سچی باتیں ۔۔۔ کامل اور مکمل زندگی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

02:24PM Fri 18 Sep, 2020

 1925-09-14

آپ اگر مسلمان ہیں، اگر کلمۂ لاالہ الہ اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، اگر اپنے تئیں امت محمدیہؐ میں داخل سمجھتے ہیں، تو آپ کے نزدیک دنیا کا سب سے بڑا انسان کون ہوسکتاہے؟ کیا آپ کا کوئی دوست؟ کوئی عزیز؟ کوئی بزرگ خاندان؟ کوئی رئیس؟ کوئی بادشاہ؟ کوئی درویش؟ کوئی عالم؟کوئی امام؟ آپ کا اُستاد؟ آپ کا مرشد؟ کوئی مصنف؟ کوئی واعظ؟ کوئی شاعر؟ کوئی ادیب؟ آپ کے خدا نے سب سے بڑا انسان اپنے آخری رسولؐ کو بناکر بھیجاہے، سب سے زیادہ بزرگی وفضیلت اُس وجود پاک کے حصہ میں رکھ دی، جس کے ذریعہ سے تمام دنیا کی رہنمائی اور ہرزمانہ کی ہدایت کے لئے سب سے زیادہ جامع، سب سے زیادہ مفضل، اور سب سے زیادہ محفوظ پیغام نازل کیاہے، اور سب سے بڑھ کر بڑائی اُن کے نصیب میں دے دی، جن کا اسم گرامی آپ کی زبانوں پر محمد رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام ہے۔ پس اگرآپ اپنے اللہ کے بندۂ مسلم ہیں، تو یقینا آپ کا بھی عقیدہ وایمان یہی ہوگا۔

لیکن اِس بڑائی کے کیا معنی ہیں؟ کیا (نعوذ باللہ) حضور انورؐ  کوئی بُت ہیں، جن کی پوجا کی جائے؟ کیا (نعوذ باللہ) سرور کائناتؐ  کوئی خوشامد پسند رئیس ہیں، جنھیں شاعرانہ قصیدوں سے خوش کیا جاسکتاہے؟ کیا (نعوذ باللہ) خاتم النبیینؐ  کوئی دُنیوی معشوق ہیں، جن کی شان میں نازک خیالیاں صَرف کی جاتی ہیں؟ اللہ کے پاس اِس پاک وپاکیزہ ، مخلص وخالص، بزرگ وبرتر، بندۂ کامل کو مرتبہ اِن دنیوی مرتبوں سے کہیں زائد بڑھ چڑھ کر، اور کہیں اعلیٰ وافضل ہے۔

کہ کشید دامنِ فطرتت کہ بقَیدِ ماہ و من آمدی!

تو بہارِ عالمِ دیگری، زکجا بہ ایں چمن آمدی!

اُن کی ذات گرامی، خدا کی کاریگری کا بہترین نمونہ تھی۔ اُن کی حیاتِ طیبہ، صنعتِ خداوندی کا کامل ترین ثمرہ تھی۔ اُن کی پاک زندگی، بشری زندگی کی، ہر حیثیت اورہر اعتبار سے کامل ومکمل نظیر تھی۔

جب یہ عقیدہ آپ کا بالکل مُسلّم ہے، جب نبی کریمؐ کو واقعۃً آپ تمام اچھوں سے اچھا اور تمام بڑوں سے بڑا سمجھتے ہیں، تو پھر یہ کیا ہے، کہ حدیثِ رسولؐ کے مقابلہ میں آپ دوسروں کے قول کو پیش کرتے ہیں، اور رسولؐ کے کسی عمل کے ہوتے ہوئے آپ دوسروں کے فعل وکردار سے سند پکڑتے ہیں! اگر آپ (نعوذ باللہ) رسول اللہﷺ کی عظمت وفضیلت کے منکر ہیں،توآپ سرے سے اس بحث میں مخاطب ہی نہیں۔ لیکن اگر آپ زبان سے اُن کے سب سے افضل واشرف اور معصوم ہونے کا اقرار کرتے ہیں، تو پھر یہ کیونکر جائز ہوسکتاہے ، کہ آپ اُن کے اقوال واعمال پر دوسروں کے اقوال واعمال کر ترجیح دینے لگیں، ان کی بتائی ہوئی راہ کو چھوڑ کر دوسروں کی روش اختیار کرنے لگیں، اور اُن کی ہدایتوں سے آنکھ اور کان بند کرکے اوروں کے طریقے قبول کرنے لگیں!

نافرمانوں کا ذکر نہیں، سرکشوں کا ذکر نہیں، گمراہوں کا ذکر نہیں، بھٹکے ہوؤں کا ذکر نہیں، ٹیڑی راہ چلنے والوں کا ذکر نہیں، صرف اچھوں اور بڑوں ، نیکوں اور پاکوں ، سچے عالموں اور مخلص زاہدون، اچھے بزرگوں اور پکّے مجاہدوں کو پیش نظر رکھ کر اپنے دل سے سوال کیجئے، کہ ان میں سے کسی کی زندگی کامل ومکمل ہوئی ہے؟ ان میں سے کوئی معصوم وبے خطا گذراہے؟ کسی کی حیات مبارک اس قدر پاک وپاکیزہ گذری ہے، کہ آپ بے کھٹکے ٹھیک اُسی کے نقشِ قدم پر قدم اُٹھاتے ہوئے ، پورے اطمینان وبے خوفی کے ساتھ ساری منزلیں طے کرسکتے ہیں؟ یہ مخصوص مرتبہ تو سارے دنیا وجہان کی مخلوقات میں اُس کے خالق نے صرف ایک ہی فرد کو دیاہے، جس کا نام محمد بن عبد اللہ (روحی فداہ) ہے۔ پر یہ کیسے غضب کی بات ہے، کہ آپ آفتاب کی روشنی سے اپنے اِرد گرد اندھیرا پیداکرتے ہیں، اور پھر چاہتے ہیں کہ شمع یا چراغ کی روشنی آپ کی راہِ زندگی کو پوری طرح منور کردے! سیدھی، صاف، ہموار، وبے خطر جنگی سڑک (صراط مستقیم) چھوڑ کر آپ تنگ وخطرناک، ناصاف وناہموار پکڈنڈیوں (ولا تتبعوا السبل) سے ہوکر جو منزل مقصود تک پہونچ جانا چاہتے ہیں! اس میں کوئی بات عقل ودانش کی ہے؟