بہارکاسیاسی منظرنامہ (از:صابررضارہبر)

Bhatkallys

Published in - Other

03:45PM Sat 19 Sep, 2015
کہاجاتا ہے کہ سیاست اورشطرنج دونوںشہ مات کے کھیل ہیں ،دونوںمیں صرف اتنا فرق ہے کہ شطرنج میں یہ پہلے معلوم ہوجاتا ہے کہ پٹنے والا مہرہ سفیدہے یا سیاہ لیکن سیاست میں کب کس کا پتہ کٹ جائےگا یہ دعویٰ کرنا سیاسی پنڈٹوںکے بس کی بات نہیں۔ بہاراسمبلی انتخابات کےاعلان کے بعدسیاسی پارٹیوںمیں جاری گٹھ جوڑکی سیاست نے کشمکش کے حالات پیداکردئےہیں ،ذات پات اورمذہب کی سیاست کے بے ہنگم شوروغل میں انسانیت اورترقی کی سیاست کہیں کھو سی گئی ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی کی حددرجہ دلچسپی نے بھی بہارکی سیاست کو انتخابی دنگل میں تبدیل کردیاہے جس کی وجہ سے بہاراسمبلی انتخابات بھی لوک سبھا انتخاب کے ماحول میں لڑے جارہےہیں ۔جدیدٹیکنالوجی اورشوشل میڈیاکے کون سے حربے ہیں جو مدمقابل کو مات دینے کیلئے استعمال نہیں کئے جارہےہیں ۔ اسمبلی انتخابات میں وزیراعظم کی غیرضروری دلچسپیوںکے سبب یہ سیاسی لڑائی سیکولرزم بنام فرقہ پرستی کے بجائے مودی بنام نتیش ہوگیا ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ کا شایدیہ پہلاسانحہ ہوگا جب وزیراعلیٰ کامقابلہ کرنے کیلئے ملک کا وزیراعظم پورے لائولشکرکے ساتھ انتخابی میدان میں اترپڑے ہوں۔کسی ریاست کے اسمبلی انتخابات کے دوران نوٹیفکیشن جاری ہونے سے قبل وزیراعظم کی جانب سے ۶؍ ریلیاں کیاجانا معمولی بات ہرگزنہیں ہوسکتی ہےحالاںکہ اروندکیجریوال کامقابلہ بھی انہوںنے ڈٹ کرکیا تھا لیکن وہاں کرن بیدی کو ڈھال بنالیاگیاپھرانتخاب میں کراری شکست کے بعدہارکا ٹھیکرا کرن بیدی کے سرپھوڑ دیاگیا۔ لوک سبھامیں پنجہ آزمائی کے بعد نتیش کمار نریندرمودی کا مقابلہ کرنے کیلئےاپنی انا وضدکوپس پشت ڈالتےہوئے پرانے حریفوںکوبھی گلے لگانے کوتیارہوگئے اورجہدمسلسل کے بعد سیکولراتحادکی تشکیل کی جس میں جنتاپریوارکے تمام پرانے لیڈران شامل کئے گئے اورسماجوادی پارٹی کے سپریموملائم سنگھ کو اس کا مکھیا منتخب کیاگیا۔اس اتحادکے بعد پٹنہ کا گاندھی میدان اس تاریخی ریلی کا گواہ بنا جس میں ملک کی کئی بڑی پارٹیوںکے سربراہان نے اپنے سابقہ رقیبوںکے ساتھ نہ صرف ایک اسٹیج پر جمع ہوئے بلکہ سبھوںنے ایک سُراورلےمیں بی جے پی پرشدیدتنقیدیں کیں۔ سیکولراتحادکی اس ریلی کے بعد یہ سمجھاجانے لگا تھاکہ بہارمیں بی جے پی کواقتدارکی ہوانہیں لگنے والی ہے لیکن عین وقت پر گھٹیا سیاست کی بدترین مثال پیش کرتےہوئے سیکولراتحادکا مکھیاہی بدعہدی کربیٹھے۔ ملائم سنگھ نے صبح میں نریندرمودی سے ملاقات کی اور ان کے بھائی بی جے پی صدر امت شاہ سے ملے ۔ دونوںبھائیوںکواس ملاقات میں ملک کوفرقہ پرستی اورمعاشی بحران سے نکالنے کیلئے کون سی ایسی تدبیرہاتھ آگئی کہ انہوںنے نتیش اورلالوکے تمام جدوجہدپرپانی جھاڑپھیرتے ہوئے سیکولراتحادسے علاحدگی کا اعلان کردیا۔