کسی کو برا کہنے کا انجام پہلے برسوں میں اب دنوں میں

Bhatkallys

Published in - Other

02:45PM Thu 20 Nov, 2014
از:مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی Nadviacademy@hotmail.com مغرب کی نماز مکمل کرکے جیسے ہی امام صاحب نے سلام پھیرا ،پچھلی صف سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا :۔ میرے بھائیو :۔ میری بچی بہت بیمار ہے ، اس کوکینسرہوگیا ہے ،میں مجبور اور معذور ہوں، آپ میری مدد کیجئے‘‘ وہ اپنی بات مکمل بھی نہیں کرپایا تھاکہ صف میں موجود کئی مصلیوں نے بیک آواز اس کوخاموش کرکے بٹھا دیااور اس سے یوں کہا گیا کہ مسجد میں نہیں مانگتے، باہر جاکے مانگو،میں سنتوں سے فراغت کے بعد مسجد سے باہر نکل رہاتھاتو دیکھا کہ وہ مجبور ومسکین مسجد کی سیڑھیوں پر اپنی چادر پھیلاکر بیٹھا ہواہے اور اس میں کچھ مصلیوں کی طرف سے رقم بھی پڑی ہوئی ہے،میرے پیچھے ہی وہ صاحب بھی آگئے جو شہر کے ایک سرمایہ دار بھی تھے اور جنھوں نے ان کو سلام کے بعد امداد کے لیے اعلان سے ترش لہجہ میں منع کیا تھا،اس کو باہر مسجد کی سیڑھی پر بیٹھا دیکھ کر ان کا پارہ چڑھ گیا ، اس کو مخاطب کرکے کہنے لگے ’’ تم مسجد کے کمپاؤنڈ سے ابھی نکل جاؤ،باہر جاکر مانگو،بیماری کا بہانہ کرکے بھیک مانگتے ہو،جھوٹ بولتے ہو،ہٹّے کٹّے ہو کماتے نہیں ہو‘‘ غرض یہ کہ اس کو انہوں نے اپنے سامنے ہی برا بھلاکہتے ہوئے اسی وقت سڑک پر بھیج کر ہی دم لیا،وہ بڑے نیک انسان تھے ،شہر کے دینداررؤساء میں ان کا شمار ہوتاتھا،لیکن ان کو اس بات کا استحضار نہیں رہاکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فقیروں اور مسکینوں کو قطع نظر اس کے کہ وہ مستحق ہیں یا نہیں جھڑکنے، ڈانٹنے اور برابھلاکہنے سے سختی سے منع کیا ہے،کسی کی دل آزاری و توہین اللہ پاک کو سخت ناپسندہے اور اس کابدلہ دنیا ہی میں فوری مل جاتاہے۔ چند ہی دن گذرے تھے، وہ صاحب اتفاق سے اسی مسجد اوراسی نماز کے بعد اسی جگہ مجھے ملے،کہنے لگے :۔ مولانا:۔ میری چھوٹی بیٹی کے لیے خاص دعافرمائیے، اس کو بلڈ کینسر ہوگیا ہے، میں نے دل ہی دل میں کہاکہ ایک زمانہ تھا کسی کو برابھلاکہنے پر یا کسی کا دل دکھانے یا عار دلانے پر برسوں کے بعد اس کے بُرے انجام ونتیجہ کا سامنا کرنا پڑتاتھا ،اب تو زمانہ ترقی یافتہ اورمعاملہ نقدی ہوگیا ہے،اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے کی طرح برسوں کے بجائے اب لمحوں اوردنوں میں ہی اس کے نتائج سامنے آجاتے ہیں۔ ایک دوسرا واقعہ بھی عبرت کے لیے سننے سے تعلق رکھتاہے ،ماضی قریب کی بات ہے ، ایک صاحب کی کنواری بچی ایک غیر رشتہ دار مرد کے ساتھ گھرسے بھاگ گئی ،شہر میں اس کا چرچہ ہونے لگا، ایک جگہ اس واقعہ کا ذکر ہورہاتھا ، اس مجلس میں ایک صاحب جو شریف خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اس گفتگو میں شریک تھے کہنے لگے کہ اس بچی کے باپ کو شرم سے ڈوب کر مرجاناچاہیے ، ان کی بچی نے خود ان کے خاندان کا نہیں بلکہ پوری قوم کا نام بدنام کردیا ہے ، بے جا لاڈ پیار نے ان کو یہ دن دکھائے ہیں وغیرہ وغیرہ، چند ماہ بھی نہیں گذرے تھے ان کے ایک بچہ کے متعلق جو گاؤں سے باہر ایک بڑے شہر میں زیر تعلیم تھاایک غیر مسلم ہندو کے ساتھ بھاگ جانے کی اطلاع آئی، کچھ ماہ کے لیے وہ خو د شرمسار ہوکر شہر سے باہر جاکر مقیم ہوگئے۔ تیسرا عبرت انگیز واقعہ بھی سنئے ،ایک صاحب تھے، ان کاگھرانہ نہایت دیندار ،وہ خود آخری درجہ کے متدین نمازی ہی نہیں بلکہ تہجد گذار اور تکبیراولی کے بھی پابند، ان کے ایک صاحب زادے کے متعلق خبر آئی کہ بگڑے بگڑتے ایک غلط کام میں پکڑے گئے ہیں، پورا شہر پریشان اتنے نیک والد کابیٹاایسا کیسے ہوگیا، آخر کیاماجرا ہے ؟ سب کو یقین تھاکہ انھوں نے ایک لقمہ بھی اپنی اولاد کو حرام کمائی کا نہیں کھلایاتھا،نہ اپنی اولاد کو اتنے روپئے پیسے دئیے تھے کہ وہ عیاشی کے عادی ہوسکیں، آخر ان سے کیا گناہ سرزد ہوگیا کہ ان کویہ بُرے دن جیتے جی دیکھنے پڑے ، سب اس کے اسباب جاننے کے لیے بے چین تھے،آخر ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے ان کے ایک عمررسیدہ دوست اور ساتھی نے یہ عقدہ حل کرلیا ،وہ کہنے لگے کہ وہ بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں بڑے سخت واقع ہوئے تھے، بچوں کو شرارت اور حکم عدولی کرتے دیکھتے تو ان کو ایسے الفاظ سے اپنی مادری زبان میں ڈانتے جس کا ترجمہ جھوٹا، گدھا،بندر اور جانور سے کیا جاتاہے،اسی طرح دوسرے کے بچوں کو بھی راستہ یا گلی محلہ میں شرارت کرتے دیکھتے تو غصہ میں کہتے کہ’’ بدتمیز :۔ تمہیں کس بدمعاش باپ نے جناہے ‘‘،ان کا کہنا تھا کہ آج ان کایہ بچہ جو ناخلف اور آوارہ بن گیا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے،عوام کے لیے بھی گتھی سلجھ گئی ،ایک تو انہوں نے دوسروں کے بچوں کو طعنہ دیااور عار دلایا،دوسرے خود اپنے بچوں کو ڈانٹتے وقت غصہ میں غیر شعوری طور پر سہی ایسے گالی کے الفاظ استعمال کئے جس کو وہ خود دوسروں سے اپنے بچوں کے حق میں سننا گوارہ نہیں کرسکتے تھے،یہ دونوں باتیں اللہ تعالی کو سخت ناپسندہوئیں، اس لیے اللہ تعالی نے جیتے جی ان کواس کا نتیجہ خود ان کی ناخلف اولاد کی شکل میں دکھایا۔ آپ ان تینوں واقعات کے محرکات ، اسباب اور نتائج کا تجزیہ کیجئے ، اس میںآپ کو مشترک طور پر جو سبب نظر آئے گا وہ ہے دوسروں کو عاردلانا ، کسی کی دل آزاری کرنااور طعنہ دینا ، یہ وہ عادتیں وخصلتیں ہیں جس کا جیتے جی بُرا نتیجہ اللہ تعالی دنیا ہی میں دکھادیتے ہیں جیسا کہ ان مذکورہ واقعات سے معلوم ہوتاہے، حدیث شریف میں آتاہے جو شخص اپنے کسی بھائی کو اس کے کسی گناہ پر عار دلائے گا یعنی طعنہ دے گا مرنے سے پہلے اس گناہ کے اندر اللہ تعالی خود اس کو مبتلاکردیں گے، مَنْ عَیَّرَ اَخَاہُِ بذَنْبٍ لَمْ یَمُتْ حَتیَّ یَعْمَلہُ اپنی اولاد کی نیک نامی وبدنامی کا ذریعہ خود ان کے والدین ہی ہوتے ہیں ،ان کی تعلیم وتربیت میں توجہ وانہماک ہی ان کو نیک نام کرتی