کی عمدگی اور موضوعات کی ندرت و گہرائی نے ایک عالم کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور یہ سلسلہ روز افزوں ہے۔ ان کی زیرنظر کاوش ایسے مقالات کا مجموعہ ہے جو اپنے موصوعات کی ندرت و انفرادیت اور فکر انگیزی کے باوصف پر کشش بھی ہیں اور پر مغز بھی۔ ان کا مطالب ہمیں اس میں شامل موضوعات اور مباحث کے توسط سے اور اسلاب کی دلکشی کے وسیلے سے ایسی دنیاؤن میں لے جاتا ہے جو ابھی اردو میں نئے ہیں اور مختلف بھی۔ عصر حاضر میں عالم اسلام پاکستان اور مغرب کے علمی و ادبی تناظر پر مصنفہ کے زاویۂ نظر اور مطالعے و تجزے کو ہم یہاں بیک نظر دیکھ بھی سکتے ہیں اور بہت کچھ اخذ بھی کر سکتے ہیں کہ یہ سب ہمارے لیے نئے بھی ہیں اور فکر انگیز بھی۔‘‘
فرائیڈے اسپیشل