ورنہ خدا جانے کیا ہوتا۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی

کھتولی ریل حادثہ ایک سیدھا اور صاف حادثہ ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ ریلوے کے اعلیٰ افسران سے لے کر ٹریک کی مرمت کرنے والے مستریوں اور مزدوروں میں کوئی رابطہ نہیں تھا اور جسے پربھو بھروسے کا عنوان دیا گیا تھا۔ ملک اور خاص طور پر اُترپردیش میں جو فتنہ پرداز اور مسلمانوں کی طرف سے کینہ رکھنے والے ایک طبقہ اور میڈیا کے بعض چینلوں کو اس وقت تک مزہ نہیں آتا جب تک اس میں دہشت گردی یعنی انڈین مجاہدین یا داؤد ابراہیم کا ہاتھ نظر نہ آئے۔ اور انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ بہرحال دہشت گردی کے ہاتھ کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
اُترپردیش اسمبلی کا بجٹ اجلاس چل رہا تھا۔ ایک دن ایک کرسی کے نیچے ایک پڑیا صفائی میں ملی تو کہرام مچ گیا۔ فوراً ماہرین کو بلایا گیا اور اسے پوری اسمبلی کی عمارت کو اُڑانے کی سازش سے جوڑ دیا گیا۔ مؤناتھ بھنجن کے ایم ایل اے جو اُناؤ جیل میں ہیں اور وہاں سے اجلاس میں شرکت کے لئے لائے جاتے تھے انہوں نے کہہ دیا کہ یہ مجھے ختم کرنے کی سازش ہے وزیر اعلیٰ کے عاشقوں نے کہا کہ یہ وزیر اعلیٰ کو ختم کرنے کا منصوبہ ہے اور ایک چینل سے آواز آئی کہ ہو نہ ہو یہ انڈین مجاہدین کی حرکت ہے۔ اور اسے تحقیقات کے لئے بھیج دیا گیا لیکن قیاس آرائیاں چلتی رہیں اور رپورٹ یہ آئی کہ وہ لکڑی کے پالش کو چمکانے کا پاؤڈر ہے تو سب بہادروں کا یہ حال تھا کہ
ڈوبنے جاؤں تو دریا مجھے پایاب ملے
اور اب کھتولی میں داؤد ابراہیم کا ہاتھ نظر آنے والا تھا کہ سادھوؤں نے کہہ دیا کہ مسلم نوجوان اگر وقت پر نہ پہونچتے تو وہ زندہ نہ رہتے۔ اور تفصیل بتائی کہ مسلمان نماز پڑھنے جارہے تھے کہ یہ حادثہ ہوا اور وہ سب کے سب مسجد جانے کے بجائے زخمیوں اور پھنسے ہوئے مسافروں نکالنے میں لگ گئے۔ اور ذمہ داروں کو کہنا پڑا کہ بلاتحقیق کسی بھی حادثہ کو دہشت گردی سے جوڑنا باعث تشویش ہے۔
ریل کے حادثے، بسوں کے حادثے، سیلاب، طوفان جیسے قدرتی حادثے کب نہیں ہوئے؟ اور کس حکومت میں نہیں ہوئے؟ نکسلیوں کے خوف سے بہار اور بنگال میں رات میں ٹرین چلانا ایک زمانہ میں موت کو دعوت دینا ہوگیا تھا۔ لیکن یہ آر ایس ایس کی گھٹیا حرکت ہے جس کو ہر حادثہ میں پاکستان اور دہشت گردوں کا ہاتھ نظر آنے لگا۔ اسی جہالت اور ضد کا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پھر واقعی دہشت گرد اس پر اتارو ہوجائیں۔ ہندوستان کے چپہ چپہ پر ریلوے لائنیں بچھی ہیں جو آبادی کے درمیان سے بھی جاتی ہیں اور بیابان جنگل کے درمیان سے بھی۔ جب نکسلیوں نے اپنے علاقہ سے گذرنے والی ہر ٹرین کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا تو مسلح پولیس کی حفاظت میں ٹرینیں چلنے لگی تھیں اور کہیں سے خبر نہیں آئی کہ سو دو سو نکسلی مار دیئے۔