ہے اور اس سلسلہ میں والدین کی کوتاہی یعنی ان کو گالی گلوچ ،غیر شعوری طورپر غصہ کی حالت میں ان کوبرا بھلاکہنے اور دوسروں کی اولاد پر طعنہ کسنے سے ہمارے لیے اس طرح کے برے دنوں کا سامنا کرنا پڑتاہے،والدین کی دعائیں جس طرح بچوں کے حق میں جلد قبول ہوتی ہیں اسی طرح اپنے بچوں کے لیے غیرشعوری طور پر ہی سہی غصہ کی حالت میں زبان سے نکلنے والے بددعائیہ کلمات بھی اپنا فوری اثر دکھاتے ہیں۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اس پوری صدی میں نہ صرف برِ صغیر بلکہ پورے عالم اسلام وعالم انسانیت میں اللہ تعالی کے ان چنیدہ ومنتخب بندوں میں تھے جن کو اللہ نے آخری درجہ کی مقبولیت اور محبوبیت سے نوازا تھا، حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ کے بعد تیرہ سو سال کے وقفہ میں پہلی دفعہ شاہ فہد مرحوم کے زمانہ میں کعبۃ اللہ کے عمارت کی بنیاد کی کھدائی کے ساتھ از سر نو تعمیرہوئی، کلیدبردار متولی کعبہ نے اس تیرہ سوسال کے عرصہ میں ملنے والے سب سے بڑے اعزاز یعنی کعبۃ اللہ کے افتتاح کے لیے دنیا بھر کے سربراہوں وحکمراں خاندان کے دسیوں شہزادوں اور علماء وصلحا کی موجودگی میں مفکراسلام ؒ کو اس اعزاز وسعادت کے لیے منتخب فرماکرکلید کعبہ ان کے حوالہ کی ،جیتے جی عالم اسلام میں بہت کم لوگوں کے علمی ودینی تحقیقات کے حوالے جمعہ کے دن حرم شریف کے منبر ومحراب سے سنے گئے، لیکن اس صدی میں یہ اعزاز مفکر اسلام رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل تھاکہ ان کی زندگی ہی میں حرمین شریفین کے جمعہ کے خطبات میں ائمہ حرم اپنی بات میں وزن پیداکرنے کے لیے امام بصریؒ اور امام ابن تیمیۃؒ کی طرح مولانا کے علمی اقتباسات کے حوالہ دیتے تھے،دنیا کے بڑے بڑے مسلم حکمرانوں کی نماز غائبانہ حرمین شریفین میں ادا نہیں کی جاتی لیکن مفکر اسلام کی وفات پر رمضان شریف میں ۲۷ لاکھ بندگان خدا نے حرم مکی اور ۱۵لاکھ لوگوں نے حرم مدنی میں آپ کی نماز غائبانہ اداکی،۲۳/رمضان المبارک کو روزہ کی حالت میں عین جمعہ کے موقع پر سورہ یس کی تلاوت کرتے ہوئے آپ کی روح قفس عنصر ی سے پرواز کرگئی ،آپ کی وفات کے صرف آٹھ سال کے عرصہ میں سو سے زائد کتابیںآپ کے متعلق دنیا کی مختلف زبانوں میں لکھی گئیں،عنداللہ قبولیت کے یہ آثاردنیا ہی میں آپ پر جو ظاہر ہوئے اس کو محض فضل خداوندی کے علاوہ اور کسی چیز سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا،اسی کے ساتھ مولانا کے والدین بالخصوص ان کی والدہ کے انداز تربیت کاان کی اس نیک نامی وصالحیت میں اہم حصہ تھا ۔ مفکر اسلام خود فرماتے تھے کہ ان کی والدہ نے ان کی تربیت میں جن اہم باتوں پر سب سے زیادہ توجہ دی وہ یہ کہ میرے پیٹ میں حرام ہی نہیں بلکہ مشتبہ لقمہ بھی نہ پہنچ پائے ،دوم یہ کہ میں کسی کی دل آزاری نہ کروں، ایک دفعہ میرا بچپن میں اپنے گھر کی خادمہ کے ہم عمر بچہ کے ساتھ کھیل کے دوران جھگڑاہوگیا اور میں نے بھی جواباً اس کو مارا، میری والدہ کو جب اس کا علم ہوگیا تو میرے سامنے اس بچہ کو بلاکر مجھے مارنے کا حکم دیا، اس دن سے ظلم کے خلاف میرے دل میں ایسی نفرت بیٹھ گئی کہ میں اپنا جائز حق لینے کے لیے بھی ہمیشہ کسی پر ہاتھ اٹھانے سے باز رہا، نماز کے سلسلہ میں کوتاہی ان کے یہاں ناقابل معافی تھی ، اگر میں کبھی عشاء سے پہلے تھک کر سو جاتا تو ہر حال میں مجھے اٹھاکر نماز پڑھواکر ہی دوبارہ سلاتی ،اسی کے ساتھ جو اہم ترین نکتہ ان کی تربیت کے سلسلہ میں ہمیشہ ان کے لیے واجب العمل رہا وہ سننے سے تعلق رکھتاہے ،مولانافرماتے ہیں’’ زندگی بھر وفات تک میری والدہ ہمیشہ دورکعت صلاۃ الحاجۃ میرے لیے پڑھ کر یہ دعااللہ سے کرتی رہی کہ ائے اللہ :۔ میرے علی سے کوئی ایسا کام نہ کر اجس سے اس کی یا ملت کی بدنامی ہو ،اس کو غلط کاموں سے ہمیشہ بچا‘‘۔ حضرت مولانا کی والدہ کے اس تربیتی نہج کی روشنی میں ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم اپنی اولاد کے سلسلہ میں ان اصولوں پر کاربندہیں ؟ کیا ہم اپنی اولاد کا نام لے کراللہ تعالی سے روزانہ دعاکرتے ہیں ؟ ہم تو اپنی اولاد کے لیے اچھی جگہ شادی ،بہتر روزگار ،صحت وعافیت اور امتحان میں اچھے نمبرات سے کامیابی کے لیے شاید دعاکرتے ہوں، لیکن کیا ہم اپنے نونہالوں کا نام لے کر اللہ تعالی سے یہ التجابھی کبھی کرتے ہیں کہ ائے اللہ:۔ میرے بیٹے عبداللہ اور بیٹی فاطمہ وعائشہ کو غلط حرکتوں،بدنامی اور گناہوں کے کاموں سے بچا کر دین کی اشاعت وتبلیغ کے لیے قبول فرما،اس کا جواب ہم میں سے اکثریت کا شاید نفی میں ہوگا ، صلاۃ الحاجہ پڑھنے میں صرف ۲/منٹ لگتے ہیں اور اپنے بچوں ہی کا نام نہیں بلکہ دس پندرہ پوتوں اورنواسوں کا نام لے کر بھی ہم اس طرح دعاکریں گے تودوچارمنٹ سے زائد کا وقت نہیں لگے،دن بھر 24گھنٹے میں 1440منٹ میں صرف 5منٹ بھی رحیم وکریم آقاسے اپنی اولادکے لیے التجاء ودعاکے لیے کیاہم نکال نہیں سکتے ؟ پھر ہم کیسے امید رکھیں کہ ہمارے بچے ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کاسرور بن کر دنیا میں اسلام کا پرچم لہرائیں گے اور دعوت ودین کا کام کریں گے۔ آپ آس پاس ہی نظر دوڑائیے ،یا ماضی قریب کی صرف ہمارے ملک کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے ، ملت کے اکثر نامور فرزندان کے والدین کا شمار صلحاء وعلماء میں نہیں ہوتاتھا بلکہ وہ عام قسم کے انسان تھے لیکن اپنی اولاد کی تربیت کے سلسلہ میں وہ ان مذکورہ بالااصول پر کاربند تھے جن کا اہتمام مفکر اسلامؒ کی والدہ کے یہاں تھا، اسی طرح کتنے صلحاء وعلماء کی اولاد میں ہم کو ایسے افراد نظرآئیں گے جن سے قوم وملت ہی نہیں خود ان کے والدین تنگ آکرپناہ مانگنے لگے، اس کی وجہ یہی ہے کہ اچھے دیندار گھرانے سے ان کی نسبت کے زعم نے اپنی اولادکی اخلاقی ودینی تربیت سے ان کے والدین کو غافل کردیاتھاجس کا وہ خمیازہ ناخلف اولاد کی صورت میں بھگتے رہے ۔ ہمیں یہ زعم نہیں ہوناچاہیے کہ ہم نیک ،ہمارا گھرانہ نیک ،ہمارا ماحول نیک،انبیاء کرام جیسے اولوالعزم بندگانِ خدا کو بھی اپنی اولاد کی گمراہی کا ڈرلگارہتاتھااور وہ اس کے لیے برابراللہ تعالی سے دست بدعارہتے تھے،جب ان معصوم پیغمبران اکا یہ عالم تھاتو ہماشماکی کیاحیثیت ہے اور ہم کو کس قدراپنے اور اپنی اولاد کے متعلق ڈرتے رہناچاہیے۔ کسی کو عار دلانے یاکسی کی دل آزاری کرنے،کسی گناہ پر کسی کو طعنہ دینے ،اس کا چرچہ کرنے اورلوگوں میں اس کی تشہیر کرنے کے گناہ میں ہم مبتلاہوں گے تو ہماری یہ عادت اللہ تعالی کو اتنی ناپسندہوگی کہ جیتے جی خود ہماری اولادہی میں ہمارے لیے برا انجام دکھائیں گے اور ہم خون کے آنسورونے پر مجبور ہوں گے، غلطی اور گناہ انسان ہی سے صادر ہوتے ہیں ،بڑے سے بڑا گناہ بھی کسی سے سرزد ہوتو دوسروں کے سامنے اس کا ذکر کرنے ،چرچہ کرنے اوراس کی تشہیر سے بچیں،ان سے براہ راست مل کر یا قریب بلاکر محبت سے سمجھانے کی کوشش کریں،کیا بعید کہ اللہ تعالی آپ کی ان مخلصانہ باتوں کو اس کے دل میں اتار دے اور وہ گناہوں سے تائب ہوجائے،یا پھراس کے لیے اور ان کے والدین کے لیے عذرتلاش کریں اور یہ سوچیں کہ کیا اس کی جگہ میری اولاد ہوتی یا میرے بھائیوں یا میرے کسی رشتہ دار کے بچے ہوتے تو کیا میرا اس وقت بھی رد عمل یہی ہوتا یا پھر میں کسی طرح کی تاویل کرکے ان کو بچانے یا ان کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا، دوسروں کی سترپوشی اور عیوب پرپردہ ڈالنے کی عادت وصفت ستارالعیوب و رب العالمین آقاکو اتنی پسند ہے کہ اس نے قیامت کے روز اپنے ایسے بندوں کی ستاری کا وعدہ فرمایا ہے ۔ ہم اپنی اولا د ہی کی نیک نامی کے لیے حتی المقدور کوشش کریں اور ان کی اخلاقی ودینی تربیت میں کوئی کوتاہی نہ کریں،دینی تعلیم سے ان کو آراستہ کریں اور پھر اللہ تعالی سے روزانہ برابر اپنے بچوں کا نام لے کر دعابھی کرتے رہیں، اس کے لیے قرآن مجید میں مؤثر ترین دعا بھی ہمیں سکھائی گئی اس کا روزانہ معمول بنائیں کہ اے اللہ:۔ میرے لیے ایسی بیوی اور بچے عنایت فرماکہ جو میرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں اور مجھے متقیوں کا امام بنا (رَبَّناَھَبْ لَناَ مِنْ اَزْوَاجِناَ وَذُرِّیّیٰتِناَ قُرّۃ أعْیُنٍ وَاجعَلناَ لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَاماً)۔ غصہ کی حالت میں بھی اپنی اولاد کے لیے گالی گلوچ اورغیر شعوری طور پربھی ایسے نازیباکلمات سے اپنی زبان کوبچائیں جس کا شمار بددعائیہ کلمات میں ہوتاہے پھر ان کے لیے اللہ تعالی سے التجائیں کریں اور ان کے لیے روزانہ دورکعت صلاۃ الحاجۃ پڑھنے کا آج سے ہم معمول بنائیں ،پھر قدرت الہی کا کرشمہ دیکھیں کہ بگڑا ،بدنام، سرکش ،بات نہ ماننے والا، ضدکرنے والا ، نمازوں میں سستی کرنے والا ،بری صحبت میں رہنے والا ہماراجگر کایہ ٹکڑا جو کل تک خون کے آنسو رلارہاتھا فضل خداوندی سے انشاء اللہ خود بخود اس میں تبدیلی آئے گئی اور وہ مطیع وفرمابردار بن کر ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا۔ ع،ح،خ