عذرلنگ یہ پیش کی گئی کہ لالوونتیش نے سیٹوںکی تقسیم میں سماجوادی پارٹی کو نظرانداز کردیاہے حالاںکہ ریاست میں سماجوادی پارٹی کی کوئی حیثیت نہ رہنے کے باجوداسے پانچ سیٹیں دی گئی تھیں ۔جب ملائم سنگھ سے سوال کیاگیا کہ آپ کے اس فیصلہ سے بی جے پی کو فائدہ پہنچے گا؛اس پر ان کا کہناتھاکہ تمام سیکولرپارٹیوںنے اندرونی طورپر بی جے پی کی مددکی ہے ۔باتوںباتوںمیں ملائم سنگھ نے بڑی سچی بات کہہ دی کہ سبھی سیکولرپارٹیوںنے بی جے پی کی نیاپارلگانے میں بھرپورمددکی ۔ لوک سبھا انتخابات میں سیکولرپارٹیوں کے کرداراورپھر مہاراشٹر، ہریانہ ، جھارکھنڈ اور جموں وکشمیر میں کانگریس کااپنے برسوںکی اتحادی پارٹیوںسے زبردستی الگ ہوکر انتخاب لڑنے کے فیصلے ملائم سنگھ کی باتوںکی تصدیق کرتے ہیں ۔ نتیش کمارکے ذریعہ تشکیل کردہ سیکولراتحادکے بعدیہ بات یقین میں بدل گئی تھی کہ اب ریاست کا سیکولرووٹ منقسم نہیں ہوگا جس کا فائدہ سیدھے طورپر بی جے پی کو پہنچتاہے لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی نے اس کا بھرپورفائدہ اٹھایاتھا کیوںکہ سیکولر ووٹ کانگریس، راشٹریہ جنتادل اور جے ڈی یومیں تقسیم ہوگیا جس کی وجہ سے بی جے پی کی جیت کی راہ آسان ہوگئی مگراب سیکولراتحاد کی تشکیل کے بعدیہ خطرہ ٹل سا گیا تھا اسی دوران سماجوادی پارٹی اوراین سی پی اتحاداور تمام بائیں محاذکی پارٹیوں کاتنہا انتخاب لڑنے کے اعلان کے ساتھ ہی مجلس اتحاد المسلمین کاسیمانچل میں انتخاب لڑنے کے اعلان نے ایک بارپھر بی جے پی کی راہ آسان بنادی ۔حالاںکہ یہ وہ پارٹیاں ہیں جن کی کچھ خاص پکڑنہیں ہے لیکن اس بارذات پات اورمذہب کا جس طرح سے سیاسی استعمال کیا جارہا ہے اس سے یہ بات پختہ ہوتی جارہی ہے یہ پارٹیاں نہ جتیںگے نہ جیتنے دیںگے کی پالیسی کے تحت انتخابی میدان میں اتررہی ہیں۔ اسدالدین اویسی کی پارٹی مجلس اتحادالمسلمین کے سیمانچل میں انتخاب لڑنے کے اعلان سے سیکولراتحاد کے ہوش اڑگئے۔ ملک کی سیکولرشخصیات نے انہیں سیکولرزم کی دہائی دیتے ےہوئے بہاراسمبلی انتخابات سے دوررہنے کا مشورہ دیاتھا مگروہ کہتے ہوئے اپنے فیصلہ پر اٹل رہے کہ سیمانچل بہت ہی پسماندہ ہے اوروہاں کی ترقیاتی کام کی اشدضرورت ہے ا س لئے مجلس وہاں اپناامیدوارمیدان میں اتارےگی ۔اسدالدین اویسی کوسکولراتحادمیں شامل کرنے کی کوشش کی گئی جس کا برملااظہارآرجے ڈی لیڈررگھونش پرسادنے کیا بھی ہے لیکن اویسی نے خود کسی پارٹی کے ساتھ جانے سے انکارکرتے ہوئے تنہاانتخاب لڑنے کااعلان کیاہے۔ اسدالدین اویسی نے اس سے قبل مہاراشٹراسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی کوانتخابی میدان میں اتارا تھا جہاں بہت ہی تلخ تجربہ ہوا ۔اویسی کی پارٹی نے کل ۲۴؍سیٹیوںپراپنے امیدواراتارے تھے جس میں سے صرف ۲؍سیٹوںپرہی کامیابی ملی جبکہ ان کے امیدوارکی وجہ سے درجنوںامیدواروںکوشکست کا سامنا کرناپڑاتھا اوروہ سب کے سب مسلم اکثریتی حلقے تھے ۔ اس سے سبق لیتے ہوئے اویسی نے دہلی انتخابات سے دورہے جس کا نتیجہ تاریخی رہا ۔ بہاراسمبلی انتخابات میں اویسی کی آمدسے سیکولر افرادمیں اس لئےبھی بے چینی ہے ۔بہاراسمبلی سے ملک کی سیاست کا رخ طے ہونے جارہاہے۔ ایک طرف آرایس ایس کے ساتھ تمام ہندتوا تنظییں ہرحال میں بی جے پی کواقتدارکی کرسی سونپناچاپتی ہیںخودوزیراعظم مودی وزرات عظمیٰ کے تمام وقارکودرکنارکرتےہوئے اسمبلی انتخابی میدان میں ایسے کودپڑے ہیں جیسے وہ خودوزیراعلیٰ کے امیدوارہوں ۔بی جے پی کے خطرناک عزائم پرنظررکھنے والے افراداگربے چین ہورہےہیں تویہ بے سبب نہیں ہے بلکہ نریندرمودی کے دورحکومت کے تلخ تجربے ان کے کئی خدشات کودرست ثابت کرچکےہیںلیکن سیکولرزم کی دہائی دے کرکسی مسلم پارٹی کو انتخابی میدان سے دوررکھنے کامشورہ دینے والوںسے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ ملک اورریاست کی دوسری سب سے بڑی آبادی کے سیاسی حقوق کیلئے سیکولرزم کادعویٰ کرنے والی پارٹیاں کتنی سنجیدہ ہیں ۔ بی جے پی کواقتدارسے دوررکھنے کیلئے اپنے حریف جاں کوبھی گلے لگانے سے گریز نہیں کیا جارہا ہے تاکہ سیکولرووٹ منقسم نہ ہوںجبکہ سیکولرووٹوںکے ایک بڑے فیکٹرکوبالکل ہی نظرانداز کرکے کیا پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔سیدھی سی بات یہ ہے کہ سیکولراتحادنے یہ طے مان لیا ہےکہ مسلمانوںکا سیاسی مقدرہمارے ہاتھوںمیں ہے اس لئے ان کی سیاسی نمائندگی کا تناسب ہم طے کریں گےاوراسی پر انہیں صبرکرناہوگااوریہی آزادی کے بعدسے اب تک ان کا مقدررہاہے۔ آخرکب تک مسلمان ملک کے سیکولرزم کی حفاظت کیلئے بلی کا بکربنتارہے گا ،یہ وہ سوال ہے جوریاست کے باشعوربالخصوص نوجوان طبقہ کو پریشان کئے ہواہے۔قوم مسلم کا نوجوان طبقہ جب اپنے سیاسی قائدکامتلاشی ہوتاہے توانہیں بڑی مایوسی ہاتھ آتی ہے کیوںکہ ان کے سامنے دلت ،کرمی ، یادواوردیگرذات برادری کے سیاسی قائد پورے وجودکے ساتھ کھڑے نظرآتے ہیں جبکہ ان کا سیاسی قائدہاتھوںمیں کشکول لئے اپنی پارٹی کے سربراہ کے دربارمیں کھڑے نظرآتےہیں اوران کا سراس لئے سرنگوںرہتا ہے کیوںکہ ان کی پارٹی انہیں ٹکٹ جیسی نعمت عظمیٰ سے نوازاتھا ۔پارٹی کے احسان کے آگے قوم وملت کا سنجیدہ سے سنجیدہ مسئلہ بھی اپنی اہمیت کھوبیٹھتا ہے۔ میری باتوںکوکسی دیوانے کی بڑقراردینے قبل آزادی کے بعدسے اب تک مسلمانوںکے سیاسی قائدین ونمائندوںکی خدمات پر سرسری جائزہ ضرورلیاجاناچاہئے تاکہ تصویرکا عبرتناک رخ بھی قوم کے سامنے آسکے ۔میں ہرگزیہ دعویٰ نہیں کرسکتاکہ تمام مسلم نمائندوںکے نام اس فہرست میں ہے تاہم سرفرشوںکی تعداددوچارسے آگے نہیں بڑھے گی ۔ایسے ماحول میں اگرقوم مسلم اپناسیاسی قبلہ درست کرنے کی کوشش کررہی ہے تو اس میں کسی کوکیوںکر اعتراض ہوسکتاہے لیکن مسلمانوں کوبھی سیاسی شعورکابہرحال ثبوت دینا ہوگااوراس کیلئے بڑی قربانی بھی دینی پڑے گی اب دیکھنا یہ ہے دوسروںکواقتدارتک پہنچانے میں کلیدی کردارنبھانے والی قوم اپنی سیاسی بیداری کا ثبوت کس طرح پیش کرتی ہے۔ 9470738111 sabirrahbar10@gmail.com