وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (58)الأحزاب
اور جو لوگ مؤمن مردوں اورمؤمن عورتوں کو ایذادیتے ہیں ،بغیر اس کے انھوں نے کچھ کیا ہو،وہ موذی بہتان اور گناہ صریح کا بار اپنے اوپر لاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ بعد انبیا ئے کرام کے کوئی مسلمان معصوم نہیں ہوسکتا، امت کے ہر فرد سے کچھ نہ کچھ خطائیں ،لغزشیں یا گناہ سرزد ہوں گے لیکن محض اس بنا پر کہ ہر شخص سے گناہ وخطا کا امکان ہے، بغیر ثبوت کسی مسلمان پر کوئی جرم عاید کردینااور اسے بد نام کرنا یاکسی بدنامی کی حکایت سن کر بلا تحقیق اسے قبول کرلینا اور اس کی تشہیر میں لگ جانا ہر گز کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں بلکہ جو لوگ ایسا کرتے رہتے ہیں انھیں مسلمانوں کا دکھ پہنچانے والا بتایا گیا ہے اور انھیں ڈرایا گیا ہے کہ وہ اپنی یا دہ گوئی سے خود اپنے ہی اوپر تہمت و معصیت کا بار لادرہے ہیں۔
مؤمن کا مرتبہ اللہ کی نظر میں کعبۃ اللہ سے بھی بڑھ کر ہے (ابن ماجہ)اور مؤمن کی عزت اللہ کو سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہے اسلام میں تو ناپاک جانوروں کتے ،سور تک کو بلا وجہ تکلیف دینے کی اجازت نہیں پھر انسان اور مؤمن،انسان کو دکھ پہنچانا اسے بدنام کرنا اس کی توہین ورسوائی کے واقعات از خود تراشنایا دوسروں سے سنی سنائی حکایتوں اور روایتوں کا بلا تحقیق چرچا کرتے رہنا خدائی قانون میں کتنا سنگین جرم اور کیسی شدید معصیت ہوگی !یہ ’’تعلیم‘‘آپ کی کتاب کی ہے مگر آپ کا ’’عمل‘‘کیا ہے؟ اپنی دن بھر کی گفتگو کا کسی دن حساب لگائے اور اس کو جانچئے کہ آپ کے وقت کا کتنا بڑا حصہ محض اپنے ہی جیسے مسلمانوں کی ہجو سننے اور کرنے کی نذر ہوتا ہے !آپ کی صحبتوں میں جب کسی کی بد گوئی ہوتی ہے جب کسی کی شراب خوری و بدکاری کے واقعات بیان ہوتے ہیں، جب کسی کی بد مزاجی کا تذکرہ ہوتا ہے جب کسی کے گھر کے عیبوں کے قصے چھڑتے ہیں تو آپ کس لطف اور شوق سے سنتے ہیں !اور اس کے بعد کس کس طرح مزے لے لے کر دوسروں سے آپ اپنے ان نادروبیش بہا معلومات کو نقل فرماتے رہتے ہیں !پھر اس میں اس کی بھی قید نہیں کہ یہ تذکرے آپ کے دشمنوں ہی کے ہوں،ہموطن ،ہم محلہ ،ہمسایہ ،ساتھ کے پڑھے ہوئے، ساتھ کے کھیلے ہوئے ،ہم خاندان، دوست ،عزیزکوئی بھی اس سے محفوظ و مستثنیٰ نہیں کسی کی بھی رسوائی اور بدنامی کی بھنک بس کان تک پہنچ جائے بس پھر آپ ہوتے ہیں اور اس غریب کی عزت !آپ کی زبان ہوتی ہے اور اس بیچارے کی آبرو!
زمانہ کی ترقی کے ساتھ اب آپ کی اس خصوصیت میں بھی ماشاء اللہ ’’ترقی‘‘ہے پہلے بات بڑھے اور پھیلنے پر بھی اپنے ہی والوں اپنے ہی ملنے جلنے والوں تک محدود رہتی تھی ،اب اخبارات کے کالم میں اور پبلک جلسوں کے پلیٹ فارم ۔ فلاں انجمن کا حساب جھوٹا مدرسہ میں غبن ثابت ہوگیا ،فلاں لیڈر اتنا چندہ ہضم کر گیا ،فلاں قومی کارکن کی چوری پکڑی گئی ،فلاں شاہ صاحب نے بڑھاپے میں دوسرا عقد کرلیا،فلاں مولانا نے اپنی تنخواہ اتنی بڑھا رکھی ہے ، فلاں خاندان کی سفیدی سیاہی میں مل گئی ،فلاں گھرانے کی ناک کٹ گئی ،فلاں نے فلاں سے رشوت لی!یہ ہیں ہمارے اخبارات کی سرخیاں ،یہ ہیں ہمارے روزناموں کے مقالات کے عنوان!یہ ہیں ہمارے خوش تقریر وں کی تقریروں کے خلاصے !گویا اللہ کے نزدیک مؤمن کی عزت جس قدر قیمتی تھی ٹھیک اسی کے مقابل ہماری نظرمیں ہلکی اور بے وقعت ہوگئی ہے !اور خدائے ستار نے جتنی فضیلت مؤمنوں کے عیوب اور کمزوریوں کو چھپانے اور ان پر پردہ ڈالے رکھنے کی بتائی تھی اتنی ہی مسرت ہمیں ایک دوسرے کی پردہ دری کرنے ،ایک دوسرے پر گندگی اچھالنے اور ایک دوسرے کو ذلیل ورسوا کرنے میں ہورہی ہے !ہماری ان دلچسپیوں کا نتیجہ اگر اس صورت میں ظاہر ہورہا ہے کہ ہم خود ہر طرف ہنسے جارہے ہیں ،ہر محفل میں ہماری ہی بد نامی وذلت کے چرچے ہیں اور ہر زبان پر ہماری ہی رسوائی وبے آبروئی کے تذکرے ،تو اس کے ذمہ دار خود ہمارے ہی کر توت ہیں یا کچھ اور ؟