بھٹکل میں سیاسی گرگٹ کے بدلتے رنگ۔۔جاری ہے اندرونی جنگ! (پہلی قسط )از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
میں نے سابقہ مضمون میں بھٹکل میں مسلم امیدوار کے انتخابی اکھاڑے میں اتارنے کے سلسلے میں کچھ تجزیہ پیش کیاتھا اور اپنے طور پر ممکنہ کوشش کی تھی کہ اس سے ہمارے سماجی قائدین اور سیاسی امیدواروں تک کوئی ایسا سگنل جائے جس سے وہ نئی حکمت عملی اپناسکیں اور سیاسی شطرنج کی بساط پر کوئی نئی یا ترمیم شدہ چال چل سکیں۔اس کے بعد ذاتی طور پر اس مضمون پر جو بہت سارے مثبت اور حوصلہ افزاتبصرے موصو ل ہوئے ،سوشیل میڈیا کے مختلف گروپس میں جتنے منفی اور مثبت کمینٹس سامنے آئے اور یہاں مقامی طور پر سیاسی رنگ منچ پر کھیلے جارہے ناٹک کے کچھ اور پہلو نمایاں ہوئے تو ضروری محسوس ہواکہ اس موضوع پر اور بھی ذرا کھل کر بات کی جائے۔
چار اہم نکات : ہمارے ایک قدردان نے مضمون کی پزیرائی کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ ایم ایل اے کے رول اور اس کے انتخاب جیتنے یا ہارنے کی صورت میں ہونے والے بھلے یا برے اثرات کابھی جائزہ لیا جاتا تو بہتر ہوتا۔لہٰذا اس مضمون میں چار اہم نکات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جائے گی:۔
(۱) بالواسطہ طور پریہ پتہ چلا کہ ہمارے ایک سیاسی قائد کو اس بات کا بھرم ہوگیا کہ میں نے مضمون میں اپنا سابقہ موقف بدلتے ہوئے مسلم امیدوار میدان میں اتارنے کی ترغیب دی ہے جو ان کی امیدواری کے حق میں ہے۔جبکہ میرا منشاء کچھ اور تھا۔
(۲) موجودہ ایم ایل اے پرمجلس اصلاح تنظیم اورمسلمانوں کے اتحاد میں انتشار پیدا کرنے کا الزام اور اس کی حقیقت
(۳) مابعد انتخاب موجودہ ایم ایل اے کا متوقع رول
(۴) سابق وزیر آر این نائک کا اچانک منظر عام پر آنا اوراپنی ہی پارٹی کے رکن پارلیمان اننت کمارکے خلاف مورچہ کھولنا
مسلم امیدوار اورجیت کے امکانات: ہماری کمیونٹی کی طرف سے جہاں تک مسلم امیدوار کو اس بار میدان میں اتارنے کی بات ہے اس پر میں نے اپنا موقف گزشتہ مضمون میں بالکل واضح کردیا تھااور اب بھی میرا موقف یہی ہے کہ ہمارے حلقۂ انتخاب میں ووٹرز کی جو تعداد ہے اور اس میں خود ہماری کمیونٹی کے جو ووٹ ہیں اس کی بنیاد پراگر ہم زمین و آسمان ایک بھی کردیں تو اس وقت تک جیت نہیں سکتے ، جب تک 20تا 25ہزار ووٹ غیر مسلم ووٹرز کے ہمیں حاصل نہیں ہوجاتے(جس کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے) ۔ اوراگر یہ ٹارگیٹ پورا کرنا ہے تو پھر غیر مسلموں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے ان کے سماجی و سیاسی لیڈران کے ساتھ معاہدہ ہونا چاہیے اور آپسی رضامندی کے ساتھ خود غیر مسلم قائدین کے اشتراک سے پارٹی کی بنیاد پرٹکٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے حاصل کرنے کی کھلے عام کوشش کرنی چاہیے۔پھر اس معاہدے کے پس منظر میں الیکشن جیتنے اور پولنگ کو ہمارے حق میں کرنے کے لئے غیر مسلم ووٹرس کے مطالبات جو پورے کرنے ہیں اور جو غیر اخلاقی ، غیر شرعی اور غیر قانونی ذرائع کا استعمال کرنا ہے سو وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔
تم کہاں ، وصل کہاں ، وصل کی امید کہاں دل کے بہکانے کو اک بات بنا رکھی ہے