مسلمانوں نے سیکڑوں برس اس ملک کو بنایا ہے اس کی ہر عالیشان عمارت میں ان کا خون شامل ہے۔ آج 71 برس ہوگئے لال قلعہ سے 15 اگست کو خطاب کرتے ہوئے پنڈت نہرو سے لے کر نریندر مودی تک اس سے زیادہ موزوں عمارت نہ بنا سکے اور نہ بنانے کے بارے میں سوچ سکے جہاں سے یوم آزادی کو قوم سے خطاب کرسکیں۔ اگر مسلمان اپنے ملک کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیں تو وہ 20 کروڑ ہیں انہیں کون روک سکتا ہے؟
چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، آندھرا پردیش، بنگال اور نہ جانے کہاں کہاں ماؤوادی اور نکسلی اپنی حکومت بنائے بیٹھے ہیں اور سیکڑوں افسروں اور جن جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے وہ کھاتے پیتے اور سوتے جاگتے بھی ہیں بیمار بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں حکومت چاہے جتنا اپنے کو شاباشی دے لے کسی کو خبر نہیں کہ ان کے پاس مہلک ہتھیار بارودی سرنگیں دوائیں اور کھانا پانی دودھ اور شکر کہاں سے آتی ہے اور وہ مرتے ہیں تو کہاں جلائے جاتے یا دفن کئے جاتے ہیں۔ اور حکومت ان کی مرضی کے خلاف ایک سڑک برسوں سے بنا رہی ہے مگر نہیں بناسکی۔
ہم جیسے لوگ یہ سوچ کر کانپ جاتے ہیں کہ اگر لاکھ دو لاکھ جذباتی مسلمانوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ نکسلیوں اور ماؤ وادیوں کے ساتھ رشتہ بناکر ان کی سی زندگی گذاریں گے تو کیا ہوگا؟ یہ نکسلی کوئی نیپال سے نہیں آئے ہیں۔ یہ وہی ہیں جو کبھی ہندوستان کے شہری تھے۔ ان کی لڑائی صرف یہ ہے کہ وہ زمین جس کے نیچے قدرتی خزانے ہیں وہ ان کی ملکیت ہے جو حکومت نے سرمایہ داروں کو دے دی ہے اور ان سے خالی کرانے کا مطالبہ ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ہتھیارا اٹھالئے۔
مس مایاوتی نے جب راجیہ سبھا سے ناراض ہوکر استعفیٰ دیا تو کئی دن یہ بحث چلی کہ دلتوں پر اس کا کیا اثر ہوگا اور دلت قریب آئیں گے یا دور چلے جائیں گے۔ پرائم ٹائم میں روش کمار کے ساتھ کئی دن مذاکرے ہوتے رہے۔ ایک دن کئی دلت بیٹھے تھے جن میں ایک رتن لال بھی تھے عمر شاید 45 کے آس پاس ہوگی انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر مسلمانوں نے 776 برس تلوار کے زور پر حکومت کی ہوتی تو میرا نام رتن لال نہ ہوتا۔ وہ خود تو مسلمان تھے لیکن کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بناتے تھے۔ اسی لئے جب وہ سیکڑوں برس حکومت کرکے ہٹائے گئے تب بھی مسلمان تعداد میں آج کی طرح کم تھے۔ وہ حکومت کے ساتھ انگریزوں کی طرح واپس منگولیا نہیں گئے انہوں نے ہندوستان کو ہی اپنا گھر بنالیا تھا اور آج بھی یہ ان کا گھر ہے۔
ملک میں ایک بڑا طبقہ ایسا ہی ہے جس کی سوچ وہی ہے جو رتن لال کی ہے اور یہ صرف وہ طبقہ ہے جو آج بھی گوڈسے کو عظیم مانتا ہے مگر بزدلی کی وجہ سے گاندھی جی کا نام لیتا ہے۔ اس نے اپنے کو ہمیشہ سیاست سے الگ کہا لیکن جھوٹ بولا وہ پہلے دن سے سیاست میں ہے اور سیاست میں جتنی گندگیاں ہوتی ہیں وہ سب اس کے اندر ہیں۔ اور اس کے پیش نظر صرف حکومت ہے اس کے لئے چاہے جتنا جھوٹ بولنا اور مکاری کرنا پڑے اور یہی فریب ان کی موت کا سبب بنے گا۔
Mobile No. 9984247500