ایسی کوشش تو ہوتی نظر نہیں آتی: تاحال نہ ہمارے سیاسی رہنمائی کرنے والے ادارے اور نہ ہی ٹکٹ کے خواہشمند پرجوش سیاسی لیڈران کی طرف سے ایسی کوئی کوشش ہوتی نظر نہیںآتی۔ اس سلسلے میں پورے اسمبلی حلقے کی مسلم جماعتوں اور اداروں کے ساتھ مجلس مشاورت منعقدکرنے اور سیاسی لائحۂ عمل پر مختلف زاویوں سے کھلی بحث کرتے ہوئے مسلم امیدوار کو میدان میں اتارنے یا نہ اتارنے کے تعلق سے ابھی سے کوئی ٹھوس اقدام کرنے کی پہل بھی نہیں ہوئی ہے ۔انفرادی ملاقاتوں اور ٹکٹ کے خواہشمندوں یا ان کے حمایتیوں کی آراء پر بھروسہ کرتے ہوئے مثبت یا منفی رائے بنائی جارہی ہے ۔حالانکہ بزبان خود'' فی زمانہ ماہرین وسیاسی مبصرین''کے تجزیاتی(اور حمایتی) مضامین و تبصروں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جانا اورہم جیسے لوگ ماضی کے عملی تجربات کی روشنی میں سیاسی تقطیب polarizationاورووٹرز کی تعداد و رجحان یا patternکو نظر میں رکھتے ہوئے اس کے منفی اورمضرپہلوؤں کی جونشاندہی کررہے ہیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے۔ مگر لگتا ہے کہ اس سمت میں بھی پیش قدمی نہیں ہورہی ہے۔کیوں دکھائی نہ دیں ان کو ، ہم کیا کہیں روشنی اتنی بھی کم نہیں صاحبو
ایم ایل اے کے خلاف منفی پروپگنڈہ: مسلم امیدوار کو کھڑا کرنے کے سلسلے میں تاحال سب سے بڑا اور اہم عنصرجو عوام کے اندر اجاگر کیا گیا ہے وہ موجودہ ایم ایل اے کے خلاف منفی پروپگنڈہ ہے۔ یقیناًالیکشن کے زمانے میں ہرمخالف سیاسی پارٹی اور ٹکٹ کے خواہشمند دیگر سیاسی لیڈران کی طرف سے یہ ایک فطری رویہ اور ہتھکنڈہ ہوتا ہے۔مگر ہماری سیاسی رہنمائی کرنے والے مرکزی ادارے کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نہ کسی حکمراں پارٹی کے پٹّھو ہیں اور نہ ہمیں کسی اپوزیشن پارٹی کے ٹٹّو بننا ہے۔ ہمیں تو ہمارے اجتماعی ملی مفاد کو مقدم رکھنا ہے اور اس کے لئے جذبات کے بجائے ہوشمندی، قیاس آرائی کے بجائے حالات کی سچائی (چاہے وہ کتنی ہی کڑوی کیوں نہ ہو!)اور سب سے بڑھ کر حال میں اٹھائے جارہے قدم سے مستقبل پر ہونے والے ممکنہ نتائج کا دل کے بجائے عقل کی کسوٹی پر جائزہ لینا چاہیے۔سوئے ا تفاق اورمشکل یہ ہے کہ" اب کی بار مسلم امیدوار "کے دونوں اہم دعویدارفیصلہ کن موقف اختیار کرنے والے ہمارے مرکزی ادارے کے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں ۔اس وجہ سے عوام کا ایک بڑا طبقہ یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ اس صورتحال میں ہمارا ادارہ جانے انجانے میں موجودہ ایم ایل اے کے مخالف اور مسلم سیاسی قیادت کی دعویداروں کے حمایتی کیمپ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس جلتی پر تیل بھی چھڑکتے جارہے ہیں۔ مسئلہ موجودہ ایم ایل اے کا نہیں ہے: ایم ایل اے کے خلاف مخالفانہ (یا معاندانہ) رویے اور پروپگنڈے پر بحث سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ مسئلہ موجودہ ایم ایل اے کی دوبارہ حمایت کرنے یا نہ کرنے کا نہیں ہے۔مسئلہ ایم ایل اے کو میدان سے ہٹانے کے لئے صرف ہماری طرف سے کی جانے والی جد وجہداور ہمارے اپنے امیدوار کو اپنے ہی بل بوتے پرجیت دلانے کے امکانات اور اس میں ناکامی کی صورت میں ہونے والے دور رس اثرات کا ہے۔ اور اس پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے۔حالات پر بہت ہی گہری نظر اور رسوخ رکھنے والے ایک نوجوان غیر مسلم صحافی وسنت دیواڑیگا نے بھٹکل کے بدلتے سیاسی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے کنڑا مضمون میں جو نتیجہ اخذ کیا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ وہی ہمارے غور وفکر اور فیصلے کا مرکزی نکتہ ہونا چاہیے۔ اس کا حاصل مضمون یہ ہے کہ بی جے پی کا اپنے امیدوار کی جیت کے لئے تین نکاتی ماسٹر پلان ہے: * مسلمانوں کی کوششوں سے موجودہ ایم ایل اے کو ٹکٹ نہیں ملنی چاہیے * کانگریس یا جنتا دل سے تنظیم کی جانب سے مسلم امیدوار میدان میں اترنا ضروری ہے * موجودہ ایم ایل اے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں کھڑا ہونا چاہیے۔بی جے پی کا ماننا یہ ہے کہ اگر اس تین نکاتی فارمولے پر عمل ہوگیا تو پھر بی جے پی کی جیت یقینی ہے۔اس لئے وہ خود اس فارمولے کو ہوا دے رہی ہے ۔ فسطائیت کا خوف کب تک؟: حالانکہ یہ ایک معقول تجزیہ ہے ، مگر اس کے باوجود بجا طور پر اب اس نکتے پر کچھ لوگ سوال کرسکتے ہیں، بلکہ کررہے ہیں کہ آخر کب تک فسطائیت کا خوف دلاکر ہم دوسری پارٹیوں اور دوسرے امیدواروں کے محتاج بنے رہیں گے؟ آخر ہماری اپنی سیاسی لیڈر شپ کب ابھرے گی ؟اس سوال کی بھی معقولیت اپنی جگہ ہے، مگر اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ خوابوں کی تعبیرچاہے کتنی ہی دلکش اورحسین کیوں نہ ہو اور خواہشوں کے پھل چاہے کتنے ہی خوبصورت اور لذیذ کیوں نہ ہوں ، انہیں پانے کے لئے زمینی حقائق کو قبول کیے بغیر خودکشی کرنا بھی تو عقلمندی نہیں ہے۔اور جہاں تک معجزات اور کرشمات کا تعلق ہے وہ تو روز روز نہیں ہواکرتے۔لہٰذا قوم و ملت کے مفادات کے سلسلے میں حقائق کی روشنی میں دوراندیشی کے ساتھ فیصلے اگر نہیں ہونگے تو پھر اس کا وبال آئندہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا، جیساکہ ماضی کے کچھ غلط فیصلوں نے موجودہ نسل کو دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں ایک طرف کھائی ہے تو دوسری طرف سمندر ہے۔یعنی نہ جائے ماندن ،نہ پائے رفتن! کیا ایم ایل اے انتشار پیداکررہا ہے؟: موجود ہ ایم ایل اے پر مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنے اور تنظیم کی اجتماعی قیادت کو تباہ کرنے کے الزامات مضبوط دلائل کے ساتھ لگائے جارہے ہیں۔سوشیل میڈیا پر بھی اسی نہج پر کسی نہ کسی زاویے سے تشہیری مہم جاری ہے۔ حالانکہ اس میں سیاسی مفادات اور مقاصد رکھنے والے اور ان کے حوارین پیش پیش ہیں، مگر سچائی اپنی جگہ ہے اور اسے مان لینے میں کوئی برائی نہیں ہے کہ موجودہ ایم ایل اے ہمارے اندر آپسی انتشار پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے اور وہ اس میں ایک حد تک کامیاب بھی ہوا ہے۔ لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا یہ پہلی بار ہوا ہے؟ کیا تنظیم اورمسلمانوں کے اتحاد میں سینگ لگانے کی کوشش پہلے کسی نے نہیں کی؟ کیا ہمارے اپنے اندر موجودایسے عناصرنے اپنے سیاسی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے اس طرح کی کارروائیاں انتخابات کے دوران انجام نہیں دی ہیں؟ کیا ہم نے ماضی میں اجتماعی طور پر کسی غلط فیصلے کی وجہ سے ہماری اپنی سیاسی قیادت کی راہیں خود ہی بند نہیں کردی تھیں، جس کاخمیازہ آج ہمیں بھگتنا پڑرہا ہو۔ اور موجودہ ایم ایل اے نے تنظیم سے مبینہ دوری کا جو رویہ اپنایا ہے ، وہ اس کی مسلم دشمنی یا فسطائی رجحان کا نتیجہ ہے یا پھر اس کے کچھ دوسرے عوامل اور محرکات بھی موجود ہیں ؟اس پہلوپر بھی بات ہونی چاہیے، کیونکہ ہم نے خود بن باس لینے کا کیا تھا فیصلہ
یار اب مڑ مڑ کے سوئے بام و در کیا دیکھنا !
(۔۔۔۔۔سلسلہ جاری ہے۔۔۔۔۔آئندہ قسط ملاحظہ کیجیے) (نوٹ: مندرجہ بالا مضمون میں درج تمام تر تحریر مضمون نگار کے اپنے خیالات اور آراء پر مشتمل ہے۔اس سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں)